آئینِ پاکستان 1973ء اور اسلام مارشل لا، عدلیہ اورپارلیمان کا کردار

زیر نظر کتاب ڈاکٹر شہزاد اقبال شام صاحب کے پی ایچ ڈی کے مقالے کی کتابی شکل ہے۔ ڈاکٹر شہزاد اقبال شام بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے شریعت اور قانون میں سند یافتہ ہیں۔ اسی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کی زیر نگرانی آپ نے دستوری مباحث میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ تدریسی زندگی کا مختصر سا عرصہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں گزار کر خود اپنی مادرِ عملی میں تقریباً تین عشروں تک تدریسی و تحقیقی خدمات سر انجام دے کر آپ پروفیسر کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ وہاں انہوں نے متعدد مراسلاتی کورس جاری کرکے کامیابی سے چلائے۔ کئی کتابوں کے مؤلف ہیں۔ دنیا کے مختلف حصوں میں آپ نے اسلامی قانون پر کئی تربیتی پروگرام منعقد کرائے اور متعدد عالمی کانفرنسوں میں شرکت کرچکے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سے منسلک ہیں۔
ڈاکٹر خالد رحمٰن چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز تحریر فرماتے ہیں:
’’اس کام کے کرنے سے مجھے ذاتی طور پر کیا فائدہ ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو آج کے معاشرے میں کسی بھی انسانی عمل کے لیے بنیادی محرک بن گیا ہے۔ بظاہر اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی اور دنیا کے ارتقا کے لیے جو انتظامات کیے ہیں ان میں سے ایک اہم انتظام یہ ہے کہ ہر انسان آگے بڑھنے اور کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ تاہم مشکل اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسانی عمل کے لیے محرک محض مادی فائدہ اور منافع ہو۔ آج کی دنیا کے بہت سے مسائل اسی بنا پر ہیں کہ عمل اور قوتِ عمل کا انحصار مادی ترقی اور وسائل کے حصول پر ہوتا جارہا ہے۔ اس صورتِ حال میں ریاستی ادارے ہوں یا نجی شعبہ… اقتصادی دائرہ ہو یا سماجی اور سیاسی میدان… اخلاقی اقتدار اجنبی بنتی جارہی ہیں۔
تحقیق کا میدان بھی اس حوالے سے کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔ اس میدان میں ماضی اور بالخصوص مسلمانوں کی روایت پر نگاہ ڈالی جائے تو صاحبانِ علم اپنے شوق اور دلچسپی کی بنیاد پر یہاں سرگرم ہوتے تھے۔ انہیں معاشرے کی جانب سے ملنے والی سرپرستی بھی اسی بنا پر ہوتی تھی کہ اس طرح وہ اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ معاشرے کی ترقی، انسانی فلاح اور اصلاحِ احوال کے لیے کوئی کردار ادا کرسکیں۔ تاہم دوسرے بہت سے معاملات کی طرح بدلتے حالات میں تحقیق کا محرک اور مقصد و مدعا بھی ذاتی اور مالی مفاد کا حصول بنتا جارہا ہے۔ اعلیٰ سند کا حصول، یا حصولِ سند کے بعد اس کی بنیاد پر ملازمت اور ترقی کے مواقع میں سہولت حاصل ہوجانا ہی تحقیق کی معراج بن گیا ہے۔
موضوع کے انتخاب سے لے کر تحقیق کے پورے عمل، نتائجِ تحقیق اور ان کی اشاعت، غرض ہر ہر مرحلے پر یہی محرک کام کررہا ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ پاکستانی جامعات میں تحقیق کرنے والے اساتذہ اور طلبہ کی تعداد، اور ان کی جانب سے پیش کیے جانے والے مقالات کی تعداد میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، معیار کے اعتبار سے ان مقالات میں اسی قدر کمزوری نظر آتی ہے۔
اس تناظر میں شہزاد اقبال شام کی زیرنظر کتاب ایک استثنیٰ کہلائی جانی چاہیے۔ اس کا موضوع پاکستان کا دستور اور اس کی اسلامی دفعات ہیں۔ ابتدائی طور پر یہ ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے، لیکن موضوع کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر انہوں نے اس پر کام جاری رکھا اور اس وقت] 2021ء[ تک دستورِ پاکستان میں ہونے والی تمام 26 ترامیم کا تجزیہ اس میں شامل کردیا ہے۔
دستور کسی بھی ملک کا ہو، جامد نہیں ہوتا۔ بدلتے حالات اور ضروریات کے مطابق اس میں ترامیم جاری رہتی ہیں۔ البتہ کسی بھی دستور میں شامل وہ دفعات جو اس دستور کے لیے بنیاد (Grundnorm) کی حیثیت رکھتی ہیں انہیں کسی حقیقی اور غیر معمولی ضروری کے بغیر تبدیل کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے دستور میںدفعہ نمبر2کی، جو قراردادِ مقاصد پر مبنی ہے، یہی حیثیت سمجھی جانی چاہیے۔
زیر نظر کتاب میں ڈاکٹر شہزاد اقبال شام صاحب نے سب سے پہلے تو قراردادِ مقاصد کے حوالے سے گزشتہ 70 سال کے عرصے میں ہونے والے پارلیمانی اور عدالتی مباحث کا اس طرح عام فہم انداز میں تجزیہ کردیا ہے کہ دستوری اور قانونی پیچیدگیوں کو نہ سمجھنے والے قارئین بھی اس سے باآسانی استفادہ کرسکتے ہیں۔ پاکستان میں دستور سازی کے لیے وضع کردہ اس بنیادی دستاویز کے تناظر میں، اس کے ساتھ ہی دستور میں ہونے والی ہرہر ترمیم کا پس منظر، اس سے متعلق مختلف اداروں اور شخصیات کا کردار اور اس حوالے سے دستور کے اسلامی مشتملات پر پڑنے والے اثرات کا بھی تفصیلی جائزہ کتاب میں موجود ہے۔ اس طرح یہ کتاب بیک وقت دستور و قانون اور سیاسیات کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے پاکستان کی سیاسی و آئینی تاریخ کا بھی کسی قدر احاطہ کرلیتی ہے۔
پاکستان کے سیاسی حالات میں اتار چڑھائو کی مسلسل کیفیت ایک معمول کی بات ہے۔ اتار چڑھائو کی وجوہات داخلی بھی ہیں اور بیرونی دنیا میں ہونے والے واقعات بھی اس کا ایک سبب ہیں۔ سیاسی اتار چڑھائو کا اثر دستور اور قوانین پر بھی پڑتا رہا ہے اور آئندہ بھی پڑے گا۔ ایسے میں یہ مباحث محض طلبہ اور محققین کے لیے ہی نہیں، پالیسی سازوں کے لیے بھی رہنمائی فراہم کریں گے۔ دوسری جانب کتاب کی اشاعت ایک ایسے موقع پر ہورہی ہے جب پڑوسی ملک افغانستان میں امریکی مداخلت کے خاتمے کے بعد ایک نئی حکومت قائم ہونے جارہی ہے۔ اس نئی حکومت کی شناخت، اس کا اسلامی حوالہ ہے۔ یہ وہ ماحول ہے جس میں ایک مثالی اسلامی دستور اور دستور کی اسلامی دفعات پر نئے سرے سے مباحث شروع ہورہے ہیں۔ ایسے میں اس کتاب کی اشاعت کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے‘‘۔
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام نے کتاب پر مبسوط مقدمہ تحریر فرمایا ہے۔ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے:
٭ پہلا باب… مثالی اسلامی دستور معاصر فکر کی نظر میں
-1 تمہید، -2 حاکمیت ِالٰہیہ: قرآن و سنت کی بالادستی کا اقرار، -3حاکمیت ِاعلیٰ کا تصور مسلم فکر میں
(1) قائداعظم کا تصورِ دستور، (2) علامہ محمد اسد کے دستوری تصورات، (3) مذہبی طبقے کے دستوری رجحانات، (4) مولانا ظفر احمد انصاری کی دستوری فکر، (5) جناب اے کے بروہی کے دستوری تصورات، (6) سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کا تصور ِدستور، (7) ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے دستوری تصورات، (8) شہاب الدین کمیشن، (9) اسلامی کونسل آف یورپ کا دستوری خاکہ
-4دستور پاکستان میں اسلامی فکر پر طائرانہ نظر:
(1)دیباچہ، (2) ریاست کا نام، (3) ریاست کا مذہب، (4) قراردادِ مقاصد، (5) تقریر و اظہار کی آزادی مشروط بہ اسلام، (6) اسلامی طرزِ زندگی کی ضمانت، (7) مطالعہ اسلام لازمی کا اہتمام، (8) شراب اور دیگر اخلاقی برائیوں کا امتناع، (9) سود کی ممانعت، (10) اسلامی اتحاد اور مسلم ممالک سے برادرانہ تعلقات، (11) صدر کا مسلمان ہونا، (12) شرائط رکنیت پارلیمنٹ، (13) وفاقی شرعی عدالت، (14) شریعت اپیلٹ بینچ، (15)اسلامی نظریاتی کونسل، (16) قراردادِ مقاصد کی ابتدا، (17) صدارتی حلف کی ابتدا اور متن، (18) وزیراعظم کے حلف کی عبارت، (19) دیگر دستوری مناصب کے حلف کی عبارتیں۔
-5 خلاصہ کلام۔
٭دوسرا باب: قرارداد مقاصد، شارعین اور عدلیہ
-1 قرارداد مقاصد 1949ء تا 1973ء کی اسمبلیوں میں
(1) تمہید، (2) پہلی دستور ساز اسمبلی میں، (3) قرارداد مقاصد دستور 1956ء میں، (4) قراردادِ مقاصد 1962ء کے دستور میں، (5) قراردادِ مقاصد 1973ء کے دستور میں، (6) قراردادِ مقاصد دستور 1973ء میں بطور آرٹیکل 2 اے۔
-2قرارداد مقاصد قانونی حلقوں میں
(1) سینیٹر پروفیسر خورشید احمد، (2) خالد ایم اسحق ایڈووکیٹ، (3) ایس ایم ظفر سابق وزیر قانون
-3 قراردادِ مقاصد اور عدلیہ
(1) قراردادِ مقاصد پر سپریم کورٹ کا پہلا اہم فیصلہ، (2) اپنے ہی فیصلے کی بالعکس تعبیر و تشریح، (3) سپریم کورٹ کے دوسرے فیصلے کا محاکمہ، (4) قراردادِ مقاصد پر فیصلہ: لاہور ہائی کورٹ سے ابتدا، (5) سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ، (6) سپریم کورٹ کا زیر نظر فیصلہ اصولِ فقہ کی روشنی میں
٭تیسرا باب: قرارداد مقاصد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا محاکمہ
-1 تمہید اور توضیحات
(1) دستور کی تعبیر و تشریح: دو ضروری وضاحتیں، (2) مسئلے کی نوعیت ، (3) دستوری مسائل میں اصولِ فقہ کی ضرورت؟
-2 تعارض اولہ
(1) علمائے علوم اسلامیہ کا طریق کار، (2) تعارض کی ماہیئت، (3) مجتہد کی الجھن اور اس کا ارتفاع
-3 تعارض اولۃ پر ایک نظر، -4 تعارض پر قوانین کی تعبیر و تشریح کے موجودہ عدالتی طریقے
(1) پہلا طریقہ: قانون بحیثیت کُل، (2) دوسرا طریقہ: متعارض دفعات پر نظر، (3) عام (General) اور خاص (Special) میں تعارض، (4) چوتھا طریقہ: مضمراتی تعبیر (Implication Construction)، (5) پانچواں طریقہ: دفعات میں قوت و ضعف، ارتفاع تضاد کا نیا اصول، (6) چھٹا طریقہ: قانونی فروگزاشت (Causus Omissus) کی تلاش
-5 اصول تعبیر و تشریح، سپریم کورٹ اور قرارداد مقاصد سے متعلق فیصلہ
(1) جسٹس نسیم حسن شاہ کے لیے دیگر ممکنہ راستے
-6 فیصلے کا عمومی جائزہ
٭چوتھا باب: دستور پر مارشل لا 1977ء کے اثرات
-1 دستوری ترامیم پر اثر انداز دو بنیادی عوامل
(1) پہلا محرک: تحریک نظام مصطفی، (2) دوسرا محرک: جنرل محمد ضیا الحق کے ذاتی میلانات، (3) دونوں محرکات پر بیرونی دنیا کا عمومی ردعمل
-2 فوجی حکومت کی دستوری تبدیلیاں: پہلا دور
(1)ہائی کورٹوں میں شریعت بینچوں کا قیام، (2) وفاقی شرعی عدالت کا قیام، (3) اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیلِ نو، (4) انصاری کمیشن کا قیام، (5) اسلامی نظام حکومت پر اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات
-3 فوجی عہد میں دستور کی اسلامی تشکیل: دوسرا دور
(1) دستوری تبدیلیاں بحیثیت ِمجموعی، (2) دستوری تبدیلیوں پر مختصر تبصرہ
٭ پانچواں باب: دستور کی اسلامی دفعات اور 1999ء کی فوجی حکومت
-1 نئی فوجی حکومت، ایجنڈا اور پرویز مشرف
(1) فوجی حکومت کا سات نکاتی ایجنڈا، (2)پرویز مشرف کے ذاتی میلانات
-2 فوجی حکومت:سپریم کورٹ کا آئینی فیصلہ
(1) فیصلے کے اہم نکات، (2) ’’اسلامی دفعات‘‘ کا مسئلہ، (3) اسلامی دفعات بحیثیت ِمجموعی انتظامیہ کی نظر میں، (4) باقی اسلامی دفعات
-3 لیگل فریم ورک آرڈر مجریہ 2002ء
(1) جداگانہ طریق انتخاب میں تبدیلی، (2) الگ اقلیتی نشستوں کا مسئلہ، (3) الیکشن کمیشن کی رائے، (4) اقلیتی انتخاب کا تجزیہ، (5) مخلوط انتخابات کیوں؟، (6) لادینیت اور مخلوط انتخابات میں ربط، (7) مخلوط طریق انتخاب کے مضمرات، (8) انتخابات 2002ء کے کچھ نتائج اور ان کا تجزیہ، (9) جدید جمہوری عمل اور مخلوط انتخابات: چند امکانات، (10) اسلامی دفعات اور جمہوریت کے مغربی پیمانے، (11) طریق انتخاب: مسئلے کا حل۔
-4 ملکی سیاست پر مخلوط طریق انتخاب کے ممکنہ اثرات
(1) سندھ اسمبلی کے ایک حلقے کے نتائج اور تجزیہ، (2) سیاست میں لادین عنصر کا وجود اور ممکنہ اثرات
-5 ظفر علی شاہ کیس: سپریم کورٹ کے فیصلے کا اجمالی جائزہ
(1) عدالتی فیصلہ، فوجی حکومت اور دستوری ترمیم،
(2) فیصلے کا محاکمہ
٭چھٹا باب: دستور کی اسلامی دفعات میں پارلیمانی ترامیم
(1) تعارف، (2) پہلی ترمیم:نئی ملکی حد بندی، (3) دوسری ترمیم: احمدی خارج ازاسلام
(1) ترمیم کا پس منظر
-4 تیسری تا چھٹی ترمیم، -5 ساتویں ترمیم: وزیراعظم کی خواہش پر ریفرنڈم، -6 آٹھویں ترمیم: مارشل لا دور کی 24 ترامیم کا مجموعہ، -7 نویں ترمیم: شریعت بطور بنیادی قانون مملکت، -8 دسویں تا چودھویں ترمیم، -9 پندرویں ترمیم: شریعتِ اسلامی کی فوقیت
(1) نویں اور پندرہویں ترمیم کا مختصر موازنہ
-10 سولہویں ترمیم: مخصوص علاقائی ملازمتوں کی مدت میں اضافہ، -11 سترہویں ترمیم: فوجی آمریت کو تحفظ، -12 اٹھارہویں ترمیم: دستور میں جوہری تبدیلیاں
(1)وزیراعظم کا مذہب، (2) وفاقی شرعی عدالت کے ججوں کی اہلیت، (3) ارکان اسلامی نظریاتی کونسل
-13 انیسویں ترمیم: عدلیہ اور الیکشن کمیشن، -14بیسویں ترمیم: الیکشن کمیشن اور آزادانہ و منصفانہ انتخابات، -15 اکیسویں ترمیم: دہشت گردی اور فوجی عدالتوں کا قیام، -16 بائیسویں ترمیم: الیکشن کمیشن سے متعلق امور، -17 تیئسویں ترمیم: فوجی عدالتوں کی حیاتِ نو۔
اپنے موضوع پر یہ بڑی اہم کتاب ہے، اس میں تمام متعلقہ معلومات جمع کردی گئی ہیں، خاص طور پر آئینی اور قانونی ماہرین اور سیاسی کارکنوں کے لیے بیش قیمت اطلاعات اس میں جمع ہوگئی ہیں۔ ڈاکٹر شہزاد کی یہ کتاب اُن کے پی ایچ ڈی کے مقالے پر تحقیقِ مزید ہے اور اس کو انہوں نے کتابی صورت میں طبع کرکے اردو کی قانونی لائبریری میں وقیع اضافہ کیا ہے۔ کتاب عمدہ طبع ہوئی ہے۔