مغرب نئے معاشی بحران کی زد میں

کیا کوئی نظام عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو تبدیل کرے گا؟

برطانیہ و یورپ ایک بار پھر کساد بازاری کی لپیٹ میں آسکتے ہیں۔ اس بات کا انکشاف بینک آف انگلینڈ کی رپورٹ میں کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ اِس سال کے اختتام تک افراطِ زر کی شرح 17 فیصد سے زائد ہونے کا امکان ہے۔ جبکہ برطانیہ اِس وقت بدترین غذائی افراطِ زر کا شکار ہے کہ جہاں ایک بڑے طبقے کے پاس دو وقت کھانا کھانے کی سہولت بھی میسر نہیں، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تعداد میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔

ان دنوں گرمیوں میں یورپ و برطانیہ کے باشندے کچھ سکون میں ہیں کیونکہ موسم سرد نہیں، لیکن ایک ماہ بعد ماہِ ستمبر سے موسم بتدریج سرد ہونا شروع ہوجائے گا اور اس کا نقطہ عروج ماہِ دسمبر تا مارچ ہوگا کہ جب سرد موسم اپنے جوبن پر ہوگا۔ ایک اور نئی مشکل اس سرد موسم میں سر اٹھائے یورپی و برطانوی باشندوں کے سامنے کھڑی ہوگی، وہ ہے توانائی کا شدید بحران۔ برطانیہ و یورپ کی گیس کا زیادہ تر انحصار روس کی گیس پر ہے، اب یوکرین کی جنگ کے بعد پورے یورپ و برطانیہ سے روس کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یوکرین کی یورپی یونین میں شمولیت اور برطانوی فوجیوں اور عام افراد کا یوکرین کی جانب سے جنگ میں حصہ لینا ہے جن میں سے چند اب گرفتار بھی ہیں۔ گوکہ برطانوی وزیر دفاع و خارجہ ان افراد کی جنگ میں شمولیت کو انفرادی فعل کہہ رہے ہیں لیکن یوکرین کی سرحد کے ساتھ نیٹو کے فوجی اڈے میں برطانوی سابق فوجیوں کے ٹریننگ کیمپ پر کوئی ٹھوس وضاحت سامنے نہ آسکی۔ روس نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ ٹریننگ کیمپ یوکرین کی جنگ کا بیس کیمپ تھا جہاں سے پورے یورپ و برطانیہ سے آنے والے سابق فوجیوں کو ٹریننگ کے بعد روس سے لڑنے کے لیے محاذِ جنگ پر بھیجا جاتا تھا۔

اس کشیدگی کی وجہ سے اب روس متوقع طور پر سرد ترین موسم میں یورپ و برطانیہ کو گیس سپلائی بند کردے گا۔ اس خدشے کا اظہار بار بار کیا جارہا ہے اور اس کے متوقع نتائج بدترین کساد بازاری و معاشی بحران کی صورت میں سامنے آئیں گے۔ آکسفورڈ اکنامکس کے مطابق گیس کی نئی قیمت کے حوالے ے کوئی پیش گوئی کرنا قبل از وقت ہوگا، تاہم موجودہ قیمت کے لحاظ سے کم از کم 25 فیصد سے 100 فیصد تک اضافہ متوقع ہے، لیکن زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں کی جاسکتی۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال بھی گیس و توانائی کی قیمتوں میں 100 فیصد سے زائد اضافہ ہوچکا ہے، اگر یہ صورتِ حال پیدا ہوتی ہے جوکہ اب نوشتہ دیوار ہے، تو معیشت کو بدترین دھچکہ پہنچے گا۔ بینک آف انگلینڈ کے مطابق اب مالیاتی بحران و کساد بازاری گزشتہ بحران جوکہ 2009ء میں آیا تھا، سے بھی شدید تر ہوگی۔ افراطِ زر کی شرح 17 فیصد سے زائد ہوگی اور معاشی ترقی 4.6 فیصد کم ہوجائے گی جوکہ منفی معاشی ترقی کا ایک نیا ریکارڈ ہوگا۔

اس تمام صورتِ حال میں ایک بات جوکہ بار بار عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے حوالے سے سامنے آرہی ہے وہ کورونا کی وبا کے بعد سے عالمی سطح پر کساد بازاری، توانائی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ اور عالمی مالیاتی اداروں و توانائی کے اداروں کے منافع میں بیش بہا اضافہ ہے جو اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ اس تمام منظرنامے کو سرمایہ دارانہ نظام اپنے ہی فائدے کے لیے استعمال کررہا ہے، اور عام آدمی کا استحصال کرکے ان کی جیبوں کو خالی اور اپنی جیبوں کو بھرنے کا کام انجام دے رہا ہے۔ برطانیہ جیسی فلاحی ریاست میں بھی گیس کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کرکے برٹش پیٹرولیم اور شیل نے دو سو گنا تک منافع کمایا ہے۔

اگر اِس سال سردیوں میں گیس کی سپلائی روس سے بند ہوتی ہے تو یورپ اور برطانیہ میں ایک نیا بحران سر اٹھائے گا جس کا کوئی عارضی حل کسی کے پاس بھی نہیں ہوگا، گوکہ جرمنی، اٹلی اور برطانیہ بھی متبادل ذرائع توانائی پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں لیکن اس پر ابھی مزید کام کرنے اور اس کی استعداد کو بڑھانے کی شدید ضرورت ہے۔ اس ضمن میں ایک نیا اقدام جوکہ برطانیہ کی جانب سے کیا گیا ہے وہ یہ کہ پیٹرولیم مصنوعات پر اپنا انحصار کم کرنے اور توانائی کو بچانے کے لیے طے کیا گیا ہے کہ بتدریج پیٹرول و ڈیزل گاڑیوں کو ختم کردیا جائے گا۔ حکومت اس منصوبے پر تیزی سے کام کررہی ہے اور الیکٹرک گاڑیاں اب آپ کو سڑکوں پر دوڑتی نظر آتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کی فیولنگ کے لیے بہت تیزی سے پیٹرول اسٹیشنز کے اندر ہی چارجنگ پوائنٹ لگائے جارہے ہیں۔ چند پیٹرول اسٹیشن ایسے ہیں جہاں پیٹرول نوزل سے بھی زیادہ اب چارجنگ پوائنٹ موجود ہیں۔ اسی طرح گرمیوں میں شمسی توانائی کا استعمال کیا جارہا ہے اور آپ کو جابجا سولر پینل لگے نظر آتے ہیں۔ واضح رہے کہ برطانیہ میں سورج صرف گرمیوں میں ہی نمودار ہوتا ہے، اور اس کو بھی توانائی بچانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ اسی طرح پن چکیوں سے بھی ہوا کے ذریعے بجلی پیدا کرکے ایک اور متبادل ذریعے کو بروئے کار لایا جارہا ہے۔

برطانیہ میں توانائی کے بحران، مہنگائی اور اب موسم کی شدت ایسے مسائل ہیں جن کا فوری حل کسی کے پاس موجود نہیں، لیکن حکومت اس حوالے سے قلیل المدت کے بجائے طویل المدتی منصوبوں پر عمل کررہی ہے، اور یہی ان کی بنیادی طور پر کامیابی ہے۔
اِس سال موسم گرما میں موسم شدید رہا، برطانیہ کے بعض علاقوں میں درجہ حرارت 40 ڈگری تک چلا گیا اور اس کے ساتھ ہی موسم کی شدت کی وجہ سے بارشوں میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے بہت سی مقامی حکومتوں نے ہنگامی طور پر اقدامات کیے ہیں جن میں پانی کا بے جا استعمال کرنے پر ایک ہزار برطانوی پائونڈ تک جرمانے کی سزا شامل ہے۔ حکومت نے مختلف مقامات پر متنبہ کیا ہے کہ کوئی فرد اگر اپنے لان گارڈن میں پائپ سے پانی ڈالتا ہوا یا اپنی گاڑی کو پائپ سے دھوتا ہوا دیکھا گیا تو اس کے خلاف فوری طور پر کارروائی کی جائے گی۔ اس حوالے سے عوام کو بھی کہا گیا ہے کہ اپنے آس پڑوس میں کسی بھی ایسی سرگرمی کو فوری طور پر پولیس کو رپورٹ کریں۔

یہ ایسے ملک میں کیا جارہا ہے جہاں بظاہر پانی کی کوئی قلت نہیں، سال بھر بارشوں یا برف باری کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ سورج اس ملک میں صرف گرمیوں کے چار ماہ میں ہی نظر آتا ہے، وہاں بھی شمسی توانائی کو متبادل کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہے کہ حکومت کی مربوط پالیسی کی وجہ سے ہر کام ایک نظام کے تحت انجام پاتا ہے۔ حکومت کی تبدیلی اس پر کوئی اثر نہیں ڈالتی۔ عوام کی بہبود کے منصوبوں پر حکومت و اپوزیشن دونوں کا اتفاق ہے۔ قبل از وقت منصوبہ بندی ان کی روایت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر شدید ترین حالات، قدرتی آفات اور بدترین معاشی بحران میں بھی وہ تباہی جو پاکستان جیسے ملک میں آتی ہے اس کا شاید دس فیصد اثر ہی یہاں ہوتا ہے۔ اب جبکہ بدترین معاشی بحران سر اٹھا رہا ہے، بظاہر تبدیل ہوتی ہوئی برطانوی حکومت کے لیے یہ ایک چیلنج ہے۔ لیکن حکومت و اپوزیشن انتخابات کے بعد مل کر عوامی فلاح و بہبود کے کام کریں گے۔ یہ ہے جمہوریت کا حسن جو کہ یہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔

بظاہر عالمی سرمایہ دارانہ نظام اپنے زوال کی جانب گامزن ہے، ہر کچھ عرصے کے بعد کوئی نیا معاملہ سر اٹھاتا ہے، لیکن اس سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج کرنے اور اس کے مقابلے میں کوئی مؤثر نظام تاحال کوئی اسلامی ملک بھی پیش کرنے سے قاصر ہے۔ وجوہات بہت سی ہوسکتی ہیں لیکن خود مغرب میں اب سرمایہ دارانہ نظام اپنی عمر پوری کرتا نظر آرہا ہے۔ اس میں فرض اب نظریاتی تحاریک، افراد و ممالک کا ہے کہ اس کے مقابلے میں مؤثر متبادل نظام پیش کریں تاکہ عوام الناس کو سکون میسر آسکے۔ نظام کو نظام سے تبدیل کیے بغیر محض نعروں و دعووں سے کوئی مثبت اور دیرپا تبدیلی پیدا نہیں ہوسکتی۔