پاکستان آزادی کے 75سال بعد کتنا آزاد ہے؟

ہمارے معاشرے کو دنیا کا آزاد ترین معاشرہ ہونا چاہیے تھا، مگر ہم بحیثیت ایک ریاست اور بحیثیت ایک معاشرے کے، سیکڑوں قسم کی غلامیوں میں مبتلا ہیں۔

پاکستان کسی نظریاتی یا تہذیبی خلا میں تخلیق نہیں ہوا تھا۔ پاکستان دو قومی نظریے کا حاصل تھا۔ دو قومی نظریہ اسلام ہے، اور اسلام کلمۂ طیبہ پہ کھڑا ہے۔ کلمۂ طیبہ اسلام کا اجمال ہے، اور باقی جو کچھ ہے اس اجمال کی تفصیل ہے۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ انسانیت کی تاریخ میں کلمۂ طیبہ سے زیادہ انقلابی اور آزادی بخش کلمے کا تصور محال ہے۔

کلمۂ طیبہ کا پہلا جزو لا الٰہ ہے۔ اس کے ذریعے اسلام نے دنیا کے تمام جھوٹے خدائوں کا انکار کردیا ہے۔ انسان طاقت کے بت کو پوجتا ہے، دولت کے بت کی پرستش کرتا ہے، اَنا کے بت کے آگے سر جھکاتا ہے، زمین اور جغرافیے کے بت کو پوجتا ہے، رنگ اور نسل کے بت کے آگے سجدہ ریز ہوتا ہے، خواہشات کے بتوں کے آگے سرنگوں ہوتا ہے۔ لاالٰہ ان تمام بتوں کو ایک ہلّے میں منہدم کردیتا ہے۔

جب انسان تمام جھوٹے خدائوں کا انکار کرچکتا ہے تو وہ پھر الا اللہ کہنے کا حق ادا کرتا ہے۔ لا الٰہ کا حق ادا کیے بغیر الا اللہ کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ لیکن کلمۂ طیبہ کا دوسرا جزو محمدالرسول اللہ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ سچے خدا پر ایمان لانے کے بعد انسان کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کے مطابق زندگی بسر کرنی ہوگی۔ اس اعتبار سے کلمۂ طیبہ خدا مرکز اور رسول مرکز زندگی کا اعلان ہے۔ ان باتوں کا زیر بحث موضوع سے یہ تعلق ہے کہ پاکستان ایک انقلاب آفریں قوت کا پیدا کردہ ملک تھا اور اسے دنیا میں انسانی آزادی کا حقیقی مظہر بن کر ابھرنا تھا۔

پاکستان کا مثالیہ یا پاکستان کا Ideal اتنا بڑا تھا کہ جدید انسانی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہ تھی۔ بہت سے لوگ پاکستان کو سیاسی آزادی کی علامت سمجھتے ہیں، مگر ایسا نہیں ہے۔ پاکستان روحانی آزادی کا مظہر ہے، اخلاقی آزادی کا مظہر ہے، تہذیبی آزادی کا مظہر ہے، تاریخی آزادی کا مظہر ہے، سیاسی آزادی کا مظہر ہے، معاشی آزادی کا مظہر ہے۔ اسلامی تناظر میں آزادی اتنا اہم تصور ہے کہ جو فرد آزاد نہیں وہ گویا موجود ہی نہیں۔ یہ بات فرد کے بارے میں درست ہے تو ریاست کے بارے میں تو بدرجۂ اولیٰ درست ہوگی۔ اقبال کو ’’مصورِ پاکستان‘‘ کہا جاتا ہے، اور اقبال نے آزادی کی شان میں جو ترانے لکھے ہیں اور غلامی کی جو مذمت کی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ذرا اقبال کے یہ اشعار تو دیکھیے:

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے ایک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بیکراں ہے زندگی
٭
گرچہ تُو زندانیِ اسباب ہے
قلب کو لیکن ذرا آزاد رکھ
٭
دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم؟
٭
ہو بندۂ آزاد اگر صاحبِ الہام
ہے اس کی نگہ فکر و عمل کے لیے مہمیز
محکوم کے الہام سے اللہ بچائے
غارت گرِ اقوام ہے وہ صورتِ چنگیز
٭
آزاد کی اک آن ہے محکوم کا ایک سال
کس درجہ گراں سیر ہیں محکوم کے اوقات
آزاد کا ہر لحظہ پیامِ ابدیت
محکوم کا ہر لحظہ نیا مرگِ مفاجات
آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور
محکوم کا اندیشہ گرفتارِ خرافات
محکوم کو پیروں کی کرامات کا سودا
ہے بندۂ آزاد خود اک زندہ کرامات
محکوم کے حق میں ہے یہی تربیت اچھی
موسیقی و صورت گری و علمِ نباتات
محکوم کا دل مُردہ و افسردہ و نو مید
آزاد کا دل زندہ، پُرسوز و طرب ناک
آزادا کی دولت دلِ روشن نفس گرم
محکوم کا سرمایہ فقط دیدۂ نمناک
٭
نا چیز جہان مہ و پرویں ترے آگے
وہ عالمِ مجبور ہے تُو عالمِ آزاد
غلامی کیا ہے ذوقِ حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا
غلاموں کی بصیرت پر بھروسا کر نہیں سکتے
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا

قائداعظم، اقبال کی طرح شاعر نہیں تھے مگر وہ اقبال سے کم خلاّق نہیں تھے۔ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو جدید دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست خلق کرکے دی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو قائداعظم کا مرتبہ کسی شاعرِ اعظم سے زیادہ ہی ہے، اُس سے کم نہیں۔ قائداعظم اسلام اور آزادی کے باہمی تعلق کو بہ خوبی سمجھتے تھے۔ ان کی نظر میں پاکستان صرف ’’سیاسی وجود‘‘ نہیں تھا، بلکہ وہ ابتدا ہی سے اس کو اس کے حقیقی تناظر میں دیکھ اور بیان کررہے تھے۔ قائداعظم کے افکار اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت ہیں۔ قائداعظم نے ایک بار فرمایا تھا:

’’وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے جس پر اُن کی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کردی گئی؟ وہ رشتہ، وہ چٹان، وہ لنگر اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے، ہم میں زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا، ایک رسولؐ، ایک کتاب، ایک امت۔‘‘ (اجلاس مسلم لیگ۔ کراچی 1943ء)

ایک اور مقام پر قائداعظم نے فرمایا: ’’قومیت کی تعریف چاہے جیسے کی جائے، مسلمان اس تعریف کی رُو سے ایک الگ قوم کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس لیے اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی اپنی مملکت اور اپنی جداگانہ خودمختار ریاست ہو۔ ہماری تمنا ہے کہ ہماری قوم اپنی روحانی، اخلاقی، تمدنی، اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کو کامل ترین نشوونما بخشے، اور اس کام کے لیے وہ طریقِ عمل اختیار کرے جو اس کے نزدیک بہترین ہو اور ہمارے نصب العین سے ہم آہنگ ہو۔‘‘ (اجلاس مسلم لیگ، لاہور 23 مارچ 1940ء)

قائداعظم کے ان افکار سے ظاہر ہے کہ وہ پاکستان کے ذریعے مسلمانوں کو صرف سیاسی طور پر آزاد نہیں دیکھنا چاہتے تھے، بلکہ وہ مسلمانوں کی روحانی، اخلاقی، تہذیبی، سیاسی اور اقتصادی آزادی کے بھی خواہاں تھے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ پاکستان اپنی آزادی کے 75 سال بعد کتنا آزاد ہے؟

بدقسمتی سے اس سوال کا جواب بہت افسوس ناک اور المناک ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے پاکستان میں اسلام کو کبھی غالب نہ ہونے دیا۔ جنرل ایوب اس حد تک سیکولر تھے کہ انہوں نے پاکستان کے آئین سے لفظ ’’اسلامی‘‘ ہی نکال دیا تھا۔ جنرل ایوب سیکولرازم کے علَم بردار تھے۔ انہوں نے پاکستان میں سود کو حلال قرار دینے کی سازش کی، انہوںنے ملک پر ایسے عائلی قوانین مسلط کیے جو اسلام سے متصادم تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ ایجاد کرلیا، حالانکہ اسلام اور سوشلزم ایک دوسرے کی ضد تھے۔ بھٹو کے زمانے میں معاشرہ اتنا لبرل ہوگیا تھا کہ اسے دیکھ کر خیال ہی نہیں آتا تھا کہ اس معاشرے کی بنیاد اسلام پر رکھی ہوئی ہے۔ جنرل ضیا الحق اسلامی ذہن رکھتے تھے، مگر انہوں نے اسلام کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ انہوں نے ایسی اسلامی بینکاری متعارف کرائی جو صرف نام کی ’’اسلامی‘‘ تھی۔ انہوں نے کچھ عرصے تک اسلامی سزائوں پر عمل کیا، مگر پھر دبائو پر یہ سلسلہ موقوف کردیا۔ جنرل ضیا کی آمریت کو دیکھا جائے تو وہ خود خلافِ اسلام تھی، اس لیے کہ اسلام میں آمریت کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔

1973ء میں ملک کو ایک اسلامی آئین فراہم ہوگیا، مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے آئین کو اسلام کا قید خانہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ وہ اسلام کو آئین سے نکلنے ہی نہیں دیتے۔ چنانچہ نہ ہماری سیاست اسلامی ہے، نہ ہماری حکومت اسلامی ہے، نہ ہماری معیشت اسلامی ہے، نہ ہمارا عدالتی نظام اسلامی ہے، نہ ہمارا تعلیمی نظام اسلامی ہے، نہ ہماری معیشت اسلامی خطوط پر استوار ہے۔ کہنے کو ہم ایک اسلامی ریاست اور اسلامی معاشرہ ہیں مگر معاشرے اور ریاست پر ’’نفسِ امارّہ‘‘ کا غلبہ ہے۔ نفسِ مطمئنہ کا دیدار کہیں اور کیا مذہبی طبقات تک میں نہیں ہوتا۔ معاشرے میں 99 فیصد لوگ نہ ’’خدا مرکز‘‘ زندگی بسر کررہے ہیں، نہ ’’رسولؐ مرکز‘‘ حیات بسر کررہے ہیں۔

قائداعظم نے وقت کی واحد سپر پاور سلطنتِ برطانیہ اور ہندو اکثریت سے لڑ کر پاکستان حاصل کیا تھا، مگر قائداعظم کے انتقال کے چند برس بعد ہی پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستان کو امریکہ کا غلام بناکر کھڑا کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری سیاست امریکہ کے کنٹرول میں ہے، امریکہ جب چاہتا ہے پاکستان میں مارشل لا لگ جاتا ہے، جب چاہتا ہے یہاں جمہوریت بحال ہوجاتی ہے۔ یہ امریکہ ہی تھا جس نے جنرل ضیا الحق کے طیارے کو دھماکہ خیز مواد سے مقامی سہولت کاروں کے ذریعے تباہ کردیا۔

یہ امریکہ ہی ہے جس نے میاں نوازشریف کو جنرل پرویز کی قید سے نکال کر سعودی عرب پہنچایا۔ یہ امریکہ ہی تھا جس نے جنرل پرویزمشرف اور بے نظیر کے درمیان این آر او کی راہ ہموار کی۔ بدقسمتی سے ہمارا دفاع پچاس سال سے امریکہ مرکز یا America Centric ہے۔ بدقسمتی سے پچاس سال سے ہماری معیشت امریکہ کی مٹھی میں ہے۔ حالت یہ ہے کہ جنرل باجوہ نے حال ہی میں امریکہ کی ایک اعلیٰ اہلکار کو فون کیا کہ وہ آئی ایم ایف سے پاکستان کو جلد ازجلد قرض دلانے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ہماری معیشت پر امریکہ کی گرفت کا یہ عالم ہے کہ ہمارا بجٹ آئی ایم ایف بناتا ہے، ہمارے محصولات کا پورا نظام آئی ایم ایف کے ہاتھوں میں ہے، یہاں تک کہ پیٹرول کے نرخ بھی آئی ایم ایف کی ہدایت پر بڑھائے جاتے ہیں۔ یہ منظر نامہ مکمل طور پر امریکہ کی غلامی کا منظرنامہ ہے۔

پاکستان بنانے میں جرنیلوں کا کوئی کردار ہی نہیں تھا، نہ ہی پاکستان جرنیلوں کی بیویوں کو جہیز میں ملا تھا، مگر جرنیل طاقت کے بل پر پاکستان کے مالک بن کر بیٹھ گئے۔ چنانچہ پاکستان صرف امریکہ کا غلام نہیں ہے بلکہ پاکستانی جرنیلوں کا بھی غلام ہے۔

جرنیل ہماری سیاست کو کنٹرول کررہے ہیں، جرنیل ہمارے انتخابات کو کنٹرول کرتے ہیں، جرنیل سیاسی جماعتوں کو قابو میں کیے ہوئے ہیں، جرنیلوں کی مرضی کے بغیر پاکستان میں پرندہ بھی پَر نہیں مار سکتا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جرنیل پاکستان کا مقامی استعمار بنے ہوئے ہیں۔ سیاست دان جرنیلوں کی فیکٹری میں ڈھالے جاتے ہیں، صحافی جرنیلوں کے پروردہ ہیں۔ عمران خان اپنا وزیر خزانہ لائے تو اسٹیبلشمنٹ نے اُن کے وزیر خزانہ کو قبول نہ کیا اور وہ عمران خان کے وزیر خزانہ کو ہٹا کر اپنا وزیر خزانہ لے آئی۔

دیکھا جائے تو یہ ہماری داخلی غلامی کا ایک شرم ناک منظر ہے۔ داخلی غلامی کا یہ منظر 1971ء میں آدھا ملک نگل گیا۔
عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو ہم مغربی تہذیب کے غلام بنے ہوئے ہیں، ہمارا سیاسی نظام مغربی ہے، ہمارا معاشی ماڈل مغربی ہے، ہمارا تعلیمی بندوبست مغربی ہے، ہمارا عدالتی نظام مغرب کی نقل ہے، ہم مغرب کی تفریح پر گزارا کر رہے ہیں، ہم مغرب کی غذائیںاستعمال کر رہے ہیں، مغرب کا لباس بروئے کار لا رہے ہیں، یہاں تک کہ ہماری خواہشیں، آرزوئیں، تمنائیں اور ہمارے خواب بھی مغرب سے آرہے ہیں۔

مغرب دنیا کا کتا بنا ہوا ہے، اور ہمارے یہاں بھی کروڑوں کی تعداد میں دنیا کے کتے موجود ہیں۔ مغرب دولت کی پرستش میں مبتلا ہے، اور کون ہے جو ہمارے معاشرے میں دولت کو نہیں پوج رہا؟ اسلام کہتا ہے: فضیلت صرف اُس کی ہے جس کے پاس تقویٰ یا علم ہو۔ لیکن ہمارے معاشرے میں تقویٰ اور علم کی کوئی حیثیت، کوئی اوقات اور بساط ہی نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں محترم اور عزت والا صرف وہ ہے جس کے پاس یا تو دولت ہے یا طاقت۔ پاکستان کے نظریے اور نصب العین کے اعتبار سے پاکستان کو دنیا کا آزاد ترین ملک اور ہمارے معاشرے کو دنیا کا آزاد ترین معاشرہ ہونا چاہیے تھا، مگر ہم بحیثیت ایک ریاست اور بحیثیت ایک معاشرے کے، سیکڑوں قسم کی غلامیوں میں مبتلا ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے یہاں آزادی ایک نعرے اور ایک خواب کے سوا کچھ نہیں۔