رائے عامہ اور سماجی معیارات کی تشکیل میں ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کا کردار

خانۂ فرہنگ کوئٹہ کے زیر انتظام گفتگو کا اہتمام

اسلامی جمہوریہ ایران کے کوئٹہ میں قائم خانہ فرہنگ میں ماہ جولائی کی 2 تاریخ کو ’’رائے عامہ اور سماجی معیارات کی تشکیل میں ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کا کردار‘‘ کے عنوان سے گفتگو کا اہتمام کیا گیا، جس میں کوئٹہ کے صحافیوں، ادیبوں، دانش وروں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ کوئٹہ میں قائم ایرانی قونصل خانے کے قونصل جنرل حسن درویش وند نے صدارت کی۔ کوئٹہ پریس کلب کے صدر برادرم عبدالخالق رند کی دعوت پر راقم بھی شریک ہوا۔ خطاب کا موقع بھی دیا گیا۔ خانہ فرہنگ کے ڈائریکٹر جنرل آقائے واقفی کا خطاب ابتدائی تھا۔ تقاریر میں ترتیب اور مراتب کا خیال ملحوظ نہ رکھا گیا۔ موضوع کا حق بھی ادا نہ ہوسکا۔ بہرحال نشست کا مقصد دونوں برادر و ہمسایہ ممالک کے درمیان ہم آہنگی، مختلف شعبوں کے اندر ارتباط اور پیش رفت کی فضا بنانا تھا۔ ذرائع ابلاغ کے توسط سے مشترکات کی ضرورت و اہمیت کو آگے بڑھانے کی کاوش تھی۔

ایران کئی حوالوں سے قابلِ تقلید ہے۔ خصوصاً ایرانی انقلاب بیسویں صدی کا عظیم انقلاب ہے، جس میں ایرانی عوام نے امام خمینی کی قیادت میں زبردست جدوجہد کے بعد واشنگٹن، لندن اور تل ابیب کے زیراثر و زیرحفاظت ساٹھ سالہ استبدادی شاہی نظام سے چھٹکارا پاکر استقلال حاصل کیا۔ کمیونسٹ روس ایران میں تودہ پارٹی کے ذریعے اشتراکی نظام کا خواہش مند تھا۔ شاہ کے خلاف تحریک میں فدائین خلق اور تودہ پارٹی نظام و اقتدار اپنے حق میں لینے کی کوششوں میں تھے۔ تودہ پارٹی انقلاب سے پہلے کے ایام میں اسلحہ اکٹھا کرنے میں لگی رہی، مسلح کارروائیوں کی منصوبہ بندی اس کے پیش نظر تھی۔ جبکہ درحقیقت ایرانی عوام کی اکثریت امام خمینی کی قیادت میں جمع تھی۔

امام کی تحاریر و تقاریر اور ابلاغ کے محدود ذرائع نے شاہی سرمائے سے چلنے والے تمام جدید ذرائع ابلاغ کی چلنے نہ دی۔ شاہ کی حکومت میں امریکی و برطانوی سفارت خانوں سمیت فوجی اور جاسوسی کے ادارے پورے ایران میں سرگرم تھے۔ خودمختاری کا حال یہ تھا کہ نیٹو کے سابق سربراہ امریکی فوجی’’جنرل ہائزر‘‘ 1979ء میں ایران میں داخل ہوئے تھے، مگر شاہ، اُس کی فوج اور جاسوسی کے ادارے بے خبر تھے۔ خبر ہوئی بھی تو یہ جنرل ایران میں اپنے مشن کے تحت فعال رہا۔ ایران میں اسرائیل کا سفارت خانہ قائم نہیں تھا، مگر خفیہ طور پر ایران میں جاسوس موجود تھے۔ ’’اوری دوبرائی‘‘ جو اسرائیلی موساد کا اہم عہدیدار تھا،خفیہ طور پر اسرائیلی سفیر کا کردار نبھا رہا تھا۔

امریکہ اور برطانیہ پیش ازیں ایران کے منتخب وزیراعظم ڈاکٹرمصدق کی حکومت گرانے میں کامیاب ہوئے تھے، اور اب شاہ کی حکومت کو تقویت دینے کے لیے سر جوڑ کر منصوبہ بندی کررہے تھے۔ لیکن سامراجی مدد کے باوجود شاہ کے ہاتھوں سے اقتدار کی باگیں چھوٹتی رہیں، کنٹرول دن بدن کمزور ہوتا گیا،کئی وزرائے اعظم تبدیل کیے گئے، حتیٰ کہ کچھ عرصے کے لیے فوجی حکومت کا گر بھی استعمال کیا گیا۔ طاقت کا استعمال تو روزِ اوّل ہورہا تھا۔ امام نے عوام سے فوجی شور و غوغا سے ڈرنے اور اس کی پروا نہ کرنے کی ہدایت کی، انہوں نے کہا کہ یہ ٹینک، توپ اور مشین گنیں زنگ آلود ہیں، آپ کا اور آپ کی تحریک کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔

جنرل ہائزر ایران میں موجود ہی تھے کہ امریکی صدر جمی کارٹر کے قومی سلامتی کے مشیر برزنسکی بھی تہران پہنچ گئے تھے، جنہوں نے ایرانی فوج کے جنرلوں کو اقتدار ہاتھ میں لینے کی شہ و ترغیب دینے کی سازشوں پر کام شروع کردیا۔ امریکہ ایران کی تیل کی صنعت بھی فوج کی تحویل میں دینا چاہتا تھا، مگر ایرانی جنرل اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ عوام ایران کی سڑکوں پر ہیں جو جدید اسلحہ سے لیس فوج کے مقابلے میں سینہ تان کر کھڑے تھے۔ ایران کی سات لاکھ سے زائد فوج اُس وقت مسلم دنیا کی بڑی اور منظم فوج سمجھی جاتی تھی، جو جدید ترین اسلحہ کی حامل تھی، چناں چہ خواہش کے باوجود اسے اقتدارپرقبضے کی ہمت نہ ہوسکی۔

امام خمینی کا ’’شاہ کو جانا ہوگا‘‘ کا نعرہ مقبول ہوتا گیا، یہاں تک کہ شاہ ملک چھوڑ کر فرار ہوگیا، فوجیوں نے خوف سے وردیاں اتار پھینکیں۔ شاہ کے جانے کے معاً بعد امام خمینی تہران کی سڑکوں پر اپنے عوام کے درمیان پہنچ گئے۔ خاندانی حکومت اور نظام زمیں بوس ہوا۔ تب سے اب تک ایران سامراج کی مالی و معاشی جکڑ بندیوں کا مقابلہ کررہا ہے۔ اپنی آزادی، خودمختاری اور استقلال کا دفاع کررہا ہے۔ بلاشبہ پاکستان اور ایران کے صحافی، ادیب اور دانشور تجارت، معاشی، اسلامی، تاریخی، تہذیبی، سماجی، تجارتی و ثقافتی ربط و ارتقا میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ یہاں افغانستان کی نئی حکومت کو بھی ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے کہ یہ تینوں ممالک کئی حوالوں سے مشترکہ مفادات رکھتے ہیں۔ تجارت کے لحاظ سے کئی اشیا اور اجناس کے تبادلے میں مزید وسعت لائی جاسکتی ہے۔
بلوچستان کے سرحدی اضلاع کے عوام کے معاش اور روزگار کا انحصار تقریباً ایران پر ہے۔ ایران بلوچستان کے سرحدی اضلاع کو104میگا واٹ بجلی بھی فراہم کررہا ہے۔ گزشتہ جولائی میں پاکستان کا مزید100میگا واٹ بجلی فراہمی کا معاہدہ ہوا جو ساحلی ضلع گوادر کو دی جائے گی۔ ایران بلوچستان کو مزید بجلی دینے کو بھی تیار ہے۔ ایران اور پاکستان کے درمیان 1990ء کی دہائی میں گیس پائپ لائن کا اہم معاہدہ ہوا تھا جو تاحال التوا کا شکار ہے، جس میں پاکستان کی طرف سے پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ ایران نے اپنی جانب سے پاکستان کی سرحد تک 900 کلومیٹر پائپ لائن کی تنصیب مکمل کرلی ہے۔ ایران نے ثالثی عدالت سے رجوع کرکے پاکستان کو تاخیر، اور عمل درآمد نہ کرنے پر نوٹس بھجوایا تھا۔

پاکستان اگرچہ تاخیر اور عدم پیش رفت کا جواز ایران پر عالمی پابندیاں بتاتا ہے، مگر یہ پہلو مدنظر رکھتے ہوئے پہلے ہی معاہدہ نہ کیا جاتا۔ یقیناً عالمی پابندیوں کے برعکس اپنے مفاد کے حصول کی گنجائش نکالنے کی تدبیر ہونی چاہیے، جبکہ پاکستان کو قدرتی گیس کی ضرورت بھی ہے۔ بھارت نے اپنی ضروریات اور دوسرے مقاصد کی خاطر خود کو تہران سے جوڑے رکھا ہے۔ اُس نے یہ نہیں دیکھاکہ کون ناراض ہوتا ہے یا کس نے ایران پر پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔ علی الخصوص بلوچستان اور اس کے سرحدی منطقوں کے لوگ تجارتی اور معاشی طور پر ایران سے مربوط ہیں، روزگار کا انحصار ایران پر ہے۔ حکومتی سطح پر مزید کئی تجارتی اور معاشی فوائد اور آسانیاں مہیا ہوسکتی ہیں۔ باہمی تعاون، آمدورفت اور تجارت کو مزید فروغ مل سکتا ہے۔ چیمبر آف کامرس قدرے فعال ہے۔ چناں چہ صحافی اور اہلِ قلم بالیاقت و بااستعداد ہوں تو نہ صرف اس تناظر میں بلکہ بعض دوسرے مسائل کے بارے میں بھی اچھا اور رہنما کردار نبھا سکتے ہیں جو دونوں ممالک کے مابین بداعتمادی کا باعث بنے ہیں۔ گویا گفتگو کے عنوان کے ساتھ ’’سوال دیگر،جواب دیگر‘‘ والا معاملہ ہوا۔ قونصل جنرل حسن وند نے البتہ اپنے خطاب میں موضوع کا احاطہ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے توجہ دلائی کہ میڈیا کے مختلف ذرائع مشترکات پر لکھیں، بولیں اور ترویج کا کام کریں۔