بلوچستان میں طوفانی بارشیں

جماعت اسلامی کی امدادی سرگرمیاں حکومتی ادارے خاموش تماشائی

بلوچستان میں حالیہ طوفانی بارشوں سے ہونے والی تباہ کاریوں اور مخدوش صورتِ حال نے پوری قوم کو فکرمند کردیا ہے۔ مرکزی شاہراہوں پر درجنوں پُل پانی میں بہہ گئے ہیں اور عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ دورئہ بلوچستان کے وقت راقم الحروف کو حکومتی اعلانات عملی طور پر کہیں نظر نہیں آئے۔ کچھ مذہبی و دینی جماعتوں کے کارکنان کو مصروفِ عمل دیکھا جو قابلِ تحسین عمل ہے۔ اس کے علاوہ کراچی سے آئے ہوئے چند نوجوانوں کو جماعت اسلامی کے مرکز نورالہدیٰ کیمپ بیلہ میں موجود پایا جنہوں نے آل پاکستان پکنک ٹور پر ناران، کاغان جانے کے بجائے جماعت اسلامی کے کسی کارکن کے کہنے پر 25لاکھ روپے کی خطیر رقم چار دنوں کے قیام کے دوران متاثرین کے لیے امدادی اشیا پر خرچ کی۔

جماعت اسلامی سندھ کی طرف سے بھی امدادی اشیا کا ٹرک اور متاثرین میں تقسیم کے مناظر دیکھے۔ ان رہنمائوں کے ساتھ الخدمت کی طرف سے قائم خیمہ بستی بھی دیکھی جہاں متاثرین اپنے خاندانوں کے ساتھ موجود تھے جو بات چیت کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے، کیونکہ ان کے پیارے پانی کے ریلے میں بہہ گئے، مکانات مخدوش ہوکر زمیں بوس ہوگئے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت کے لوگ آئے، سروے کیا، اعلانات کیے، ہم غریبوں کے ساتھ تصاویر بنوائیں اور چلے گئے، مگر ہمیں نہ امداد ملی اور نہ سر چھپانے کو جگہ۔ شکر ہے کہ جماعت اسلامی والوں نے ہمارے خاندان کو سر چھپانے کے لیے جگہ دی اور خوراک کا بھی انتظام کیا ہوا ہے۔ اللہ ان کا بھلا کرے۔

امیر جماعت اسلامی سندھ و سابق رکن قومی اسمبلی محمد حسین محنتی نے لسبیلہ بلوچستان میں الخدمت خیمہ بستی کا دورہ کیا اور سیلاب متاثرین میں امدادی سامان تقسیم کیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حالیہ بارشوں کی وجہ سے بلوچستان میں بڑے پیمانے پر تباہی آئی ہے۔ مواصلاتی نظام تباہ ہوگیا، سیکڑوں افراد پانی میں بہہ گئے، فصلوں، کچے گھروں و املاک کو نقصان پہنچا ہے، یہ اللہ کی طرف سے آزمائش اور حکومتی نااہلی کا نتیجہ ہے۔ اس سے زیادہ حکومتی غفلت کیا ہوسکتی ہے کہ بارش کو 20 دن گزر جانے اور وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے متاثرہ علاقوں میں ایمرجنسی کے اعلان کے باوجود آج بھی بیلہ تحصیل کے کئی گائوں آمد و رفت کے راستوں سے محروم اور حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔ بلوچستان کی پسماندگی اور محرومیوں کے ذمے دار جاگیردار طبقہ اور یہاں کے منتخب نمائندے ہیں۔ الخدمت نے اہلِ خیر کے تعاون سے اب تک متاثرین میں 5 کروڑ سے زیادہ مالیت کا امدادی سامان تقسیم کیا ہے جس میں خشک راشن، ٹینٹ، ادویہ اور پکا پکایا کھانا شامل ہے۔ تاہم متاثرین کی امداد و بحالی کا اصل کام ریاست کی ذمے داری ہے۔

بعد ازاں محمد حسین محنتی نے ضلع لسبیلہ بلوچستان کی تحصیل بیلہ میں الخدمت کے تحت سیلاب متاثرین میں امدادی سامان تقسیم کیا، خیمہ بستی کا دورہ کیا اور میڈیا سے بات چیت کی۔ صوبائی امیر نے مدرسہ نورالہدیٰ علی پنکھا میں متاثرین کے لیے قائم الخدمت میڈیکل کیمپ کا بھی دورہ کیا۔ منتظمین کے مطابق روزانہ سیکڑوں لوگوں کا علاج اور ادویہ دی جارہی ہیں۔ اس موقع پر بلوچستان کے نائب امیر مولانا اسماعیل مینگل، الخدمت بلوچستان کے صدر جمیل کرد، الخدمت سندھ کے خیر محمد تنیو، امیر ضلع بیلہ عبدالمالک رونجھو اور سندھ کے سیکریٹری اطلاعات مجاہد چنا بھی موجود تھے۔ صوبائی امیر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کا پانچ ارب روپے سے متاثرین کی امداد کے لیے قائم کردہ فنڈ خوش آئندہ ہے تاہم اس کو بھی بیوروکریسی کی کرپشن اور اقربا پروری کے بجائے بروقت اور حقیقی حق داروں تک پہنچانے کو یقینی بنایا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کی اقتداری رسّاکشی میں عوام رُل گئے ہیں جبکہ گالم گلوچ اور الزام تراشی کی سیاست نے ملک و جمہوریت کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ الخدمت فائونڈیشن بلوچستان کے صدر جمیل احمد کرد نے کہا کہ بلوچستان کے 34 میں سے 27 اضلاع بارش سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ 20 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے، تمام اضلاع میں بیک وقت الخدمت کے رضاکار ریلیف کے کاموں میں مصروف ہیں، تاہم جو کام حکومت اور اُس کے ماتحت اداروں کو کرنا چاہیے تھا بدقسمتی سے وہ نہیں کرسکے ہیں، جس کی وجہ سے بلوچستان کے عوام سخت اذیت سے دوچار ہیں۔ انہوں نے امیر جماعت اسلامی سندھ محمد حسین محنتی کی ٹیم کے ساتھ بلوچستان آمد اور بارش کے متاثرین سے اظہار ہمدردی و تعاون پر شکریہ ادا کیا۔ امیر ضلع لسبیلہ عبدالمالک رونجھو نے کہاکہ جماعت اسلامی اور الخدمت حسبِ حال بارش کے متاثرین کی خدمت کررہے ہیں۔ مدرسہ نورالہدیٰ میں مرکز قائم ہے، جہاں سے قریبی علاقوں میں راشن، پکا پکایا کھانا اور طبی سہولت دی جارہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ بارش کے دوران یہاں 15 دن تک بجلی نہیں تھی اور 20 سے زیادہ متاثرہ گوٹھوں کا تاحال مواصلاتی نظام تباہ ہے۔ حکومت اور اس کے ماتحت ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔