اُس روز ادارہ فروغِ قومی زبان، اسلام آباد میں ایک تقریب ہورہی تھی۔ یہ تقریب جشنِ الماسی کے سلسلۂ تقاریب کا حصہ تھی۔ موضوع تھا: ’’اُردو میں ادبِ اطفال کے پچھتر سال‘‘۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ عاجز بھی ایک طفلِ ادبِ اطفال ہے۔ سو، اس حقیر، فقیر، پُرتقصیر اور مشہور شاعر جناب امجد اسلام امجدؔ کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر کو بھی اس پُروقار محفل میں گفتگو کا اعزاز بخش دیا گیا۔ مہمانِ اعزازی اُردو ادبِ اطفال کی موجودہ وسعتوںکا ذکر کرتے ہوئے جب یہ بتارہا تھا کہ
’’ہماری اس تقریب کو بھارت سمیت، دنیا کے کئی ملکوں کے شائقینِ اُردو ادبِ اطفال، برقی ربط پر دیکھ اور سن رہے ہیں۔ نئی دہلی سے ادبِ اطفال کے ایک عظیم خدمت گار محترم سراج عظیم صاحب نے اس تقریب کا ربط مجھ سے رابطہ کرکے خود طلب فرمایا تھا…‘‘
تواس مرحلے پر ادارہ فروغِ قومی زبان کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر رؤف احمد پاریکھ صاحب نے حاظرین، ناظرین اور سامعین سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’ایک وضاحت کردوں۔ حاطب صاحب چوں کہ انگریزی کا کوئی لفظ نہیں بولتے، تو وہ Link’ ‘کو ربط کہہ رہے ہیں‘‘۔
تقریب کے اختتام پر، اختتامی صفوں سے اُٹھ کر، ایک طالبہ تیزی سے مہمان کے پاس آئی۔ بعدِ سلام، خوش کُن کلام کیا:
’’ونڈر فُل۔ سر! آپ نے کمال کردیا۔ ڈاکٹر صاحب کے مینشن کرنے پر میں نے آپ کی پوری اسپیچ غور سے سنی۔ ہاؤ پاسیبل کہ انگلش کا کوئی ورڈ منہ سے نہ نکلے۔ مگر مان گئی سر مان گئی۔ کمّال ہے سر! آپ انگلش ورڈز بالکل نہیں بولتے‘‘۔ لڑکی جانے کیا کیا بولے گئی۔
عرض کیا: ’’نہیں بی بی! ایسی بات نہیں۔ پورے اڑتیس سال پاکستان کے قومی فضائی ادارے میں ملازمت کی ہے۔ شعبۂ بازار کاری میں۔ میری ذمے داری پاکستانی مالِ تجارت کی بیرونِ ملک ترسیل سے متعلق تھی۔آئے دن غیر ملکی صارفین سے گفت و شنید کرنی پڑتی تھی۔ تب میں خوب خوب انگریزی بولتا تھا۔ اورگوروں سے انگریزی بولتے وقت اُردو کا ایک لفظ زبان پر نہیں آنے دیتا تھا‘‘۔
لڑکی ہنس پڑی۔ کھلکھلا کرکہنے لگی: ’’سر! انگلش میں اگر آپ اُردو مِکس کر کرکے بولتے تو آپ کا جوک نہ بن جاتا؟‘‘
مہمان بھی اخلاقاً ہنسا۔ ہنس کر صرف اتنا کہا: ’’گھر جاکر ذرا غور کیجیے گا کہ آپ کے اس فقرے کی مار کہاں کہاں پڑرہی ہے‘‘۔
خوانندگانِ گرامی! اپنی زبان بولتے ہوئے، اپنی ہی زبان بولنا، کوئی ہنر یا کمال نہیں۔ لیکن آج کل تو بقولِ شاعر:
اوج پر ہے کمالِ بے ہنری
باکمالوں میں گھِر گیا ہوں میں
ہاں، دوسروں کی زبان پر عبورپانا البتہ کمال ہے۔ یہ کمال مولانا محمد علی جوہرؒ میں بھی پایا گیا اور محترم ضیاء محی الدین میں بھی۔ مولانا محمد علی جوہرؔ کی لکھی ہوئی انگریزی پڑھنے اور بولی ہوئی انگریزی سننے کو انگریز بھی بے تاب رہا کرتے تھے۔ مشہور ماہر نشریات ضیاء محی الدین کو کبھی انگریزی بولتے سنیے تو اُن کا لب و لہجہ اور تلفظ اہلِ زبان انگریزوں کے لہجے سے لگّا کھاتا محسوس ہوتا ہے۔ آپ کو ضیاء محی الدین کی بولی ہوئی انگریزی کی صرف آواز سنوائی جائے تو یہی سمجھیں گے کہ شاید وسطی لندن کا رہنے والا کوئی انگریز بن بن کر بول رہا ہے۔ فیصل آباد میں پیدا ہونے والے ضیاء محی الدین نے اپنے دورِ جوانی میں برطانیہ کی انگریزی فلموں میں اداکاری کی ہے۔ ای ایم فوسٹر کے مشہور ناول “A passage to India”پر فلم بنائی گئی تو اُس میں ضیاء صاحب نے ڈاکٹر عزیز کا کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ مشہور و معروف فلم “Lawrence of Arabia” میں بھی ایک اہم کردار کیا۔ اب آپ کو مولانا محمد علی جوہرؔ تو ملیں گے نہیں۔ ملے بھی تو اگلے جہان میں ملیں گے، وہ بھی صرف جنتیوں کو۔ جب کہ ضیاء محی الدین صاحب سے، اللہ اُن کی عمر دراز کرے، ہر کوئی مل سکتا ہے۔ ذرا اُن سے مل کر دیکھیے۔ ورنہ سمعی و بصری ذرائع ابلاغ پر پائے جانے والے اُن کے ’صوتیے‘ سن کر اور اُن کے ’بصریے‘ دیکھ کر بتائیے کہ جب وہ اردو بولتے ہیں توکیا اُس میں انگریزی کا کوئی لفظ ناحق ٹھونکتے ہیں، انگریزی پر اتنا عبور ہونے کے باوجود؟ ضیاء صاحب کی زبان میں جو مٹھاس ہے، جو دل کشی ہے اور جو حسن ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ جب وہ اُردو بولتے ہیں تو اُردو ہی بولتے ہیں۔
اسی طرح ملا واحدی اور مختار مسعود کی میسر کتب پڑھ لیجیے۔ ہر دو کی نثر میں اسی باعث آپ کو زبان کا رس ملے گا۔ ذرا چند فقرے ’’میرے زمانے کی دلّی‘‘ سے، اور چند فقرے ’’حرفِ شوق‘‘ سے ملاحظہ فرمائیے۔ ’’میرے زمانے کی دلّی‘‘ میں ملا واحدی لکھتے ہیں:
’’ابتداً ہندو، مسلمان اور عیسائی طلبہ کے لیے انگریزی کے الگ الگ مختص القوم مدرسے نہیں تھے۔ سب مل جل کر پڑھتے تھے۔ اس لیے باہمی یگانگت قائم تھی… میری ابتدائی عمر تک دلی کے ہندو مسلمانوں کا طرزِ رہائش یکساں تھا۔ ہندو مسلمانوں کا لباس یکساں تھا۔ ہندو مسلمان دونوں چغے پہنتے تھے۔ ہندو اس نوع کی اُردو بولتے تھے’جامِ حیات لبریز ہے، چھلکنے کی دیر ہے‘۔ ایک ہندو مہترانی اپنی بہو سے لڑ رہی تھی۔ لڑتے لڑتے کہنے لگی: چپ ہوتی ہے یا حلق میں جھاڑو ٹھونس دوں۔ معلوم ہوگا دُم دار تارا نکل آیا‘‘۔
’’حرفِ شوق‘‘ میں مختار مسعود لکھتے ہیں: ’’ایک دن حکومتِ پنجاب نے خود پہل کرتے ہوئے دو نوجوان افسروں کے لیے انگلستان میں مالیاتی اُمور کی تربیت حاصل کرنے کا منصوبہ تیار کیا اور مرکزی حکومت کو ارسال کردیا۔ یہ پاکستان کے ابتدائی سالوں کی بات ہے۔ اُن دنوں ملازمت کا دستور لچک دار تھا اور اس قسم کی پیش قدمی کی گنجائش موجود تھی۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ لاہور سے بھیجے ہوئے منصوبے کی کراچی اور لندن سے منظوری کی اطلاع آگئی۔ تخصیصی تربیت کے لیے مجھے اور عبدالقیوم کو منتخب کیا گیا۔ میں وقت پر لندن روانہ ہوگیا۔ عبدالقیوم نے کسی معمولی بات کی خاطر ایک ہفتہ کے لیے روانگی ملتوی کردی۔ دریاؤں میں پانی چڑھ آیا۔ سیلاب میں ریل کی پٹری اُکھڑ گئی۔ سڑکیں بہہ گئیں۔ عبدالقیوم کی نام زدگی پر بھی پانی پھر گیا‘‘۔
پشاور سے پوچھا ہے حماد گلزار نے: ’’نثر کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے، بول چال اور خاص کر لکھنے کے لیے؟ کوئی کتاب یا رائے؟‘‘
تولکھنے والی نثر، لکھنے کی مشق سے بہتر ہوتی ہے اور بولنے والی نثر بولنے کی مشق سے۔ درست معانی ہی جاننے کے لیے نہیں، درست املا تحریر کرنے کے لیے اور درست تلفظ ادا کرنے کے لیے بھی لغت سے مدد لیجے۔ یہ کالم نگار اسلام آباد کی جس عالمی جامعہ میں اپنی اُستادی دکھاتا ہے، وہاں ’علومِ ابلاغیات‘ کے طلبہ و طالبات سے کبھی کبھی ایک دلچسپ سرگرمی کرواتا ہے۔ کمرۂ جماعت میں موجود ہر طالب علم اور ہر طالبہ صرف پانچ جملے ایسے بول کر بتائے جن میں انگریزی کا کوئی لفظ نہ آئے۔ آخرآپ کو یہاں سے ’استادانہ مہارت‘ کی سند لے کر اُن برقی ذرائع ابلاغ پر بولنا ہے جو بزعمِ خود ’اُردو ذرائع ابلاغ‘ کہلاتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ ہی رائے عامہ بناتے ہیں۔ عوامی بولی بھی یہی ٹھیک یا خراب کرتے ہیں۔ آپ اپنی بولی یہیں ٹھیک کرلیجے۔ کمرۂ جماعت کی یہ سرگرمی بڑی قہقہہ بار اور خوشی سے سرشار ہوتی ہے۔ طلبہ و طالبات خود ایک دوسرے کو، زبان پر چڑھے ہوئے انگریزی الفاظ کا، اُردو متبادل بتاتے ہیں۔ یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ بچے اچھی اُردو بول کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ دعا ہے اچھے نمبروں سے’استاد بہ علومِ ابلاغیات‘ بنیں۔ ‘Master of Media Sciences’
صاحبو! ذرا سوچیے کہ جب ہم اس قسم کے فقرے سنتے ہیں تو کیا مراد لیتے ہیں کہ فلاں شخص کی انگریزی بہت اچھی ہے یا فلاں شخص فرانسیسی زبان پر مہارت رکھتا ہے یا فلاں صاحب جرمن بہت اچھی بول لیتے ہیں یا فلاں استاد کو عربی زبان پر عبور ہے۔ مگرافسوس کہ ذرائع ابلاغ کے حلق میں ٹھنسی ہوئی اُردو زبان سنتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ’دُم دار تارا نکل آیا‘۔