ـ14 اگست 1947ء یوم آزادی پر عوام و خواص کا اجتماعی ناٹک و ڈھونگ بلند و بانگ دعوے، عمل مفقود

27 رمضان المبارک جیسی مقدس شب میں 14 اگست 1947ء کو برصغیر کے مسلمانوں نے انگریزوں اور ہندوئوں سے ایک طویل آئینی، قانونی اور انتخابی کامیابیوں کے بعد آزادی جیسی عظیم نعمت حاصل کی۔ قائداعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنمائوں اور کارکنان نے غیر معمولی جدوجہد اور ناقابلِ یقین قربانیوں کے عمل سے گزر کر نہ صرف انگریزوں بلکہ ہندوئوں کو بھی ناکوں چنے چبواتے ہوئے عبرت ناک ہزیمت سے دوچار کرکے یہ مملکتِ خداداد کرۂ ارض کے نقشے پر سجا کے دکھادی۔

اس نوائیدہ مملکت کے حصول کا مقصد مسلمانوں کو محض حقِ حکومت و اقتدار اور اختیار ہی عطا کرنا نہیں تھا بلکہ اس مملکتِ خداداد یعنی پاکستان کے حصول و آزادی کا مقصود و منشور یہ تھا کہ برصغیر کے مسلمان عوام دو قومی نظریے کے تحت ہندوئوں کے تسلط سے محفوظ ہوکر آزادانہ و خودمختارانہ اندازِ حکمرانی سے اپنے اسلامی تشخص اور قرآن و سنت کے قوانین و ضابطے نافذ کرکے پوری دنیا کے سامنے ایک مثالی، اسلامی فلاحی مملکت کی قابلِ تقلید مثال پیش کرسکیں۔ واضح رہے کہ کسی بھی اسلامی معاشرے کے خدوخال اور نفاذ میں قرآن و سنت ہی کی بدولت دیانت داری، عدل و انصاف، حقوق و فرائض کی ادائی اور حقوق العباد کی پذیرائی و فراہمی ہی سے عوام ایک فلاحی، جمہوری، پُرامن معاشرہ اور شاندار طرزِ زندگی حاصل کرسکتے ہیں۔

لہٰذا ایسے اہم اور لازمی اغراض و مقاصد کے لیے ہندو جیسی متعصب و کینہ پرور قوم سے نجات و علیحدگی لازمی تھی۔ چنانچہ دو قومی نظریے کے تحت قائم کی گئی آل انڈیا مسلم لیگ اور خصوصاً بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے معاشرتی و سیاسی حالات اور علاقائی و بین الاقوامی سیاسی و معاشی کشمکش و ریشہ دوانیوں کے عالمی ماحول میں برصغیر کے مسلمانوں کو تعصب و انتشار اور زوال سے محفوظ رکھنے کے لیے اللہ کی رحمت سے ایک آزاد و خودمختار مملکت پاکستان قائم کی۔

واضح رہے کہ پاکستان کا قیام قرآن و سنت کے نفاذ و اسلامی طرزِ زندگی کے حصول کے لیے عمل میں آیا تھا، کیونکہ مملکتِ خداداد یعنی پاکستان کا مطلب ہے ’’لاالٰہ الا اللہ‘‘، لیکن حصولِ پاکستان کے بعد بتدریج وہ قابلِ تشویش و مذمت گروہ بھی منظرعام پر آگئے ہیں جو قائداعظم کی فکر و فلسفے اور انتھک جدوجہد کو سیکولر نظریات کا سبب و نتیجہ منوانے کی سعیِ لاحاصل میں سرگرداں ہیں۔

بالفرض ایسے غیر دینی، سیکولر اور اقلیتی گروہ کا یہ کمزور و ناتواں اور بے بنیاد مفروضہ عارضی طور پر کچھ دیر کے لیے درست بھی تسلیم کرلیا جائے تو پھر بابائے قوم بانیِ پاکستان قائداعظم کے دستِ راست لیاقت علی خان اور ہمارے دیگر سیکڑوں راہنما جن میں علی برادران، مولانا ظفر علی خان، مولانا حسرت موہانی، شیر بنگال مولوی فضل الحق، نواب بہادر یار جنگ، مولانا عبدالحامد بدایونی، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال، چودھری رحمت علی، چودھری خلیق الزماں، سر عبداللہ ہارون، محترمہ فاطمہ جناح، محترمہ امجدی بیگم زوجہ مولانا محمد علی جوہر، بلوچ رہنما قاضی ایم عیسیٰ، اکوڑہ خٹک کے محمد امین پیر آف مانکی شریف، علامہ شبیر احمد عثمانی، خواجہ ناظم الدین اور بے شمار دیگر، اور30 دسمبر 1906ء کو ڈھاکا میں قائم ہونے والی آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی اراکین جن میں نواب سر سلیم اللہ، حکیم اجمل خان، نواب وقار الملک، سر محمد شفیع وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

اگر سیکولرازم کے حوالے سے الزامات کا جائزہ لیا جائے تو یہ امر غور طلب ہے کہ متذکرہ بالا شخصیات اور تحریک پاکستان کے یہ تمام سرکردہ و ممتاز سیاسی رہنما بھی سیکولر فکر کے حامی تھے، اور اگر واقعتاً ایسا نہیں ہے تو پھر یہ تمام اکابرین و بزرگ بھلا کیوں کر ایک سیکولر فلسفہء حیات و سیاست اور ریاست کے حامی لیڈر کے پرچم تلے تحریک پاکستان کے دو قومی نظریے کے بندھن میں جکڑے ہوئے تحریک پاکستان کے قافلے میں شامل ہوتے چلے گئے تھے۔

بالفرض محال اگر تحریک پاکستان کے یہ تمام اکابرین و رہنما ایک بے دین، سیکولر ریاست کے منتظر و خواہاں تھے تو پھر ’’پاکستان کا مطلب کیا، لاالٰہ الا اللہ‘‘ کا نعرہ کیسے اور کیوں کر برصغیر کے مسلمان عوام و خواص کے دلوں میں گھر کرکے پھیلتا چلاگیا؟
درحقیقت وطن عزیز کے حصول میں اس قومی نعرے کی عوام و خواص میں مقبولیت و پذیرائی بآسانی اس حقیقت کو واضح کررہی ہے کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لاالٰہ الا اللہ‘‘ کہہ کر اس حقیقت کو دل و جان سے تسلیم و منظور کیا جارہا ہے کہ نوزائیدہ مملکت پاکستان ایک مکمل اسلامی ریاست ہوگی جہاں آباد مسلمان بہ حکمِ الٰہی قرآن و سنت کے مطابق آزادی و خودمختاری کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرسکیں گے۔ بصورتِ دیگر ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ وطن کی ضرورت ہی پیش نہ آتی، کیوں کہ انگریز کے جانے کے بعد کانگریس اور ہندوئوں کو ایک نام نہاد سیکولر آئین ہی تشکیل دینا تھا۔

لہٰذا پورے برصغیر کے مسلمان رہنما بشمول قائداعظم اور عوام اس حوالے سے استقامت سے ایک ہی صفحے پرتھے کہ پاکستان کا مطلب ’’لاالٰہ الاللہ‘‘ کے سوا اور کچھ نہیں، یعنی قیام پاکستان قرآن و سنت کے نفاذ و حکمرانی کے لیے ناگزیر ہے۔

بہرکیف قیام پاکستان کے بعد ہم نے جو طرزِعمل اختیار کیا وہ ڈھکا چھپا نہیں۔ جن اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے یہ مملکت لاکھوں انسانوں کی قربانیاں دے کر حاصل کی گئی تھی وہ سب کچھ ہم نے بڑی سرعت و خودغرضی سے فراموش کردیا، ہم نے انفرادی و اجتماعی طور پر عدل و انصاف، دیانت داری اور حقوق و فرائض کی ادائی کو بڑی بے دردی سے ترک کردیا۔ طاقتور اداروں کے حاکموں، سربراہوں اور سرپرست افراد کو استثنا عطا کیا جانے لگا۔ ان کو لغرشوں، کوتاہیوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے باوجود تحفظ فراہم کردینے کی قبیح رسم محض اس لیے شروع کردی گئی کہ اداروں کو بدنامی سے بچایا جاسکے، حالانکہ شخصی کوتاہیوں کا ملبہ اس کوتاہی کے مرتکب فرد پر ہی عائد ہوتا ہے نہ کہ اس کے ادارے پر۔

اسی طرح ہم نے ماورائے عدالت قتل کو غیر اعلانیہ استثنا دے کر سرکاری اہلکاروں کو مادرپدر آزادی عطا کردی، جس کے نتیجے میں سانحۂ ماڈل ٹائون، سانحۂ ساہیوال اور رائو انوار کے ہاتھوں درجنوں افراد کی ہلاکتوں کے شرم ناک الزامات بدنما داغ بن کر تعفن پھیلا رہے ہیں، اور غیر محفوظ و ہراساں معاشرے کو مزید کمزور و ناتواں کرنے کا سبب بن گئے ہیں۔

اسی طرح ہم نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حکمرانوں کو بھی احتساب سے بالاتر سمجھنا شروع کردیا ہے۔ اگر ہماری عدالتیں حکمرانوں، صاحبانِ اقتدار و اشرافیہ کے مفادات کے برخلاف کوئی فیصلہ کر بیٹھیں تو ایسے فیصلوں کو جانب دارانہ اور متنازع قرار دینے کے لیے بنا دلیل و شواہد دن رات ایک کردیے جاتے ہیں۔

جب کہ درحقیقت مسلمانوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام میں کوئی بھی احتساب سے بالاتر نہیں، قانون سب کے لیے برابر ہوتا ہے، اور کسی بھی عہدے دار یا شخصیت کو استثنا دینا بذاتِ خود ایک جرم و گناہ ہے۔ قرآن و سنت کی رو سے سب مسلمان برابر ہیں۔ ہمیں کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اللہ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ اگر میری بیٹی چوری کرتی تو اس کے بھی ہاتھ قلم کردیے جاتے۔ اللہ رب العزت کمی بیشی معاف فرمائے لیکن یہ جملے مسلمانوں کے مابین عدل و انصاف کے قیام کے علاوہ احتساب کے یکساں و مؤثر نفاذ کی فرضیت سے بھی بخوبی آگاہ کررہے ہیں۔ اسی طرح ایک موقع پر شیرِ خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا کہ کفر کی حکومت چل سکتی ہے مگر ظلم کی حکومت نہیں چل سکتی۔
پاکستانی عوام کی مشکلات و زبوں حالی کا مسئلہ تو بڑا ہی دردناک و الم ناک ہے، مزید کریدنا ان زخموں پر نمک پاشی کے مترادف قرار دیا جاسکتا ہے۔

ہماری قوم ہر سال 14 اگست کو اپنا یوم آزادی، 23 مارچ کو یوم پاکستان، اور بانیِ پاکستان قائداعظم اور شاعر مشرق علامہ اقبال کے یوم پیدائش کے ساتھ ساتھ دیگر اسلامی تہوار بھی بڑے جوش و خروش، ولولے اور جذبوں سے منایا کرتی ہے۔ نظریہ پاکستان و شریعت کے تحفظ اور ملک و قوم کی خودمختاری و سالمیت اور تعمیر و ترقی کا دل و جان سے عہد بھی کرتی ہے، لیکن اس سب کے باوجود ہم اگلے روز ہی سے ہمیشہ کی طرح اپنے اپنے ذاتی مفادات کے حصول میں گم ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ہم لوگوں کے درمیان لسانی، گروہی، نسلی اور فرقہ وارانہ مفادات پوری شدت کے ساتھ بیدار و متحرک ہوجایا کرتے ہیں۔

پاکستانی عوام و خواص 15 اگست سے آئندہ سال کی 13 اگست تک ریاست پاکستان کے اقتصادی، معاشی، سماجی و معاشرتی حقوق و فرائض کے برخلاف بغیر کسی شرم و ہچکچاہٹ اور ندامت کے زندگی بسر کیا کرتے ہیں۔ ہم لوگ اپنے اپنے ذاتی اور معمولی مقاصد و مفادات کے لیے مملکت کے اجتماعی اور قومی وسائل و مفادات کو بڑی بے دردی سے قربان کررہے ہیں۔ پاکستانی عوام کی ایک بڑی اکثریت 15 اگست سے لے کر اگلے سال کی 13 اگست تک قومی وسائل و اثاثوں کی بندربانٹ، لوٹ کھسوٹ اور ضیاع میں مصروفِ عمل رہتی ہے۔ پاکستانی ادارے، حکمران طاقتور و بااثر حلقے اور اشرافیہ جنگل کے قوانین اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے نفاذ کے علاوہ باہمی استثنا کی فراہمی میں 15 اگست سے اگلے سال کی 13 اگست تک بڑی مستعدی و چابک دستی اور جاں فشانی سے منہمک ہوجایا کرتے ہیں۔

جب کہ 14 اگست کے روز تمام پاکستانی قوم بشمول حکمران یوم آزادی بڑے جوش و خروش اور نمود و نمائش کے جذبے سے مناتے ہیں۔ پاکستان کی عظمت و سلامتی کا ذکر اور عہد کرتے ہیں۔ خوب ناچ گانے اور مخلوط محافل و تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے، گویا یہی وہ راستے ہیں جو وطن سے محبت و وفاداری اور عقیدت کا اظہار بہت واضح اور مؤثر طریقے سے کیا کرتے ہیں؟

جب کہ درحقیقت زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ عوام و خواص کے اس مصنوعی، ظاہری جوش و جذبے کا نقلی و عارضی لبادہ اور وقتی ڈھونگ و ناٹک محض ایک روزہ میں ہوا ہوجاتا ہے، جس کی میعاد 14 اگست کی صبح سے لے کر شب 12 بجے تک ہی ہوا کرتی ہے۔ ہم ملک و ملت کے ساتھ کیے گئے اپنے عہد و پیمان کو ساری زندگی تک نبھانے کے بجائے اگلے ہی روز یعنی 15 اگست کی صبح بیداری کے ساتھ ہی یکسر فراموش کردیا کرتے ہیں۔

ہمارے عوام و خواص کی ایک کثیر تعداد ان اعمال و افعال اور مشاغل میں مصروف ہوجایا کرتی ہے جو کہ سراسر وطن عزیز کی تعمیر و ترقی، تحفظ و استحکام کے علاوہ ملک و ملت کی سلامتی اور مفادات کے برخلاف اور ہماری اپنی جڑیں کھوکھلی کرنے کے مترادف ہیں۔ ایسی سرگرمیوں کے نتیجے میں قومی معاشی حجم، شرح نمو، ہماری معاشی ترقی، غیر ملکی سرمایہ کاری، مقامی سرمایہ کاری اور شرح مبادلہ کا زوال پذیر ہوجانا اغیار اور دشمنوں کو ہمارے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے لیے ایک آسان و سازگار ماحول اور ملک و ملت کے غدار فراہم کردیتا ہے۔

ہماری اقتصادی و معاشی کمزوریاں اور زوال ہمارے عالمی سیاسی کردار کو محدود و مجروح کرتے چلے جارہے ہیں۔ پاکستان جو کہ انڈونیشیا کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ایک ایسا واحد مسلمان ملک ہے جو کہ ایٹمی قوت کا حامل ہے، لیکن اس کے باوجود وہ نہ تو سلامتی کونسل کا مستقبل ممبر ہے اور نہ ہی او آئی سی کے ممبر ممالک میں اپنی آبادی، ایٹمی صلاحیت اور علاقائی سیاست و تنازعات کے تناظرمیں اسے کوئی خصوصی مقام و مرتبہ یا مراعات حاصل ہیں۔بانیِ پاکستان قائداعظم نے ایک موقع پر کشمیر کو ہماری شہہ رگ قرار دیا تھا، چنانچہ ہماری قوم مقبوضہ کشمیر سے کبھی بھی بے نیاز و دست بردار نہیں ہوسکتی۔

واضح رہے کہ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے جس کا قیام و بقا اور عروج اسلام کے اصولوں اور اللہ کے آخری نبی حضرت محمدؐ کی حیاتِ طیبہ اور قرآن و سنت کی پیروی اور تقلید میں پوشیدہ ہے۔ آج ہم نے جھوٹ و منافقت، بدعہدی و وعدہ خلافی اور مکر جانے جیسے قبیح افعال کو یو ٹرن کا نام دے دیا ہے۔

ہم آج اپنے رہنمائوں کے انتخاب کی بنیاد صداقت و امانت اور دیانت داری یا کارکردگی کے بجائے ان کے بتلائے اور پھیلائے جانے والے بیانیوں یا پروپیگنڈوں کی بنیاد پر کرنے لگے ہیں۔

گویا کہ جھوٹ، فریب، ڈھونگ اور ناٹک ہی کی مصنوعی اور کمزور بنیادوں پر ریاست پاکستان کی سیاست، معیشت و معاشرت کو استوار کیے جانے کے مکروہ اور گھنائونے کھیل کا بیج بڑی چابک دستی سے عالمی اسٹیبلشمنٹ نے بو دیا ہے جو کہ بروقت و فوری بیخ کنی اور تدارک کے نتیجے میں ہی جڑ سے اکھاڑ پھینکا جاسکتا ہے۔

بانیِ پاکستان قائداعظم کہا کرتے تھے کہ ملک و ملت کی ترقی کا راز ’’ایمان، تنظیم، اتحاد اور یقین محکم‘‘ میں مضمر ہے۔

اگر آج ہماری پاکستانی قوم قائداعظم محمد علی جناح کے متعین کردہ ان بنیادی و لازمی اصولوں پر دیانت داری سے عمل پیرا ہوجائے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت اہلِ پاکستان کی تعمیر و ترقی، استحکام و سالمیت اور رائے شماری کے منتظر مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی راہ میں حائل نہ ہوسکے گی اور دنیا بھر کی بین الاقوامی برادری میں پاکستان کا شمار صف ِاول کے ترقی یافتہ، مستحکم، خودمختار اور فلاحی ممالک میں ہوگا۔