ونسٹن چرچل(1874۔ 1965ء) دوسری جنگِ عظیم میں برطانیہ کے وزیراعظم تھے۔ یہ جنگ، یکم ستمبر 1939ء کو شروع ہوئی تھی اور 14اگست1945ء کو ختم ہوئی۔ جنگ کے اِن چھ برسوں میں برطانیہ کا بدترین دور وہ تھا جب جرمنی نے مئی1940ء میں فرانس پر حملہ کرکے وہاں فرانس اور برطانیہ کی مشترکہ افواج کو شکستِ فاش دے دی تھی اور ڈنکرک کی بندرگاہ کے راستے برطانیہ اور فرانس کی تقریباً ڈھائی تین لاکھ نفری پر مشتمل افواج دریدہ وردیوں میں ملبوس اور بغیر جوتوں کے انگلستان پہنچی تھیں۔ سارے یورپ پر جرمنی کا قبضہ ہوگیا تھا، صرف برطانیہ باقی بچا تھا۔ ہٹلر نے جولائی 1940ء میں برطانیہ پر فضائی یلغار کردی تھی اور برطانیہ فال ہوتے ہوتے بچا تھا۔ آزمائش کی ان گھڑیوں میں ایک برطانوی صحافی نے بیٹل آف برٹن (برطانیہ کی لڑائی) کے دوران چرچل کا انٹرویو کیا۔ اس انٹرویو میں صحافی نے برطانوی وزیراعظم سے ایک مشکل سوال پوچھا جو اس طرح تھا: ’’مسٹر پرائم منسٹر آپ کی زندگی کا مایوس ترین لمحہ کون سا تھا؟‘‘ صحافی کو یقین تھا کہ چرچل کا جواب وہی ہوگا جو اُس وقت کی واحد سپر پاور کے حوالے سے دنیا بھر کے عوام میں محسوس کیا جارہا تھا۔ 10مئی1940ء کو جرمن افواج نے فرانس پر جو حملہ کیا تھا اور صرف آٹھ دس دن میں پیرس کو روندتی ہوئی انگلش چینل تک جا پہنچی تھیں اور خطرہ تھا کہ جرمن فوج، انگلش چینل عبور کرکے برطانیہ پر چڑھائی کردے گی اور اس طرح برطانیہ عظمیٰ کا وہ غرور اور افتخار خاک میں مل جائے گا جو اس کو گزشتہ دو تین سو برسوں سے باقی دنیا کے ممالک پر حاصل تھا اور یہ مثل دنیا بھر میں مشہور ہوگئی تھی کہ برطانوی ایمپائر میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا… اس صحافی کا خیال یہ بھی تھا کہ شاید چرچل پہلی جنگِ عظیم میں گیلی پولی(ترکی) کی مہم (1915۔1916) میں برطانوی شکست کو یاد کریں گے جو برطانوی، آسٹریلوی اور نیوزی لینڈ کی افواج کو جنرل مصطفی کمال اتاترک کے ہاتھوں اٹھانی پڑی تھی اور جس میں حملہ آور اتحادی افواج کا زبردست جانی نقصان ہوا تھا۔ اس جنگِ عظیم اول میں بھی چرچل، برطانیہ عظمیٰ کی بحریہ کے فرسٹ سی لارڈ تھے اور گیلی پولی کی لڑائی کا سارا پلان انہوں نے ہی مرتب کیا تھا۔ گیلی پولی کی شکست چرچل کی بدترین ناکامیوں میں شمار کی جاتی ہے۔ لیکن چرچل نے صحافی کے سوال کا جواب دینے کے لیے جب زبان کھولی تو ایک ایسا جواب دیا جو آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ انہوں نے کہا: ’’میری زندگی کا مایوس ترین لمحہ وہ تھا جب ہماری اتحادی افواج جون 1944ء میں ساحلِ نارمنڈی پر اُتر چکی تھیں اور جرمنوں کو پیچھے دھکیلتی ہوئی برلن کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ فیلڈ مارشل منٹگمری کا آرمی گروپ جرمن دارالحکومت کے قریب پہنچ چکا تھا اور خیال تھا کہ ہٹلر کسی بھی وقت ہتھیار ڈال دے گا… اس صورتِ حال میں دسمبر 1944ء کی ایک سرد ترین رات تھی اور مَیں لندن کی 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں اپنے چھوٹے سے دفتر میں بیٹھا کسی بھی لمحے اچھی خبر سننے کا منتظر تھا۔ لندن بلکہ پورے برطانیہ میں جرمنی کے ہوائی حملوں اور وی ٹو راکٹوں کے حملوں کا خطرہ بھی تھا، اِس لیے برطانیہ کے طول وعرض میں بلیک آؤٹ جاری تھا۔ باہر برف باری ہورہی تھی اور میری اسٹڈی (اوطاقِ مطالعہ) کے برنر (انگیٹھی) میں سرخ سرخ انگارے ایک ایسی گرمائش فراہم کررہے تھے جو مجھ جیسے کہن سال پرائم منسٹر کو گزشتہ کئی برسوں میں شاید ہی میسر آئی ہو۔ صبح کے تین بج رہے تھے اور میں سونے کی تیاری کررہا تھا۔ میرا معمول تھا کہ سونے سے پہلے کسی کتاب کا مطالعہ ضرور کرکے سوتا تھا۔ مَیں نے حسبِ معمول خادم کو آواز دی اور کہا کہ فلاں الماری کے فلاں شیلف میں فلاں کتاب رکھی ہے، اسے لے آؤ۔ وہ واپس آکر کہنے لگا: ’’سر! آپ کی لائبریری کا وہ کمرہ مقفل ہے اور لائبریرین جس جگہ چابی رکھ کے جاتا ہے، وہاں کوئی چابی موجود نہیں۔ اگر حکم دیں تو لائبریری آفیسر کو فون کرکے ان سے پوچھ لوں کہ چابی کہاں ہے۔ اور اگر وہ اپنے ساتھ لے گئے ہیں تو تھوڑی دیر کے لیے آجائیں اور آپ کی مطلوبہ کتاب دے کر واپس چلے جائیں…‘‘ میں خادم کی بات سن کر خاموش ہوگیا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ لائبریری آفیسر کو اِس وقت جگاؤں اور صرف چابی کا ’’پتا‘‘ پوچھوں۔ میں نے سوچا کہ وہ دل میں کیا کہے گا کہ ہمارے وزیراعظم کو اپنی رعایا کے آرام کا اتنا بھی خیال نہیں کہ صبحِ کاذب کے اندھیرے میں ایک کتاب کے لیے اُس کو طلب کیا جا رہا ہے۔‘‘
اتنا کہنے کے بعد چرچل خاموش ہوگئے۔ شاید اس رات کا منظر ان کی آنکھوں میں گھوم رہا تھا۔ پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا: ’’اس رات کے وہ لمحات میری زندگی کے مایوس ترین لمحات تھے!‘‘
)لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان(
مجلس اقبال
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
یہ شعر کل کی طرح آج بھی اہلِ مغرب کی حکومتوں کی منافقانہ پالیسی بیان کرتا ہے کہ ان کی حکومتیں علم و حکمت اور فلسفہ کی تعلیم کے دعوے تو بہت کرتی ہیں، جس طرح برصغیر میں برطانوی راج میں ہورہا تھا کہ اصل میں تو وحشی اور ظالم مگر زبان پر حقوق، محبت، انسانیت اور مساوات جیسے دعوے ہوتے تھے۔ آج کے حالات میں عراق، افغانستان، لیبیا اور شام وغیرہ مسلمان ممالک میں مغربی وحشت و دہشت اور درندگی کا منظر دیکھیں اور ان کی زبانوں پر امن و حقوقِ انسانی جیسے دعوے، تو ان کی منافقانہ روش سامنے آجاتی ہے۔ کس قدر غضب کا مقام ہے کہ پورے عالمِ اسلام پر ننگی جارحیت کے ارتکاب اور آگ و بارود کی موسلادھار بارش کے باوجود عالمی سلامتی کونسل کے مالکان بنے ہوئے ہیں۔ یوں ’’پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات‘‘۔ حقیقت میں علامہ کے الفاظ میں گویا مستقبل کی پالیسی ہے۔