پندرہویں ترمیم یا سقوطِ آزادکشمیر؟

آزاد کشمیر کا انتظامی ڈھانچہ اور نیم خودمختارانہ اسٹیٹس 75 سال بعد زمیں بوس ہونے کو ہے

وزیراعظم پاکستان کی سربراہی میں آزادکشمیر کے آئین میں ہونے والی ترمیم کے معاملات کا جائزہ لینے والی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں وفاقی وزیر دفاع، وزیر قانون اور وزیر امورکشمیر شامل ہیں

 

اس میں قطعی دو رائے نہیں کہ بھارت ہمہ وقت آزادکشمیر پر نظریں گاڑے ہوئے ہے۔ اس کا تازہ ثبوت بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کا کرگل میں ایک تقریب کے دوران یہ اعلان ہے کہ آزادکشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور ایسا ہوکر رہے گا۔ راجناتھ سنگھ نے اعلان کیا کہ ہم یہ بات نہیں بھول سکتے کہ بابا امرناتھ یہاں ہے اور ماتا شاردہ وہاں کیسے ہوسکتی ہے؟ راجناتھ سنگھ کا اشارہ آزادکشمیر کی وادی نیلم میں مشہور سیاحتی مقام شاردہ سے ہے جسے ہندو شاردہ دیوی کے حوالے سے ایک تاریخی اور متبرک مقام سمجھتے ہیں۔ بابا امرناتھ سے ان کی مراد مقبوضہ کشمیر میں امرناتھ کے نام سے موسوم وہ غار ہے جہاں ہر سال بھارت بھر سے لاکھوں ہندو یاتری پوجا پاٹ کرنے آتے ہیں۔ یوں راجناتھ سنگھ کشمیر کے دونوں حصوں کا تعلق ہندو مذہب اور ثقافت سے جوڑ کر حقیقت میں ایک مائنڈ سیٹ کا اظہار کررہے تھے۔

بھارت کی طرف سے آزادکشمیر پر اپنے مستقل دعوے اور اس کی تکمیل کے لیے مقرر اہداف نے آزادکشمیر کی حساسیت کو مستقل بنا رکھا ہے۔ بھارت 5 اگست 2019ء کو اپنے فیصلہ کن اقدام کے ذریعے مسلم کشمیر کی تہہ میں بابا امرناتھ اور ماتا شاردہ کی باقیات تلاش کرنے کے سفر کا سنگِ میل رکھ چکا ہے۔ پاکستان اور کشمیریوں کو اب اس اقدام کو غیر مؤثر بنانے کے لیے زور لگانا ہے۔ ان کی کاوشیں اب صرف اتنی ہیں کہ بھارت کو کشمیر پر اپنا نظریاتی ایجنڈا مسلط کرنے میں زیادہ کامیابی حاصل نہ ہو، یا بھارت کا یہ سفر طویل اور مشکل ہوکر رہ جائے۔ ایسے میں آزادکشمیر میں ایک ایسا مسئلہ سر اُٹھاتا ہوا محسوس ہورہا ہے جس پر عمل درآمد کو آزادکشمیر کا ’’5اگست2019ء‘‘کہا جارہا ہے ۔ گویا کہ پانچ اگست کو ’’سقوطِ کشمیر‘‘ کہا گیا، اور اب جو قدم اُٹھایا جانے والا ہے اسے ’’سقوطِ آزادکشمیر‘‘ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس فیصلے کا تعلق آزادکشمیر کے اسٹیٹس میں تبدیلی سے ہے۔ اس حوالے سے وزارتِ امورِ کشمیر کی طرف سے مظفرآباد آنے والے ایک مراسلے سے سراسیمگی پھیل گئی ہے۔ یہ مراسلہ وزارتِ امورِکشمیر کے جوائنٹ سیکرٹری نے آزادکشمیر کے چیف سیکرٹری کے نام لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم پاکستان کی سربراہی میں آزادکشمیر کے آئین میں ہونے والی ترمیم کے معاملات کا جائزہ لینے والی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں وفاقی وزیر دفاع، وزیر قانون اور وزیر امورکشمیر شامل ہیں، اور اس کمیٹی کے لیے حکومتِ آزادکشمیر بھی اپنے تین نام تجویز کرے۔ حکومتِ آزادکشمیر نے اس خط کے جواب میں تین بیوروکریٹس کے نام ارسال کردئیے ہیں۔ اس ترمیمی مسودے کو آزادکشمیر کے آئین میں تیرہویں ترمیم کو ختم کرنے کے لیے لائی جانے والی پندرہویں ترمیم کہا جا رہا ہے۔ تیرہویں ترمیم کے تحت آزاد جموں و کشمیر کونسل کا انتظامی اور مالیاتی اختیار ختم کرکے اس ادارے کو عملی طور پر ختم کردیا گیا تھا۔کشمیر کونسل کے تمام انتظامی اور مالیاتی اختیارات آزادکشمیر اسمبلی اور حکومت کو منتقل کردئیے گئے تھے۔ اس فیصلے کے بعد آزادکشمیر کے مالیاتی وسائل میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کے اختیارات اور اسٹیٹس میں بھی اضافہ ہوا تھا۔ اس فیصلے سے اسلام آباد کی بیوروکریسی کی پیشانی پر پڑے بل بہت واضح طور پر دیکھے جانے لگے تھے۔ اب اس کے اثرات سامنے آنے لگے ہیں۔

آزادکشمیر کے سابق وزیراعظم راجا فاروق حیدر جن کے دور میں تیرہویں ترمیم کے ذریعے آزادکشمیر کے مالیاتی اختیارات میں اضافہ ہوا تھا، اسلام آباد سے آنے والے مراسلے کے خلاف تلوار سونت کر میدان میں آگئے ہیں۔ انہوں نے اسمبلی میں ایک تحریک التوا پیش کی جس کے معنی خیز جملے کے الفاظ کچھ اس طرح تھے: ’’محسوس ہوتا ہے کہ تنازع کشمیر کے حوالے سے حکومتِ پاکستان اور حکومتِ ہندوستان کسی غیر تحریری معاہدے کی روسے ریاست جموں وکشمیر کی تقسیم پر متفق ہوچکی ہیں‘‘۔ آزادکشمیر کے وزیراعظم سردار تنویر الیاس کئی مواقع پر اس بات کی یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ آزادکشمیر کا اسٹیٹس تبدیل کرنے کی ہر کوشش کی مزاحمت کی جائے گی۔ سردار تنویر الیاس مزاحمت کرتے ہیں یا نہیں، مگر اُن کے لیے مزاحمت کرنا اس لحاظ سے آسان ہے کہ اسلام آباد میں اُن کی جماعت کے مخالفین کی حکومت ہے اور یہ سب سرگرمیاں اسی حکومت کے زیر سایہ جاری ہیں۔

لندن میں مقیم کشمیری دانشور اور پولیٹکل سائنٹسٹ سید نذیر گیلانی نے، جو اس ساری صورتِ حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ’’اگر پندرہویں ترمیم سے لفظ ’ریاست‘ اور اقوام متحدہ کا ریفرنس نکال دیا گیا ہے تو یہ پاکستانی5 اگست 2022ء ہوگا، اس کی کوئی آئینی و قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔ پاکستان کی آزادکشمیر میں موجودگی کی قانونی تشریح اور نظریہ بھارت سے مختلف ہے‘‘۔ سید نذیر گیلانی کے اس تبصرے کی بنیاد پر بات کی جائے تو پانچ اگست کے فیصلے کو سقوطِ کشمیر کہا گیا تھا، اور اب پندرہویں ترمیم کو ’’سقوطِ آزادکشمیر‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اس تبدیلی سے آزاد کشمیر کا انتظامی ڈھانچہ اور نیم خودمختارانہ اسٹیٹس 75 سال بعد زمیں بوس ہونے کو ہے، اور اس کی جگہ صوبائی طرز کے اسٹیٹس کی بنا پڑنے کو ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ اسلام آباد میں اس وقت پی ڈی ایم اور مظفرآباد میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور وزیر امور کشمیر کے طور پر قمرالزمان کائرہ کام کررہے ہیں۔ آزادکشمیر کے اسٹیٹس کی تبدیلی آزادکشمیر میں ایک غیر مقبول فیصلہ ہے، اسی لیے آزادکشمیر کی اپوزیشن جماعتیں مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی اس غیر مقبول فیصلے کا ملبہ اپنے اوپر گرنے کے خوف کے باعث زیادہ بلند آہنگی سے مجوزہ آئینی ترمیم کی مخالفت کررہی ہیں۔ بہرحال اسلام آباد کی بیوروکریسی کو اس معاملے میں کشمیریوں کی رائے اور خطرات ومضمرات کو قدم قدم پر پیش نظر رکھنا چاہیے۔