اپنے رب سے مانگیں

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’خرچ کیا کرو، گنا نہ کرو تاکہ تمہیں بھی گن کر نہ ملے، اور چھپا کر نہ رکھو تاکہ تم سے بھی اللہ تعالیٰ (اپنی نعمتوں کو) نہ چھپالے‘‘۔
(بخاری۔ عن اسما بنت ِابی بکر رضی اللہ عنہا)

انسان کس قدر عاجز ہے کہ ہر لمحہ اور صبح و شام جس چیز کا ضرورت مند ہے، اسے بھی وجود میں نہیں لاسکتا۔ نہ وہ چاول اور گیہوں کا ایک دانہ پیدا کرسکتا ہے، نہ اپنے لیے پانی کا کوئی قطرہ وجود میں لاسکتا ہے، نہ وہ ہوا اور آکسیجن کی تخلیق کرسکتا ہے، جس کے بغیر چند منٹ بھی اس کی زندگی باقی نہیں رہ سکتی۔ اور خدا کس قدر قادر اور عظیم ہے جس نے اتنی بڑی کائنات ہمارے لیے بچھائی ہے، اور ہر لمحہ لاکھوں پھل پھول ہیں جن کو وہ پیدا کرتا ہے، پھر وہ مہربان اور رحم دل بھی کس قدر ہے کہ اس نے سورج کا ایسا چراغ جلا رکھا ہے جس کی روشنی ہر آنگن میں پہنچتی ہے اور جس کے حکم سے گھٹائیں رحمت بن کر ہر کھیت کی پیاس بجھاتی ہیں، یہ آنگن کسی مسلمان کا ہو یا کسی کافر کا، اور یہ کھیت اللہ کے فرماں برداروں کے ہوں یا نافرمانوں کے۔ جو خدا اس قدر قادر اور مطلق ہے، جس کے خزانہ قدرت میں نعمتوں کی کوئی کمی نہیں، پھر جو اتنا سخی اور داتا ہے کہ دنیا میں اچھے برے کا فرق کیے بغیر سب کو دیتا ہے، خوب دیتا ہے اور دامن بھر بھر کے دیتا ہے، اس سے بڑھ کر کون اس لائق ہوسکتا ہے کہ عاجز و کمزور اور ضرورت و حاجت مندی کا پتلا انسان اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور اپنی ضرورتوں کے کشکول اس کے سامنے کھولے کہ اے اللہ! اپنے ایک فقیر بے نوا اور گدائے بے آسرا پر نگاہِ کرم فرما، اور اپنے دربار سے اس کے عاجز ہاتھوں کو واپس نہ کر۔ اسی ادائے بندگی کا نام ’’دعا‘‘ ہے۔ دعا کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اہلِ ایمان سے فرمایا ہے:
’’تم مجھ سے مانگو تو میں تمہاری دُعا قبول کروں گا۔‘‘(غافر: 60)
اپنے نیک بندوں کی تعریف کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ’’ان کے پہلو بستر سے الگ ہوتے ہیں اور خوف و طمع کے ساتھ اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں‘‘۔ (السجدۃ: 16)
ایک موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”اللہ سے اس کے فضل کے طلب گار رہو۔“ (النساء 32)
رسول اللہﷺ نے جو عبدیت اور بندگی کا نمونہ تھے، دُعا کرنے کی خوب ترغیب دی ہے۔
آپﷺ نے فرمایا:’’دُعا دراصل عبادت ہے۔‘‘ (ترمذی)
ایک اور روایت میں آپﷺ نے دُعا کو عبادت کی روح اور اس کا مغز قرار دیا۔
’’مخلوق کا مزاج یہ ہے کہ اس سے کچھ مانگو تو ناگواری ہوتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کو دُعا سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں۔‘‘ (ترمذی عن ابی ہریرۃ)
اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
’’جو شخص اللہ سے نہیں مانگتا، اللہ اس پر غصہ ہوتے ہیں۔‘‘ (ترمذی)
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جو مصیبتیں آچکیں دُعا ان میں بھی نافع ہے اور جو آنے والی ہیں دُعا ان سے بھی بچاتی ہے، اس لیے اللہ کے بندو! تم پر دُعا کا اہتمام ضروری ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’تم میں سے جس کے لیے دُعا کا دروازہ کھل گیا، اس کے لیے رحمت کے دروازے واہوگئے، اور انسان اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگتا ہے، اس میں عافیت سے بہتر کچھ اور نہیں‘‘۔
عام طور پر لوگ مصیبت کے وقت ہی دُعا کرتے ہیں، یہ بندے کی خودغرضی کی بات ہے، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:’’جو چاہتا ہو کہ مشکل وقتوں میں اس کی دُعا قبول کی جائے اسے چاہیے کہ بہتر وقت میں خوب دُعا کیا کرے۔‘‘ (ترمذی عن ابی ہریرۃؓ)
دُعا چونکہ خود عبادت ہے، اس لیے وہ کبھی رائیگاں نہیں جاتی، آپﷺ نے فرمایا:’’یا تو اس کی دُعا اسی طرح قبول کی جاتی ہے یا آخرت کے اجر کی صورت میں محفوظ ہوجاتی ہے۔ یا اسی مطلوب کے بقدر مصیبت اس سے دور کردی جاتی ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ عن ابی سعید خدریؓ)
حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:’’تمہارے پروردگار بہت حیاء والے اور کریم ہیں، جب بندہ ہاتھ پھیلاتا ہے تو اس سے حیاء کرتے ہیں کہ اس کے ہاتھوں کو خالی واپس کردیں۔‘‘ (مشکوٰۃ)
البتہ دُعا کے معاملے میں عجلت اور بے صبری نہیں ہونی چاہیے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ اگر انسان گناہ یا قطع رحمی کی دُعا نہ کرے تو اس کی دُعا قبول ہوتی ہے، بشرطیکہ جلد بازی سے کام نہ لے۔ دریافت کیا گیا، کہ جلد بازی سے کیا مراد ہے؟
آپﷺ نے فرمایا: یوں کہے: میں نے بہت دُعا کی، لیکن لگتا ہے میری دُعا قبول نہیں ہوئی۔ چنانچہ نا اُمید ہو کر دُعا کرنا چھوڑ دے‘‘۔ (مشکوٰۃ عن ابی ہریرہؓ)
اس لیے آپﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ خوشحالی اور کشادگی کا انتظار بھی افضل ترین عبادت ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ)
رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ کو دیکھیے تو صبح و شام تک دُعائوں کا معمول ہے، آپﷺ نے فرمایا:’’ اس طرح دُعا کرو، کہ دل میں یقین ہو کہ اللہ اسے ضرور ہی قبول فرمائیں گے‘‘۔ (مجمع الزوائد)
کیونکہ جب تک دُعا کے قبول ہونے کا یقین نہ ہو وہ کیفیت وانابت پیدا نہیں ہوسکتی جو دُعا کے لیے مطلوب ہے، پھر یہ بھی ضروری ہے کہ دُعا کے وقت قلب اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو۔ دل غافل اور لاپروا ہو اور زبان پر دُعا کے کلمات ہوں تو یہ دُعا مقبول نہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے، آپﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ اللہ غافل اور بے توجہ دل کی دُعا قبول نہیں فرماتے‘‘۔ (مشکوٰۃ)
خود اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’ دُعا کرنے والے پر فروتنی کی کیفیت ہونی چاہیے‘‘۔ (الاعراف 55)
قلب کے ساتھ ساتھ جسمانی اعتبار سے بھی دُعا کرنے والے کو بندگی اور عجزونیاز کا مظہر ہونا چاہیے۔ چنانچہ آپﷺ نے فرمایا:’’ جب اللہ تعالیٰ سے مانگو تو ہتھیلیوں کی طرف سے، نہ کہ پشت کی جانب سے یعنی ہتھیلیاں پھیلا کر رکھو، نہ کہ پشت۔ اور پھر اپنی ہتھیلیوں کو اپنے چہرے پر پھیر لو‘‘۔ (مشکوٰۃ عن ابن عباسؓ: 2243)
حضرت عمرؓ کی ایک روایت ہے کہ دُعا کا طریقہ یہ ہے کہ ہاتھ مونڈھوں کے مقابل یا ان کے قریب ہوں۔ (ابو دائود: عن عکرمہ) (باقی صفحہ 33پر)
گویا ایک بھکاری ہے جو اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہے۔ خود رسول اللہﷺ کا معمولِ مبارک بھی یہی تھا۔ (مشکوٰۃ: 2254)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ ہاتھ سینوں کے مقابل ہونا چاہیے، حضورﷺ اس سے زیادہ ہاتھ نہ اُٹھاتے تھے۔ (مشکوٰۃ: 2257)
آپﷺ نے دُعا کے کلمات کے بارے میں بھی آداب بتائے، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ دُعا سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرنی چاہیے اور آپﷺ پر درود، پھر دُعا کرنی چاہیے۔ (مجمع الزوائد: 10/155)
حضرت فضالہ بن عبیدؓ سے مروی ہے کہ ہم لوگ حضورﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، کہ ایک صاحب آئے، نماز پڑھی، پھر دُعا کرنے لگے کہ اللہ! مجھے معاف فرما۔ آپﷺ نے فرمایا: اے نماز پڑھنے والے تم نے جلد بازی کی، جب نماز پڑھو تو بیٹھو، پھر اللہ کی حمد کرو، پھر مجھ پر درود بھیجو، اس کے بعد دُعا کرو۔ چنانچہ اُس نے اس طرح دُعا کی تو آپﷺ نے فرمایا دُعا کرو قبول کی جائے گی۔ (مجمع الزوائد: 10/ 156)