فکرِ انسانی کا ارتقاء اور مسلمان

مصنف کا تعارف:
سید اقبال احمد کوئی نئے لکھاری نہیں ہیں۔ مختلف رسائل اور اخبارات میں ان کی تحریریں، مضامین اور کالموں کی شکل میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔

حیات رضوی امروہوی مدیر ششماہی ’’عمارت کار‘‘ اپنے تعارف میں لکھتے ہیں کہ سید اقبال احمد بنیادی طور پر ایک آرکی ٹیکٹ ہیں لیکن اپنے خصوصی مطالعے کی بنا پر انہیں انسانی فکر کے ارتقاء، معاشرتی و سیاسی حالات حاضرہ سے نہ صرف دلچسپی ہے بلکہ ان پر ان کی اچھی گرفت ہے۔ اردو ادب کے قارئین کو ان خیالات اور موضوعات سے آگاہی کے لیے ضرورت اس بات کی تھی کہ انہیں ایک کتابی شکل میں شائع کیا جائے تاکہ ان خیالات اور معلومات کو یکجا کیا جاسکے۔ یہ کتاب سید اقبال احمد نے بڑی تحقیق، محبت اور عمیق مطالعے کے بعد تصنیف کی ہے اور وہ کتاب کے مندرجات کو قارئین کے سامنے چھان پھٹک کر لائے ہیں۔ مصنف نے تمام قدیم مفکرین سے لے کر دورِ حاضر کے مفکرین کے افکار کے چیدہ چیدہ اور اہم نکات اس کتاب میں پیش کردیے ہیں تاکہ انہیں اندازہ ہوسکے کہ فکرِ انسانی سقراط سے لے کر اب تک کن کن مراحل سے گزری ہے اور اس نے متعلقہ معاشرتی اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے کیا کیا طریقہ کار تجویز کیے ہیں۔

اس موضوع کو اقبال صاحب نے انتہائی آسان اور مربوط انداز میں پیش کردیا ہے۔ مغربی تہذیب کے معاشرے میں رائج بعض وہ باتیں بیان کی گئی ہیں جو عموماً نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔ سرسید کی تحریک، علامہ اقبال کے نظریات، قائداعظم کی جدوجہد اور تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے بعد کے حالات اور موجودہ حالات کا تجزیہ موثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

مذکورہ کتاب کے مقدمے میں معروف دانشور اور شاعر جناب مسلم شمیم صاحب نے جو انجمن ترقی پسند مصنفین کے سابق صدر بھی ہیں، کتاب کے مقدمے میں لکھا ہے کہ یورپ میں سلطنت روما کے عروج و زوال پر گراں قدر کتابیں لکھی گئی ہیں۔ برصغیر میں بھی ہندوستان کے عہد قدیم کی موریہ سلطنت اور گپتا عہد کے عروج و زوال پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ سلطنت مغلیہ کے عروج و زوال کے اسباب پر بھی اور بیسویں اور اکیسویں صدی میں بھی فکر و دانش کے حلقوں میں بحث ہوتی رہی ہے۔ مسلم تاریخ کے حوالے سے عروج و زوال کا موضوع آج بھی معنویت کا حامل ہے بلکہ اس کی اہمیت اور ضرورت اور بڑھ گئی ہے۔ آج کے مسلم معاشرے کو بڑی سنگین صورت حال کا سامنا ہے۔ کہیں بھی ہم عصر سماجی زندگی کے تقاضوں پر سنجیدہ تحقیقی کام نہیں ہورہا ہے۔ دنیائے اسلام کو دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے الزامات کا مسلسل سامنا ہے جبکہ مسلم دنیا کی اکثریت، دہشت گردی اورانتہا پسندی کے سخت خلاف ہے لیکن یہ بات بھی غلط نہیں ہے کہ دہشت گردوں اور انتہا پسند عسکریت پسندوں کی اکثریت کا تعلق مسلم دنیا سے ہے۔ اس تاثر سے اسلام اور مسلم قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اسلام کے حوالے سے گمراہ کن عقائد اور نظریات کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جانا چاہیے اور مسلم حکمرانوں اور علماء کرام کو مسلم معاشرے سے ان رجحانات کا جڑ سے مکمل خاتمے کے لیے بھرپور جدوجہد کرنی چاہیے۔ او آئی سی (O.I.C) کے زیراہتمام اسلامی سربراہ کانفرنس کے زیر اہتمام سخت عملی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ مسلم فوبیا کا تدارک ہوسکے۔ اس کے لیے تحقیقی اداروں اور تھنک ٹینکوں کی اشد ضرورت ہے تاکہ اس مسئلے کو حل کرکے مسلم معاشرے پر لگے اس بدنما داغ کو دھویا جاسکے۔ مولانا الطاف حسین حالی کی نظم ’’مسدس حالی‘‘ یعنی مدوجزر اسلام، اسلام کے عروج و زوال کی ایک اثر انگیز داستان ہے۔ اسلام بحیثیت دین روزاول سے آج تک روشن ہے اور تاقیامت دین اسلام انسانی معاشرے کی رہنمائی اور ہدایت کا وسیلہ رہے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم معاشرے کو عہدِ جدید کی تبدیلیوں اور ترقی سے ہم آہنگ کیا جائے۔

رازی، ابن رشد، فارابی، البیرونی، حکیم ابنِ سینا، عمر خیام، ابنِ خلدون، جابر بن حیان، ابن موسیٰ، الخوارزمی، المسعودی، ابن الہیثم، الکندی عظیم سائنسداں اور فلسفی تھے جن سے یورپ نے بہت استفادہ حاصل کیا ہے۔ کئی صدیوں سے مسلم دنیا کا ہونے والی ان دریافتوں اور ایجادات میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ مسلم فکر و دانش کی دنیا ایک نشاۃ ثانیہ کی منتظر اور متقاضی ہے۔ کرہ ارض جو ایک (Global Village) بن گیا ہے جس کی وجہ سے سے علم اور سائنس کے بے کراں خزانوں تک ہر خطہ ارض کے انسان کو رسائی حاصل ہوگئی ہے۔ سائنسی اور تکنیکی انقلابات کا مہر تاباں روشن ہے۔ ضرورت ہے کہ مسلم فکر و دانش، تہذیب و تمدن کے ارتقائی سفر میں بھرپور پیش رفت کرے۔ سید اقبال احمد نے زیر نظر کتاب میں اس اہم موضوع کو سامنے رکھ کر اپنے خیالات کا اظہارکیا اس موضوع کی اہمیت اور ضرورت پر آئندہ بھی لکھا جانا چاہیے اور اسلامی فکر و دانش کو مہمیز عطا کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس موضوع پر آگہی کے لیے اس کتاب کو زیادہ سے زیادہ قارئین تک رسائی لازمی ہے۔ اس موضوع پر یہ ایک اچھا اضافہ ہے۔