کراچی کیسے بدلے گا؟

کراچی کے لوگ 28اگست کو ترازو پر بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اعتماد کے ساتھ مہر لگائیں

کراچی… جہاں تعلیم ہے، شعور ہے، وسائل ہیں، ملک کی مجموعی آبادی کا 10 فیصد کراچی میں آباد ہے، اس شہر کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ یہاں ہر خطے کے باشندے آباد ہیں، یہ قائداعظم کا شہر ہے، اس کا شمار دنیا کے دس بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ کراچی ملک کے محصولات کا 70 فیصد فراہم کرتا ہے۔ کراچی میں ملک کی 60 فیصد صنعتیں موجود ہیں۔ اس وقت ملک کا یہ سب سے اہم شہر پھر جرائم پیشہ افراد کے نشانے پر ہے، آئے دن لوگ اپنی قیمتی چیزیں لٹا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ بہادر آباد کے علاقے میں اسسٹنٹ کمشنر فیروز آباد اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ تھیں، کہ انہیں لوٹ لیا گیا۔ اسسٹنٹ کمشنر فیروز آباد عاصمہ بتول اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ناشتا کرنے کے لیے بہادرآباد کے علاقے میں موجود تھیں، اس موقع پر ان کے 2 بچے اور شوہر بھی ہمراہ تھے کہ موٹر سائیکل سوار ملزم موبائل فون اور پرس چھین کر فرار ہوگیا۔
اس وقت کراچی کے لوگ کے الیکٹرک کی اذیت کا شکار ہیں، لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں مزید اضافہ ہوچکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ شہری کریں تو کیا کریں؟ بجلی اور پانی بنیادی ضرورت ہیں اور یہ دونوں، ریاست دینے میں ناکام ہے جس کی اذیت سے شہریوں کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے جاری بدترین لوڈشیڈنگ میں تمام دعووں کے باوجود کمی نہیں آسکی ہے بلکہ رات، دن کی تمیز کے بغیر یہ جاری ہے۔ کم یونٹ استعمال کرنے کے باوجود بجلی کے بل میں مختلف عنوانات سے لوٹا جارہا ہے۔ بارش کے بعد کراچی کسی کھنڈر کا منظر پیش کررہا تھا، اور اس کھنڈر میں آج بھی بارش کا پانی موجود ہے جو مختلف بیماریوں کی وجہ بن رہا ہے۔
بدقسمتی سے اس شہر کی 1980ء کی دہائی کے بعد یہی تاریخ ہے۔ شہر اجڑا پڑا ہے اور کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں خاموش ہیں، لیکن اس ساری صورت حال میں جماعت اسلامی آج بھی پوری طرح متحرک ہے۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن پورے شہر میں مختلف پروگراموں میں شریک ہورہے ہیں اور لوگوں سے اُن کے مسائل سن رہے ہیں، اور اس دوران پیغام دے رہے ہیں کہ اہلِ کراچی اپنی حق تلفی، شہر کی ابتر حالت اور عوامی مسائل کو اپنا مقدر سمجھنے اور قبول کرنے کے بجائے وفاقی و صوبائی حکومتوں سے اپنا حق لینے کے لیے اُٹھیں، جماعت اسلامی کی ”حق دو کراچی تحریک“ کا حصہ بنیں، جماعت اسلامی نے ماضی میں بھی شہر کو تعمیر و آباد کیا تھا اور آئندہ بھی کرے گی، عوام شہر کو تباہ و برباد کرنے والوں کو مسترد کردیں اور 28اگست کو ترازو پر مہر لگا کر جماعت اسلامی کے میئر کو کامیاب بنائیں۔ وہ بتارہے ہیں کہ سندھ حکومت اور اُس کے ماتحت بلدیہ کی نااہلی و ناقص کارکردگی نے پورے شہر کو کھنڈر بنادیا ہے۔ سڑکیں ادھڑ گئی ہیں، مرمت کا سارا نمائشی کام بارش کے پانی میں بہہ گیا، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر اور سیوریج کا پانی جمع ہے، روزانہ لاکھوں شہری منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرتے ہیں اور شدید ذہنی و جسمانی اذیت سے دوچار ہوتے ہیں، کے الیکٹرک کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نے عوام کی زندگی اجیرن بناکر رکھ دی ہے، وفاقی حکومت اور نیپرا عوام کو ریلیف دلوانے کے بجائے کے الیکٹرک کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں اور تمام حکمران پارٹیاں بھی کے الیکٹرک کے خلاف کوئی بات نہیں کرتیں۔ صرف جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جس نے ہمیشہ کے الیکٹرک کے خلاف کراچی کے عوام کا مقدمہ لڑا ہے اور شہر کے ہر اہم مسئلے پر آواز اُٹھائی ہے۔ بدقسمتی سے شہر کا مینڈیٹ لینے والی جماعتوں نے ہی شہر کو تباہ و برباد کیا، ایم کیو ایم نے ہمیشہ کراچی کے مینڈیٹ کا سودا کیا اور آج بھی وڈیروں اور جاگیرداروں کو تقویت دی جارہی ہے۔ پیپلز پارٹی 14سال سے سندھ پر مسلط ہے، کراچی کی تباہی و بربادی میں سب سے زیادہ حصہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا ہی رہا ہے، اور افسوس کہ پی ٹی آئی نے بھی ساڑھے تین سال میں کراچی کے لیے نہ صرف عملاً کچھ نہیں کیا بلکہ ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر کوٹہ سسٹم میں غیر معینہ مدت تک اضافہ کیا اور 2017ء میں نواز لیگ کے دور میں ہونے والی جعلی مردم شماری کو حتمی شکل دی جس میں کراچی کی آدھی آبادی کو غائب کردیا گیا۔ اس طرح اہلِ کراچی کی حق تلفی، مسائل اور تباہی و بربادی کی ذمہ داری پیپلز پارٹی، نواز لیگ، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی پر عائد ہوتی ہے۔ اس پورے حکمران ٹولے اور مافیاؤں سے نجات حاصل کیے بغیر اہلِ کراچی کے مسائل حل ہوسکتے ہیں نہ حالات بدل سکتے ہیں۔ حافظ نعیم ایک بات اور بار بار کراچی کے عوام کو بتارہے ہیں کہ ووٹر لسٹوں میں بڑے گھپلے اور خرابیاں پیدا کی گئی ہیں، اس لیے جس ووٹر کا ووٹ جہاں بھی ہو وہ ترازو پر مہر لگائے، ترازو پر لگنے والی ہر مہر کراچی میں جماعت اسلامی کے میئر کے لیے ہوگی۔
جماعت اسلامی شہر کراچی کے لیے امید اور حق کی آواز ہے۔ یہ پورے سماج کا قرض ہے جو جماعت اسلامی اور اس کے پُرعزم کارکنان ادا کررہے ہیں، اور یہ سب کچھ اس شہر کی حالتِ زار کو درست کرنے، اس کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بنانے اور اس کے مستقبل کو محفوظ رکھنے کے لیے کررہے ہیں۔ جماعت اسلامی نے اپنی اب تک کی جدوجہد سے ثابت کیا ہے کہ وہی اس شہر کو اس کا حق دلانے میں سنجیدہ ہے، اور شہر کو ”اون“ کرتی ہے۔ اسی لیے کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے لیے پوری فضا جماعت اسلامی کے حق میں بنی ہوئی ہے اور کراچی کے عوام کی کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستگی ہو ان میں سے اکثر کو بار بار یہ کہتے سنا جارہا ہے کہ کراچی کے لیے ووٹ جماعت اسلامی کو ہی دینا ہے کیونکہ کراچی کو دوبارہ چمکتا دمکتا جماعت اسلامی ہی بنا سکتی ہے اور حل جماعت اسلامی ہی ہے، اس نے ماضی میں یہ کرکے بھی دکھایا ہے۔ کراچی کے شہری اپنے اور کراچی کے حق کی اس جدوجہد میں گلی محلّوں کی سطح پر جماعت اسلامی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کررہے ہیں، امیر جماعت اسلامی کراچی کا جگہ جگہ پُرتپاک استقبال ہورہا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم خاص طور پر انتخابات سے فرار حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی انتخابات سے بدلے گا اور صرف اور صرف اسی طرح بدلے گا کہ کراچی کے لوگ 28اگست کو ترازو پر بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اعتماد کے ساتھ مہر لگائیں۔