1981ء، 1998ء اور 2017ء کی مردم شماری کا موازنہ
کسی بھی ملک کی مردم شماری کے اعداد و شمار ہمیں آبادی کی ساخت، سماجی و معاشی بہبود اور انسانی آبادیوں کی حقیقی حالت کے بارے میں بتاتے ہیں۔ مردم شماری کے اعداد و شمار اپنے طور پر کسی رجحان کی ترویج کا باعث نہیں بنتے۔ رجحانات کا اندازہ موجودہ اور سابق اعداد و شمار کے موازنے کی بنیاد پر لگایا جاتا ہے۔ بہرکیف، مردم شماری سے متعلق اعداد و شمار کو وسیع تر تناظر میں سمجھنے کے لیے لازم ہے کہ ان کا موازنہ اُتنے ہی بڑے اور اُتنی ہی اہمیت کے حامل کسی شہر کے اعداد و شمار سے کیا جائے۔
ہم نے زیرِ نظر مضمون میں 1981ء ، 1998ء اور 2017ء کی مردم شماری کے حوالے سے کراچی سے متعلق اعداد و شمار کا موازنہ کیا ہے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ اِن ادوار کے دوران کراچی کی مجموعی کیفیت اور کارکردگی کیا رہی ہے۔ بعد میں درجوں میں ہم نے کراچی کا موازنہ لاہور سے کیا ہے۔ اور خواندگی، حصولِ تعلیم اور ازدواجی زندگی کی مجموعی کیفیت کے حوالے سے کراچی کا موازنہ دہلی سے بھی کیا گیا ہے۔ کراچی، لاہور اور دہلی کی مردم شماری کے اعداد و شمار کی بنیاد پر ہم نے کراچی سے متعلق اپنی رائے قائم کی ہے۔
آبادی کی نوعیت
1981ء اور 1998ء کی مردم شماری کی درمیانی مدت میں کراچی کی آبادی 54 لاکھ 37 ہزار سے بڑھ کر 98 لاکھ 56 ہزار تک جا پہنچی۔ گویا آبادی میں سالانہ اضافے کی رفتار 3.56 فیصد رہی ۔ 1998ء سے 2017ء تک کی مدت کے دوران کراچی کی آبادی 61 لاکھ 85 ہزار کے اضافے سے ایک کروڑ 60 لاکھ سے زائد ہوگئی۔ اس مدت کے دوران کراچی کی آبادی میں سالانہ اضافے کی شرح 2.59 فیصد رہی۔ شہر پر آبادی کا دباؤ 2794 افراد فی مربع کلومیٹر سے بڑھ کر 4543 افراد فی مربع کلو میٹر ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں ماحول کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوئے۔
کراچی ملک کا سب سے بڑا اور آبادی کے اعتبار سے سب سے تیزی سے پنپتا ہوا شہر ہے۔ خیر، کراچی اور بھی بہت سے معاملات میں منفرد ہے۔ یہ ملک کا واحد مقام ہے جہاں مقامی اور صوبائی سیاسی رہنماؤں اور شہریوں نے مردم شماری کے اعداد و شمار پر تحفظات ظاہر کیے ہیں اور اس پر اصرار کیا ہے کہ کراچی کی آباد ڈھائی کروڑ یا اِس سے بھی زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں شہروں کی آبادی میں اضافے پر نظر رکھنے والی تنظیم نیو جیوگرافی ڈاٹ کام کے فراہم کردہ اعداد و شمار نے بھی اس دعوے کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس تنظیم یا ویب سائٹ کے مطابق اپریل 2016ء میں کراچی کی آبادی 2 کروڑ 28 لاکھ تھی۔
دنیا بھر میں مردم شماری کے اعداد و شمار کی بنیاد پر شہری منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے اور آبادی و رقبے کے اعتبار سے مزید پھیلتے ہوئے شہر کے بارے میں مردم شماری کے اعداد و شمار کیا کہتے ہیں، اور یہ کہ شہر کی آبادی کس طور فروغ پذیر رہی ہے۔
سیاسی حلقوں میں یہ رائے عام ہے کہ کراچی کی حقیقی آبادی ظاہر نہ کرنے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وفاق معاملات کو جوں کا توں رکھنا چاہتا ہے۔ اگر کراچی کی آبادی 2 کروڑ یا 2 کروڑ 25 لاکھ تسلیم کرلی جائے تو سندھ اسمبلی اور قومی اسمبلی کی نشستوں میں اس شہر کا کوٹا بڑھانا پڑے گا۔ ساتھ ہی ساتھ نیشنل فنانس کمیشن میں سندھ کا حصہ بھی بڑھانا ہوگا۔ کراچی کی حقیقی آبادی کو تسلیم اور ظاہر نہ کرنے کو سندھ اور بالخصوص کراچی کے سیاست دان شہر اور صوبے کے خلاف گہری سازش تصور کرتے ہیں۔
کراچی کے منفرد ہونے کا ایک اور اہم سبب یہ ہے کہ سندھ کی شہری آبادی کا 59.94 فیصد اس شہر میں مرتکز ہے۔ لاہور ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے مگر یہ پنجاب کی شہری آبادی کے محض 27.42 فیصد پر مشتمل ہے۔ کوئٹہ میں بلوچستان کی شہری آبادی کا 29.34 فیصد، جبکہ پشاور میں خیبر پختون خوا کی شہری آبادی کا 34.34 فیصد آباد ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ 1998ء سے 2017ء کی درمیانی مدت میں کراچی کی آبادی میں اضافہ (61 لاکھ 68 ہزار) صوبے کے دیگر شہری علاقوں کی آبادی میں ہونے والے اضافے سے زیادہ ہے۔
لسانی و ثقافتی تنوع اور اس سے جُڑے ہوئے ایشوز بھی کراچی کو منفرد بناتے ہیں۔ کراچی کی 42.3 فیصد آبادی اردو بولنے والی ہے۔ 10.67 فیصد آبادی سندھی بولنے والی ہے۔ لاہور میں 80.94 فیصد آبادی پنجابی بولنے والی ہے، پشاور میں 90.17 فیصد آبادی پشتو بولنے والوں پر مشتمل ہے، جبکہ 5.33 فیصد ہندکو بولنے والے ہیں۔ سندھ میں مجموعی طور پر 61.6 فیصد آبادی سندھی بولنے والوں کی ہے۔ یوں کراچی سندھی بولنے والے صوبے کا غیر سندھی بولنے والوں پر مشتمل دارالحکومت ہے۔
کراچی وفاق اور صوبے کے لیے غیر معمولی آمدنی پیدا کرنے والا شہر ہے۔ خام قومی پیداوار میں کراچی کا حصہ 20 فیصد، ملک کی مجموعی آمدن میں اس کا حصہ 50 فیصد، بلا واسطہ محصولات میں اس شہر کا حصہ 46.75 فیصد، وفاقی ایکسائز ٹیکس میں 33.65 فیصد، اندرونی سیلز ٹیکس میں 23.38 فیصد، کسٹمز ڈیوٹی میں 75.14 فیصد اور درآمدات پر سیلز ٹیکس میں شہر کا حصہ 79 فیصد ہے۔
کراچی میں سندھ کی بہترین جامعات اور طبی تعلیم کے ادارے ہیں۔ یہ ملک کی میڈیا انڈسٹری کا بھی مرکز ہے۔ کراچی میں موجود صنعتی یونٹس میں سندھ کی صنعتی لیبر فورس کا 71.6 فیصد روزگار کے مواقع پاتا ہے۔ صوبے کی مجموعی صنعتی پیداوار میں کراچی کا حصہ 74.8 فیصد ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کراچی نجی شعبے کی کم از کم 78 فیصد ملازمتیں فراہم کرتا ہے۔
کراچی کی یہ غیر معمولی مالی حیثیت سندھی بولنے والوں کی نمائندگی کرنے والی سیاسی جماعتوں کی قائم کردہ ایسی حکومت کنٹرول کرسکتی ہے جو غیر معمولی ارتکاز کی حامل ہو، جبکہ کراچی میں جڑیں رکھنے والے سیاست دان اِسے ایک ایسے حکومتی نظام کے ذریعے کنٹرول کرسکتے ہیں جس میں ارتکاز برائے نام ہو۔ کراچی کو مؤثر طور پر چلانے سے متعلق بحث بھی ختم نہیں ہوپا رہی اور اختیارات سے متعلق جھگڑے بھی بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ مردم شماری کی بنیاد پر مؤثر بلدیاتی حکومتی نظام کے قیام میں ناکامی بھی اس کا بنیادی سبب ہے۔
جدول 1.1 سے معلوم ہوتا ہے کہ شہر میں اردو بولنے والوں کا تناسب گھٹا ہے جبکہ پشتو بولنے والوں کا تناسب بڑھا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ خیبر پختون خوا سے پشتو بولنے والوں کی آمد تواتر سے جاری رہی ہے۔ خیر، سندھ کے بہت سے حصوں سے بھی نقلِ مکانی جاری رہی ہے۔ 1998ء میں کراچی میں سندھی بولنے والوں کی تعداد 7 لاکھ 11 ہزار تھی، جبکہ 2017ء میں یہ تعداد 17 لاکھ 9 ہزار سے زائد ہوگئی۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ سندھ کے دیہی علاقوں میں گزارے کی سطح سے معاملات مارکیٹ اکانومی تک پہنچ گئے اور یوں گزارے کے لیے زیادہ آمدن کی ضرورت پڑنے لگی اور بے زمین کسانوں، مزدوروں اور کاریگروں کے لیے گزارا مشکل ہوگیا۔
کراچی واحد شہر ہے جس کی طرف سندھی بولنے والے تیزی سے نقلِ مکانی کرسکتے ہیں۔ سرائیکی بولنے والے بھی بہت آسانی سے کراچی آکر آباد ہوسکتے ہیں۔ کراچی میں سرائیکی بولنے والوں کی تعداد بھی بہت تیزی سے بڑھی ہے۔ یہ نقلِ مکانی جاری رہنے کا امکان ہے۔
کراچی میں اردو بولنے والے بنیادی طور پر ضلع وسطی میں مرتکز ہیں جہاں یہ آبادی کا 70.77 فیصد ہیں۔ علاوہ ازیں ضلع کورنگی میں اردو بولنے والوں کا تناسب 61 فیصد سے زائد ہے۔ پشتو بولنے والے ضلع غربی میں اکثریت کے حامل ہیں۔ سندھی بولنے والے بنیادی طور پر ضلع ملیر میں اکثریت میں ہیں جہاں دیہی علاقے بھی ہیں۔ اگر نقلِ مکانی کا یہ رجحان برقرار رہا تو اگلے دس سال میں سندھی اور پشتو بولنے والوں کی آبادی میں اضافہ ہوگا جس کے اثرات اردو بولنے والوں کو برداشت کرنا ہوں گے۔
خواندگی اور ازدواجی کیفیات
مردم شماری کے مطابق ایک اہم گروہ 15 سے 24 سال تک کے افراد کا ہے۔ عمر کے اس گروہ کے درمیان خواندگی اور ازواجی معاملات اہم سماجی اشاریے ہیں۔ کراچی میں عمر کے اس گروپ میں شادی شدہ خواتین کی تعداد 1961ء میں 67 فیصد، 1981ء میں 38 فیصد، 1998ء میں 29 فیصد اور 2017ء میں 31 فیصد تھی۔ اور عمر کے اس گروپ میں شادی شدہ مردوں کی تعداد 1981ء میں 13.39 فیصد، 1998ء میں 10.08 فیصد اور 2017ء میں 11.24 فیصد تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کراچی میں 15 سے 24 سال کے نوجوانوں میں اکثریت غیر شادی شدہ افراد کی ہے۔ عمرانیات کے ماہرین بتاسکتے ہیں کہ صنفی تعلقات کی نوعیت بدلنے کے لیے یہ حقیقت انتہائی کافی ہے۔ مطالعات اور اخبارات پہلے ہی اس حوالے سے بہت کچھ بتارہے ہیں۔ ذرا کم تناسب یا شرح سے یہی سب کچھ ملک کے دیگر شہری علاقوں میں بھی ہورہا ہے۔ بہرکیف، عمر کے اس گروپ میں شادی شدہ افراد کا مجموعی طور پر تناسب بڑھا ہے۔ دوسری طرف لاہور میں عمر کے اس گروپ میں شادی شدہ خواتین کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔
15 سے 24 سال کی عمر کے گروپ میں دہلی کی شادی شدہ خواتین کی تعداد 38 فیصد سے گھٹ کر 31 فیصد رہ گئی ہے۔ یہ 2011ء کی پوزیشن ہے۔ دہلی رجعت پسند شہر ہوا کرتا تھا، مگر وہ بہت تیزی سے اپنی معاشرتی شناخت بدل چکا ہے۔ ایسا شاید اس لیے ہوا ہے کہ دہلی میں خواندگی کی شرح زیادہ ہے۔ دہلی میں طلاق کی شرح 0.17 فیصد (2011ء) ہے جو لاہور (2017ء میں 0.70 فیصد) سے کہیں کم ہے۔ کراچی میں 2017ء میں طلاق کی شرح 0.73 فیصد تھی۔
1981ء میں کراچی میں 15 سے 24 سال تک کے گروپ میں مرد و زن میں خواندگی کی شرح لاہور کی اِسی کیٹگری کی شرحِ خواندگی سے زیادہ تھی۔ 1998ء تک یہ رجحان برقرار رہا، تاہم 2017ء میں کراچی میں مجموعی شرحِ خواندگی 78.06 فیصد جبکہ لاہور میں یہ شرح 84.25 فیصد تھی۔ کراچی میں خواتین کی شرحِ خواندگی 77.79 فیصد ہے جبکہ لاہور میں خواندہ خواتین خواندہ مردوں سے زیادہ ہیں۔ اس دوران دہلی میں خواندگی کی مجموعی شرح 86.21 فیصد رہی ہے۔ مردوں میں یہ شرح 90 فیصد سے زائد جبکہ خواتین میں 87 فیصد تک ہے۔
15 سے 24 سال کے گروپ میں خواندگی کی شرح 93 فیصد سے زائد ہے۔ 2001ء میں عمر کے اس گروپ میں کُل آبادی کا 87.78 فیصد خواندہ تھا جن میں مردوں کا تناسب 87 فیصد جبکہ خواتین کا تناسب 85 فیصد تھا۔
کراچی کے ضلع وسطی میں خواندگی کی شرح 81 فیصد سے زائد ہے جس کے نتیجے میں وہاں روزگار کی شرح بھی 34.78 فیصد تک ہے۔
(بشکریہ ڈان، 31 جولائی 2022ء)