یہ بات سنتے سنتے کان پک گئے ہیں کہ ملک کے معاشی حالات بہت جلد بہتر ہوجائیں گے۔ جو کچھ ماضی میں وزرائے خزانہ کہتے رہے، وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی وہی کچھ کہہ رہے ہیں۔ ہر حکومت نے یہی کہا کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، ہم نے اسے بچا لیا ہے۔ ہر حکومت اور وزرائے خزانہ کے ان جملوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آئی ایم ایف کڑی سے کڑی شرط کے ساتھ قرض فراہم کرتا ہے۔ حکومتیں پہلے قرض لیتی رہیں اور بعد میں شرائط پوری کرنے کے بجائے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرکے ملک کو شدید مالی بحران سے دوچار کرتی رہیں۔ آج بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ اب آئی ایم ایف سے معاہدے کی بحالی کی شرائط پوری کرنا اتحادی حکومت کی ذمہ داری ہے جس نے قرض کی قسط کے لیے کڑوا گھونٹ پیا ہے۔ گزشتہ ہفتے تو روپے کی قیمت میں تیزی سے کمی اور ڈالر کی شرح میں اضافے نے ملکی معیشت کی چیخیں نکال دی تھیں، لیکن مشکل فیصلوں کے باعث ڈالر کے مقابلے میں روپیہ توانا ہورہا ہے۔ اس کی ایک وجہ عالمی منڈی میں تیل کے نرخوں میں نمایاں کمی بھی ہے۔ وزیر خزانہ اب بھی کہہ رہے ہیں کہ مزید ایک دو ماہ صبر کیا جائے۔ انہیں علم ہے کہ قرض مانگنا کتنا مشکل ہے، اس کے لیے اب تو آرمی چیف سے فون کرانا پڑتا ہے۔ یہ سب حالات اس لیے ہیں کہ ادائیگیوں کا توازن بگڑا ہوا ہے۔
گزشتہ سال اصل حقائق یہ تھے کہ ملک میں 80ارب ڈالر کی درآمدات ہوئیں اور محض 31ارب ڈالر کی برآمدات کی گئیں۔ یہ بہت بڑا فرق ہے، لیکن اس کی سب سے بڑی ذمہ داری تحریک انصاف کی حکومت پر ہی عائد ہوگی کہ اُس نے عدم اعتماد سے تین چار ماہ قبل پُرتعیش اشیا اور لگژری گاڑیاں منگوائیں۔ اب معیشت بہتر کرنے اور تجارتی توازن میں بہتری لانے کے لیے درآمدات پر پابندی کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ابھی بھی حالات بہتر نہیں ہوئے، درآمدات کنٹرول میں رہیں تو صورتِ حال نومبر میں جاکر بہتر ہوگی۔ ڈالر کی قدر میں درآمدات کنٹرول کرنے کی وجہ سے بھی کمی آئی ہے۔ روپے کی قدر میں ہونے والی اس تبدیلی کی وجہ سٹے بازی بھی ہے جس میں پاکستان کے بینک بڑی تعداد میں ملوث پائے گئے ہیں، اور ایسے بینک بھی شامل تھے جنہیں ’’دائیں بازو کے بینک‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ دوسری وجہ سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی سیاسی صورتِ حال تھی۔ پاکستانی کرنسی ماضی میں اس خطے کی ایک مضبوط کرنسی ہوا کرتی تھی۔ تحریکِ انصاف کے ساڑھے تین سالہ دور میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 55روپے کمی ہوئی جس سے روپیہ 180روپے پر پہنچ گیا تھا۔ اس کے بعد اتحادی حکومت آئی تو روپے کی قدر میں 45روپے کی مزید کمی ہوئی جس سے ڈالر 224روپے تک جاپہنچا۔ اب ایکسچینج کمپنیوں کے خلاف کریک ڈائون کے باعث کچھ بہتری آئی ہے۔ اس صورتِ حال کے پیچھے بینکوں کی زیادہ منافع کمانے کی ہوس تھی، یہ بینک انٹر بینک مارکیٹ میں زیادہ منافع کمانے کے لیے ڈالر کو مہنگا فروخت کررہے تھے، یوں انٹر بینک مارکیٹ ایک جوئے خانے میں تبدیل ہوگئی تھی۔ اس بات کی نشاندہی پہلی مرتبہ گزشتہ سال نومبر میں کی گئی تھی کہ روپے کی قدر پر سٹہ کھیلا جارہا ہے۔ اس کے باوجود اسٹیٹ بینک یا اُس وقت کی وفاقی حکومت نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ شوکت ترین آج بھی اپنی بات پر قائم ہیں کہ بینک سٹے بازی کرتے ہیں۔ اس عمل میں بینکوں کے علاوہ ایوان ہائے تجارت و صعنت اور برآمدی ایسوسی ایشنز بھی شامل تھیں۔ کسی قسم کے احتساب کا خوف نہ ہونے کے باعث بینکوں میں کھلے عام مارکیٹ ریٹ سے زائد پر ڈالر کی فروخت ہورہی تھی جس سے مارکیٹ میں افراتفری کا ماحول پیدا ہوگیا تھا۔ اوپن مارکیٹ میں تین ریٹ چل رہے تھے، ایک آفیشل ریٹ تھا جو ایکسچینج کمپنیاں جاری کرتی ہیں، دوسرا نان آفیشل ریٹ، اور تیسرا ریٹ ہنڈی کا۔ جبکہ انٹر بینک میں صورتِ حال اس سے زیادہ مخدوش تھی۔ اس میں روپے کے دو ریٹ چل رہے تھے، ایک ریٹ وہ جو آفیشل اسکرین پر دکھائی دے رہا تھا، جبکہ دوسرا ریٹ وہ جس پر بینکر امپورٹر اور ایکسپورٹر سے ڈالر خرید اور فروخت کرتے تھے، یا کرتے ہیں۔ اصل مسائل کی جڑ انٹر بینک مارکیٹ ہے۔ انٹر بینک میں ہونے والی سٹے بازی اور روپے کی قدر میں گراوٹ کی ایک اور وجہ ڈالر کی ہولڈنگ بھی تھی۔ یوں برآمد کنندگان نے ڈالر کو بروقت پاکستان لانے کے بجائے بیرونِ ملک ہی رکھنا شروع کردیا تھا۔
معیشت پر دبائو پڑنے پر اسٹیٹ بینک کو ہوش آیا اور اس نے انٹر بینک مارکیٹ میں رواں ماہ کے آغاز پر مسٹری شاپنگ کا سلسلہ شروع کیا جس میں اسٹیٹ بینک کے مقرر کردہ ایجنٹس نے انٹر بینک مارکیٹ سے ڈالر کی خریداری کے عمل کا جائزہ لیا جس سے ان خبروں کی تصدیق ہوئی کہ انٹر بینک مارکیٹ میں سٹے بازی کا عمل جاری ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اسٹیٹ بینک نے 3 اگست کو ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اس نے بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کی نگرانی سخت کردی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سخت اقدامات کی وجہ سے اب اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے خریدار موجود نہیں ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی مسٹری شاپنگ میں یہ بات واضح ہوگئی کہ انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر پر سٹہ ہورہا ہے، اسٹیٹ بینک نے کمرشل بینکوں کو بچانے کے لیے ایکسچینج کمپنیوں کے خلاف کریک ڈائون شروع کردیا اور 2 ایکسچینج کمپنیوں کی 4 برانچوں کے آپریشن معطل کردیے۔ مختلف ایکسچینج کمپنیوں کے 13 فرنچائز کے انتظامات ختم کردیے گئے۔
ڈالر کی طلب میں اضافے کی وجہ پاکستان سے افغانستان اسمگلنگ بھی ہے۔ افغانستان میں بھارتی ایجنٹ پاکستان سے آئے ہوئے ڈالرز کو بڑے پیمانے پر خرید رہے تھے۔ یہ سب کچھ ہورہا تھا اور کھلے عام انٹر بینک مارکیٹ کے علاوہ اسمگلر ڈالر کو سرحد پار لے جارہے تھے، مگر اس تمام صورتِ حال میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی ناک کے نیچے انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں سٹے بازی ہورہی تھی جس کی متعدد فورمز پر نشاندہی کے باوجود کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ہمارے ہی ذریعے افغانستان کی امپورٹ کے لیے بھی ڈالر دیے جاتے ہیں، یہ اضافی بوجھ ہمیں نقصان پہنچا رہا ہے، اسی لیے ماہانہ امپورٹ بل 4.5ارب ڈالر سے بڑھ کر 7.5 ارب ڈالر ہوگیا ہے اور ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر 20 ارب سے کم ہوکر8.5 ارب ڈالر تک جاپہنچے۔ 3ارب ڈالر کے فرنس آئل کی اضافی ایڈوانس درآمدات کی وجہ سے بھی قومی معیشت دبائو میں آئی۔ حکومت نے فرنس آئل کا اسٹاک پورا کرلیا مگر قومی خزانے سے 3ارب ڈالر نکل جانے سے ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر نچلی ترین سطح تک جا پہنچے۔ یہ ایسی صورتِ حال ہے جس میں ملک کے تجارتی چیمبرز نے تجویز دی ہے کہ پاکستان میں معاشی ایمرجنسی نافذ کی جائے اور تمام سیاسی جماعتوں سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ میثاقِ معیشت کریں۔
بہرحال اب چونکہ آئی ایم ایف کی ساری شرائط تسلیم کر لی گئی ہیں لہٰذا اب کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔ آئی ایم ایف کی تمام شرائط پر عمل درآمد بھی ہورہا ہے جن میں یکم اگست 2022ء سے بجلی کے نرخوں میں 3.50 روپے فی یونٹ، پیٹرول پر 10 روپے اور ڈیزل پر 5 روپے فی لیٹر پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی لاگو کردی گئی ہے، اس کے باوجود معیشت دبائو میں ہے اور ہمیں4 ارب ڈالر فوری چاہئیں، کیونکہ گزشتہ 3 مہینے میں روپے کی قدر گرنے کی وجہ سے پاکستان کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں میں 6500ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے ۔گزشتہ سال ایف بی آر نے مجموعی طور پر 6125 ارب روپے کا ریونیو ہدف حاصل کیا تھا، لیکن روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ادائیگیوں میں 6500 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ قرض کی قسط کے لیے آرمی چیف کی مداخلت سے معلوم ہوتا ہے کہ اب ذمہ داری جس سطح پر لی گئی ہے یہ غیر معمولی ہے۔ تحریک انصاف کی تین سال کی بدانتظامی کے بعد تمام اسٹیک ہولڈرز معیشت کے لیے صف بندی کرنے لگے ہیں۔ معاشی زبان میں یہ ایک صحت مند رجحان ہے۔ اسٹیٹ بینک نے بھی کچھ مداخلت کی ہے، سٹے بازی میں ملوث بینکوں کو تنبیہ کی گئی ہے۔ یہ اس لیے کی گئی کہ سٹے بازی میں ملوث بینک اگر باز نہ آئے تو ایسا نہ ہو کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ٹیلی فون ڈپلومیسی بھی بے کار چلی جائے۔ اہم پیش رفت یہ ہے کہ ملک کا تجارتی خسارہ 46.77 فیصد کم ہوکر 2.64 بلین ڈالر رہ گیا ہے۔ تجارتی خسارے کی وجہ سے ہی روپے پر دباؤ پڑا تھا۔
تحریک انصاف کی جانب سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ الیکشن کمیشن نے بہت عجلت میں فیصلہ سنایا ہے۔ تحریک انصاف کے اس مؤقف کا یہ پس منظر ہے کہ وہ پنجاب میں حمزہ حکومت کی جگہ پرویزالٰہی کو لاکر پنجاب کو وفاق کے خلاف بیس کیمپ بنانا چاہتی تھی، لیکن فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنا کر اس کی راہ روکی گئی ہے۔ اب تحریک انصاف کی لیڈر شپ جارحانہ موڈ کے بجائے دفاعی لائن پر چلی گئی ہے۔ تحریک انصاف اور چودھری پرویزالٰہی اتحاد کی حکومت بن جانے کے بعد معاشی مارکیٹ میں ایک منفی ردعمل آیا تھا اور خطرہ محسوس کیا گیا کہ کہیں اب پنجاب حکومت وفاق کے خلاف مورچہ نہ بنا لے، اگر ایسا ہوتا ہے تو ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھ جائے گا۔ پاکستان کو امداد دینے والے عالمی ادارے آئی ایم ایف اور دوست ممالک… چاہے اپنے مفاد کے لیے سہی… امداد دینے کے لیے پاکستان میں سیاسی استحکام دیکھنے کے متمنی تھے اور ہیں، اسی لیے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک سے رابطے کیے گئے، فیصلہ یہی ہوا ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت اس بات کو یقینی بنائے کہ احتجاج اس حد تک نہ جائے کہ ملکی معیشت کی چولیں ہی ہلادے۔ قرض دینے والے معاشی اصلاحات کی طرف لانا چاہتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ پاکستان نے جس اصلاحاتی ایجنڈے پر دستخط کیے ہیں اس پر قائم رہے۔ لیکن اس وقت ملک کا سیاسی منظرنامہ یہ بنا ہوا ہے کہ عمران خان فوج کو بھی دھمکاتے ہیں، عدلیہ کو بھی دھمکیاں دیتے ہیں، انتظامیہ کو بھی تڑیاں لگاتے ہیں، اور شرفاء کی پگڑیاں اچھالنا تو ان کا روزمرہ کا معمول ہے۔ یہ موضوع بہت نازک ہے مگر ماحول ایسا ہے کہ ’’لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام‘‘… یہ وقت سیاست کی شیشہ گری کا ہے، لہٰذا یہی کہنا کافی ہے کہ ہماری سیسہ پلائی قوت میں دراڑ ڈالنے کی کوشش دشمن کا کام آسان کرنے کے مترادف ہے۔ زندگی کے حقائق یہی ہیں کہ ہم سب کو ایک دن یہاں سے چلے جانا ہے مگر پاکستان کو یہیں رہنا ہے۔
گزشتہ ہفتے فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے کے بعد تحریکِ انصاف کا اخلاقی دیوالیہ پٹ گیا ہے اور عمران خان پہلی بار بیک فٹ پہ جانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے تحریک انصاف کے خلاف فیصلہ اس کے صداقت، امانت اور شرافت کے تمام دبیز پردے تار تار کرگیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی آٹھ سال کی تحقیق بتاتی ہے کہ تحریک انصاف جانتے بوجھتے ممنوعہ ذرائع سے بڑے پیمانے پر فنڈز جمع کرتی رہی جن میں 315کمپنیاں اور تین درجن غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ 16اکائونٹ چھپائے گئے، ان میں سے 13 نامی ہونے کے باوجود آٹھ آفیشل اکائونٹس کے طور پر چلائے جاتے رہے جن کے دستخط کنندگان میں عمران خان سمیت دیگر راہنما بھی شامل پائے گئے۔ پارٹی چیئرمین کے چار پانچ سال کے اکائونٹس پر عمران خان کے سرٹیفکیٹس کو غلط قرار دیا گیا ہے۔ اس کیس میں بیرونی حکومتیں اور جماعتیں ایک جانب، ابراج گروپ کے ذریعے خلیجی وزیر کے 20 لاکھ ڈالرز کی ایک پیچیدہ ٹرانزیکشن بھی کی گئی۔ الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے ایک شوکاز نوٹس تحریک انصاف کو دیا ہے کہ کیوں نا ممنوعہ فنڈز بحق سرکار ضبط کرلیے جائیں، ساتھ ہی عمران خان کی نااہلی کے لیے ریفرنسز پر کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ وفاقی حکومت نے آئین کی شق 17(3) کے تحت تحریک انصاف پر پابندی کے لیے ڈیکلیریشن جاری کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ یہ ڈیکلیریشن ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے جاری کیا جاتا ہے یا بیرونی امداد سے چلنے والی پارٹی کے حوالے سے؟ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی تہہ میں دیکھا جائے تو فارن ایڈڈ پارٹی کے طور پر بندش کے لیے مواد ناکافی لگتا ہے اور اسے سپریم کورٹ میں ثابت کرنا ایک مشکل کام ہے۔ سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت کے وقت پھر بحث ہوگی کہ بینچ کیسا ہونا چاہیے۔
سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دی گئی ہے، حنیف عباسی بنام عمران خان کے مقدمے کے حوالے سے پہلے ہی جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا ایک بینچ بہت سے آئینی سوالات پر رائے دے چکا ہے اور ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے معاملے کو الیکشن کمیشن کے حوالے کرچکا ہے، اب الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ہی کیا ہے اور اس کے بعد عمران خان کے لیے آرٹیکل 62-f(1) کا مقدمہ ان کے سیاسی کیریئر کے لیے بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف بھی اسی آرٹیکل کا نشانہ بنے اور پارٹی صدارت سے انہیں ہاتھ دھونا پڑا، یہی آرٹیکل اب عمران خان کے بھی گلے پڑسکتا ہے۔ پارٹی اکائونٹس کے حوالے سے ان کے سرٹیفکیٹس، توشہ خانہ کیس اور کچھ دیگر کیسز کے حوالے سے وہ عمران خان جو تمام جماعتوں کی سیاسی قیادت کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کرنے پر ہر حد پار کرتے رہے، اب خود متعدد مقدمات میں ملزموں کے کٹہرے میں کھڑے ہونے پر مجبور ہوں گے۔