سیلاب کی تباہ کاریاں اور ہمارا اجتماعی رویہ

مملکت خداداد، اسلامی جمہوریہ پاکستان اس وقت سیاسی سماجی، معاشی اور اخلاقی ہر طرح کے بحرانوں کی زد میں ہے، ہر طرف ’’جس کی لاٹھی، اس کی بھینس‘‘ کا منظر ہے، جنگل کے بھی قانون کا ذکر کیا جاتا ہے مگر ہمارے یہاں آئین و قانون کا شور تو بہت سنائی دیتا ہے ہر کوئی انہی کی دہائی دیتا ہے مگر عملاً ان کی حیثیت ’موم کی ناک‘ سے زیادہ کچھ نہیں، ہر طاقت ور اسے اپنی ضرورت کے مطابق جس وقت چاہتا ہے، جس طرف چاہتا ہے موڑ لیتا ہے۔ غریب اور کمزور کا کوئی پر سان حال نہیں، معاشرہ انہیں عزت دینے پر تیار ہے نہ ان کا حق۔ عدالتیں آخری امید ہوا کرتی ہیں مگر وہاں بھی غریب اور امیر، کمزور اور طاقت ور کے لیے قانون الگ الگ ہیں۔ انصاف کے معیارات طبقات کے تابع ہیں۔ اب کیفیت یہ ہے کہ بقول شاعر:
انسان کی آنکھ خشک تھی، انساں کے ظلم پر
اب روئے جو پہاڑ تو سیلاب آ گیا
اس وقت ہماری معاشرتی نا انصافیوں، اخلاقی زوال اور معاشی بد حالی پر اگر ایک طرف آسمان کے آنسو رواں ہیںتو دوسری جانب پہاڑ بھی گریہ کناں ہیں جس سے ملک کے طول و عرض میں سیلاب کا سماں ہے۔ رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں جون سے شروع ہونے والی بارشوں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا، یہی حال سندھ خصوصاً صوبائی دارالحکومت اور ملک کی معاشی شہ رگ کراچی کا بھی ہے ملک کے باقی حصوں میں بھی صورت حال مختلف نہیں۔
سینکڑوں لوگ سیلابی ریلوں کی زد میں آ کر جان کی بازی ہار چکے، درجنوں خستہ حال مکانوں تلے دب کر جہان فانی سے کوچ کر گئے، لاکھوں بے گھر ہو کر نان شبینہ کے محتاج ہیں۔ ہزاروں ایکڑ زمین پر کھڑی فصلیںسیلابی پانی بہا لے گیا ہے، بستیوں کی بستیاں پانی میں ڈوب چکی ہیں، ہزاروں میل لمبی سڑکوں کا نام نشان مٹ گیا ہے، سینکڑوں پل اپنا وجود کھو چکے، میلوں طویل ریلوے ٹریک تباہ اور ناکارہ ہو چکا… شہروں کا حال دیہات سے بدتر ہے، پانی کی نکاسی کا مناسب بندوبست نہ ہونے کے باعث زندگی اجیرن بن چکی لوگوں کا قیمتی سامان پانی کی نذر ہو گیا… شدید بارشوں کے دوران بجلی کی بندش شہریوں کے مصائب کو دو چند کر رہی ہے۔ عام شہری تو ایک طرف نوبت یہاں تک پہنچی کہ بلوچستان میں اس سیلابی آفت نے امدادی سرگرمیوں کی نگرانی میں مصروف پاک فوج کے ایک لیفٹیننٹ جنرل اور چھ افسروں کو بھی نگل لیا ہے۔
بارش یقینا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے مگر ہم نے اپنی نا اہلی اور کاہلی کے سبب اسے اپنے لیے زحمت بنا لیا ہے۔ ہم سارا سال پانی کی قلت کا رونا روتے رہتے ہیں مگر جب باران رحمت کا نزول ہوتا ہے تو ہماری اجتماعی اور انفرادی سطح پر لاپرواہی اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث آسمان سے نازل ہونے والے پانی کوسنبھال کر بہتر استعمال میں لانے اور سال کے باقی دنوں میں اس کی قلت کے ازالہ کا اہتمام کرنے کی بجائے ہم خود کو اس کے ہاتھوں بے بس پاتے اوراسے اپنی تباہی کا سبب بننے کا موقع فراہم کرتے ہیں… حقیقت یہ ہے کہ ہماری وفاقی و صوبائی حکومتیں اور متعلقہ ادارے بارشوں اور سیلابی پانی کی تباہ کاریوں سے بچنے اور اس کے مفید استعمال کی منصوبہ بندی کرنے میں قطعی ناکام رہی ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی سطح پر اس ضمن میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی…کس قدر دکھ کا مقام ہے کہ ہم نصف صدی قبل بنائے گئے تربیلا اور منگلا ڈیم کے بعد آج تک کوئی بڑا ڈیم تک نہیں بنا سکے اس ضمن میں لمبی چوڑی تقریریں اور قصے کہانیاں تو طویل عرصہ سے لوگوں کو سنائے جا رہے ہیں مگر برسرزمین آج تک کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی… اور ہمارے حکمران طویل عرصہ سے مختلف حیلوں بہانوں سے اس جانب سے مسلسل پہلو تہی اور غفلت کا مظاہرہ کرتے چلے آ رہے ہیں…!!!
ہمارا انفرادی سطح پر طرز عمل بھی اس اجتماعی رویے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں، بارشیں اچانک نہیں آتیں، ہمیں ہر سال انہیں دنوں میں ان سے واسطہ پڑتا ہے بلکہ اب تو محکمہ موسمیات ان کی شدت اور متوقع وقت کے بارے میں بھی قبل از وقت ہی آگاہ اور انتباہ کر دیتا ہے مگر ہم نہ اجتماعی طور پر اور نہ ہی انفرادی طور پر سنجیدگی سے ان کے نقصانات سے بچائو کی تدبیر کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔جس کے نتیجے میں نقصان کے حجم میں خاصا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہم انفرادی سطح پر اپنے شکستہ اور خستہ حال مکانات کی بروقت مرمت کر لیں اور اپنے گلی، محلے میں نکاسی آب کے نظام اور برقی تنصیبات کو درست کرنے پر معمولی توجہ بھی دے لیں تو بہت سے بڑے بڑے نقصانات سے محفوظ رہا جا سکتا ہے مگر کوئی اس جانب توجہ دینے کی زحمت ہی نہیں کرتا…!!!
ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کی سطح پر تو بے حسی اس انتہا کو پہنچ چکی ہے اس وقت جب کہ ہر طرف تباہی و بربادی کے مناظر نمایاں ہیں، یہ باہم جوتم پیزار ہیں، انہیں ایک دوسرے پر الزام تراشی اور اتہام بازی سے فرصت نہیں… کسی کو احساس تک نہیں کہ بارشوں کے متاثرین اور جانی و مالی نقصان کے باعث تباہ حال اپنے ہم وطنوں کے لیے اگر کوئی ٹھوس عملی اقدام یا امداد نہیں تو کم از کم لفظی ہمدردی کے دو بول ہی بول دیں صرف جماعت اسلامی اس مشکل وقت میں اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کے لیے میدان عمل میں ہے اور اہل وطن کو بھی اس جانب متوجہ کر رہی ہے…!!!
(حامد ریاض ڈوگر)