روس یوکرین جنگ چھٹےماہ میں! تر کیہ کی ”گندم سفارت کاری“

کئی ماہ کی سرتوڑ اور طوفانی سفارت کاری کے بعد روس اور یوکرین غلے کی ترسیل کے ایک مربوط نظام پر راضی ہوگئے

 

یوکرین روس جنگ چھٹے مہینے میں داخل ہوچکی ہے اور اس کے جلد خاتمے کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اس حوالے سے ایک امیدِ موہوم یہ ہے کہ جب آپ ہماری اس تحریر کو شرفِ مطالعہ سے سرفراز فرما رہے ہوں گے، تقریباً عین اسی وقت یعنی 5 اگست کو بحر اسود کے ساحلی شہر سوچی میں ترک صدر رجب طیب اردوان اپنے روسی ہم منصب کو یہ تنازع بارود کے بجائے بات چیت سے حل کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کررہے ہوں گے۔

سوچی میں اردوان پیوٹن ملاقات کتنی کامیاب رہے گی اس بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے، لیکن بات چیت کے لیے روسی صدر کا آمادہ ہوجانا انتہائی حوصلہ افزا ہے۔ اس سے قبل صدر پیوٹن فرانسیسی صدر کی دعوت یہ کہہ کر مسترد کرچکے ہیں کہ فرانس اس جنگ میں ایک فریق ہے جسے ثالث تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ یوکرین کے صدر ولادیمر زیلینسکی نے مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ”اپنے دوست اردوان پر یوکرین کو مکمل اعتماد ہے۔ میں صدر اردوان کی دیانت، غیر جانب داری اور امن سے اُن کے اخلاص کا معترف ہوں۔“

جہاں دنیا کے سارے امن پسند سوچی مذاکرات کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں، وہیں روس اور یوکرین سے دنیا کو گندم اور دوسرے ”دانوں“ کی ترسیل پر ماسکو اور کیف کی آمادگی اقوام عالم کیلیے خوش آئند ہے۔

یوکرین اور روس کی جنگ میں جہاں بے گناہ یوکرینی شہری مارے جارہے ہیں اور اربوں ڈالر کا نقصان ہورہا ہے، وہیں اس جنگ نے توانائی اور غذائی بحران پیدا کردیا ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والا تیل کا بحران جنگ کے آغاز سے بھی پہلے سے ساری دنیا میں موضوعِ گفتگو بنا ہوا ہے، لیکن اس کے غذائی پہلو پر سنجیدہ گفتگو اب شروع ہوئی ہے۔

یوکرین یورپ میں غذائی اجناس اور خوردنی تیل (Vegetable Oil) کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ جیسے ایک زمانے میں پنجاب کو برصغیر کا بریڈ باسکٹ کہا جاتا تھا ویسے ہی یوکرین اور روس کا سرحدی علاقہ روٹی کی یورپی چنگیری ہے۔ عام حالات میں یہاں ایک کروڑ85 لاکھ ایکڑ رقبے پر گندم، جو، مکئی، rye، تیل کے بیجوں اور دوسری غذائی اجناس کی کاشت ہوتی ہے۔ گزشتہ برس یوکرین نے ایک کروڑ 80 لاکھ ٹن گندم برآمد کی، جبکہ روسی برآمد کا حجم ڈھائی کروڑ ٹن تھا۔ یورپی یونین کے علاوہ لبنان، شام، یمن اور مصر یوکرینی گندم کے بڑے خریدار ہیں۔ چین اور یورپی ممالک بھی یوکرینی گندم خریدتے ہیں۔ قیمت کم ہونے کی وجہ سے لبنان کی ضرورت کی پچاس فیصد گندم یوکرین سے آتی ہے۔ لیبیا اپنی ضرورت کا 43 اور یمن 22 فیصد یوکرین سے حاصل کرتے ہیں۔ افریقی ممالک، ملائشیا، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش میں استعمال ہونے والی گندم کا 28فیصد یوکرین سے آتا ہے۔ مصر نے گزشتہ برس 30 لاکھ ٹن گندم یوکرین سے خریدی۔

بدقسمتی سے مشرقی یورپ کا یہ زرخیر خطہ میدانِ جنگ ہے۔ ماہرین خطرہ ظاہر کررہے تھے کہ اس خونریزی کا حتمی نتیجہ کچھ بھی ہو، گولہ باری کا آغاز ہوتے ہی ہر خوشہ ِ گندم جل کر خاک ہوجائے گا۔ خیر رہی کہ گندم اور دوسرے ضروری دانوں کے کھیت اب تک محفوظ ہیں۔ تاہم خدشے کے مطابق اس بار پیداوار میں کمی واقع ہوئی اور فصل کا مجموعی حجم 6 کروڑ 94 لاکھ ٹن ہے، جبکہ گزشتہ سال دس کروڑ ٹن سے زیادہ غلہ پیدا ہوا تھا۔ یوکرین نے الزام لگایا ہے کہ جنگ سے تو فصل کو قابل ذکر نقصان نہیں پہنچا لیکن مقبوضہ یوکرینی علاقوں سے روس نے کھڑی فصلیں چرا لیں۔ روسیوں نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ کریملن کا کہنا ہے کہ ”فرار“ ہوتی یوکرینی سپاہ نے خود ہی اپنے کھیتوں کو آگ لگائی۔ یہاں کون جھوٹا ہے اور کون سچا، اس بارے میں آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی۔

جنگ سے فصلیں بڑی حد تک محفوظ رہیں لیکن کھیتوں میں پڑی اور گوداموں میں اٹی گندم، جو اور مکئی کی ڈھیریاں کسی بھی وقت بموں کا نشانہ بن سکتی ہیں، چنانچہ ان کی جلد از جلد برآمد بہت ضروری ہے۔

یوکرین غذائی اجناس کی برآمد کے لیے بحراسود کی اوڈیسا اور مائیکولائیف (روسی تلفظ نائیکولائف) کی بندرگاہیں استعمال کرتا ہے، اور یہ دونوں بندرگاہیں روس کے نشانے پر ہیں۔ مائیکولائف، جہاز سازی کا مرکز ہے اور یہاں بڑے بڑے گوداموں کے علاوہ سامان لادنے اور اتارنے کی جدید ترین سہولیات موجود ہیں جس کی وجہ سے یہ بندرگاہ روس کی ”خصوصی“ توجہ کا مرکز ہے۔ روسی بحریہ نے ان بندرگاہوں کی مکمل ناکہ بندی کررکھی ہے۔

یوکرینی گندم کی ترسیل معطل ہونے سے ساری دنیا کو غذائی بحران کا سامنا ہے، اور اب یہ بحران دنیا کے کچھ علاقوں میں قحط کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے عالمی پروگرام برائے خوراک (WFP)کا کہنا ہے کہ یوکرینی غلہ بازار نہ آنے کی بنا پر غذائی قلت سے متاثر افراد کی تعداد کروڑوں تک جاپہنچی ہے۔ افریقہ کے چار کروڑ سے زیادہ لوگ نانِ شبینہ سے محروم ہیں۔ افغانستان کی 65 فیصد آبادی کو پیٹ بھر کے کھانا میسر نہیں۔ یمن، شام اور لبنان کے بہت سے علاقوں میں قحط کی سی کیفیت ہے۔
دو ملکوں کی اس جنگ کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اَنا کا مسئلہ بناکر عالمگیر تنازعے میں تبدیل کردیا ہے۔ افغانستان پر حملے کے لیے سابق صدر بش نے ”جو ہمارے ساتھ نہیں وہ دہشت گردوں کے ساتھ ہے“ کا بیانیہ وضع کیا تھا۔ درحقیقت یہ بلیک میلنگ کا ایک مکروہ ہتھیار تھا۔ یہی حکمت عملی اب صدر بائیڈن اور یورپی یونین کی ہے، جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ جنگ ختم کرانے کے لیے ثالثی کا کام بہت دشوار ہے۔ روس نیٹو اور یورپی یونین کو اپنا دشمن سمجھتا ہے تو دوسری طرف امریکہ کے خیال میں جو ممالک روس سے تیل خرید رہے ہیں وہ قابلِ اعتماد اتحادی نہیں۔ مزے کی بات کہ خود امریکہ کی بعض تیل کمپنیاں روسی خام تیل اور LNG خریدکر روپئے کی آٹھ چونیاں بنارہی ہیں۔ اس علاقے میں ترکیہ ایک اہم ملک ہے۔ بحر اسود کا ترک ساحل استنبول سے جارجیا تک 1000 میل لمبا ہے۔ خشکی سے گھرے بحر اسود سے باہر نکلنے کا واحد راستہ آبنائے باسفورس ہے جس سے گزر کر بحری جہاز بحیرہ مرمرہ آتے ہیں۔ اس اتھلے سمندر کو ترک جغرافیہ دان نہرِ استنبول کہتے ہیں۔ بحر مرمرا کے جنوب مغرب میں آبنائے ڈارڈیلینس (Dardanelles) اسے خلیج یونان سے ملاتی ہے جو بحر روم کا حصہ ہے۔ آبنائے ڈارڈیلینس کو ترک آبنائے چناکلے کہتے ہیں۔ باسفورس، بحیرہ مرمرا اور آبنائے چناکلے تینوں ترکی کا اٹوٹ انگ ہیں جس کی وجہ سے بحراسود پر ترکوں کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ روس اور یوکرین سمیت بحراسود کے تمام ممالک کے لیے ترکیہ بے حد اہم ہے۔

اس اہم بحری شاہراہ پر کنٹرول کے حوالے سے ترک اپنی ذمہ داری بہت احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں، اور حالیہ جنگ میں بھی امریکہ کے دبائو کو رد کرتے ہوئے ترکیہ نے باسفورس سے آنے اور جانے والی روس کی غیر عسکری بحری ٹریفک پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔

جنگ کے آغاز پر ہی صدر اردوان نے غذائی قلت کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے روس سے غلے کی ترسیل میں رکاوٹ نہ ڈالنے کی درخواست کی تھی اور بات چیت کے لیے ترک صدر، وزیردفاع، بحریہ کے سربراہ اور ترک وزیرخارجہ روسی و یوکرینی ہم منصبوں سے مسلسل رابطے میں رہے۔ روس کو خدشہ تھا کہ کہیں امریکہ گندم اٹھانے کی آڑ میں بحری راستے سے یوکرین کو اسلحہ بھیجنا نہ شروع کردے۔

بات چیت کے نتیجے میں روس اس بات پر راضی ہوگیا کہ اگر ترک بحریہ یوکرینی غلے کی نقل و حمل کی نگرانی کا کام سنبھال لے تو روس کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ صدر پیوٹن بار بار کہتے رہے کہ انھیں دنیا کو لاحق پریشانی کا احساس ہے لیکن وہ امریکہ پر دوٹکے کا بھروسا نہیں کرسکتے۔

کئی ماہ کی سرتوڑ اور طوفانی سفارت کاری کے بعد روس اور یوکرین غلے کی ترسیل کے ایک مربوط نظام پر راضی ہوگئے، جس کے مطابق:
٭زرعی اجناس کے لیے صرف اوڈیسا اور مائیکولائف کی بندرگاہیں استعمال ہوں گی۔
٭غلہ لادنے کے لیے خالی جہازوں کی ترک بحریہ آبنائے باسفورس پر جانچ پڑٖتال کرے گی۔
٭اس بات کا یقین کرلینے کے بعد کہ جہاز بالکل خالی ہیں انھیں ترک بحریہ کی نگرانی میں یوکرین کی نامزد کردہ بندرگاہوں کی طرف روانہ کیا جائے گا۔
٭روس، یوکرین اور ترک حکام ان خالی جہازوں کا مشترکہ جائزہ لیں گے۔
٭غلہ ترک بحریہ کی نگرانی میں لادا جائے گا، جس کے بعد ترک جنگی جہاز، بحر روم تک اس قافلے کو حفاظت فراہم کریں گے۔
٭ان جہازوں کےخلیج یونان میں داخلے کے بعد ترک بحریہ کی ذمہ داری ختم ہوجائے گی۔

امریکہ بہادر کو یہ بندوبست پسند نہیں جس کی بنیادی وجہ ترکیہ سے حسد ہے، لیکن روس اور یوکرین کی رضامندی کے بعد اقوام متحدہ نے نہ صرف Wheat Operationکی منظوی دے دی بلکہ روس اور یوکرین کے درمیان اس معاہدے پر ترک صدر اردوان کے ساتھ اقوام متحدہ کے معتمد عام جناب انتونیو گچیرس نے بطور ضامن دستخط بھی کیے۔ استنبول میں 22 جولائی کو ہونے والی اس تقریب میں کئی ممالک کے سفیروں نے شرکت کی۔ جناب گچیرس نے صدر اردوان کی ”گندم سفارت کاری“ کی زبردست تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ ”فلاحِ انسانیت“ کا معاہدہ ہے۔ انھوں نے ترک صدر کے کندھے تھپتھپاتے ہوئے امید ظاہر کی کہ جس کامیابی سے انھوں نے یوکرین اور روس کے درمیان ترسیلِ غلہ کا باوقار معاہدہ کروایا ہے اسی طرح علاقے میں پائیدار امن کے لیے جناب اردوان اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔

اس فیصلے پر غذائی قلت اور مہنگائی کا شکار دنیا بہت خوش تھی لیکن دوسرے ہی دن اُس وقت ان ساری امیدوں پر پانی پھر گیا جب روسی فضائیہ نے اوڈیسا پر زبردست فضائی حملہ کرکے اس کے بڑے حصے کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ یوکرینی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ حملے میں کئی گودیاں تباہ ہوگئیں اور سڑکوں پر گڑھے پڑجانے کی وجہ سے جہاز پر لادنے کے لیے گودام سے مال نکالنا ناممکن ہوگیا ہے۔

اس کے باوجود الجزیرہ کے مطابق 30 جولائی کو 16 جہازوں پر ڈھائی کروڑ ٹن (25 ٹن) گندم لادی جاچکی ہے اور اوڈیسا سے جہازوں کا یہ قافلہ روانگی کے لیے تیار ہے۔ اس خوش کن خبر پر دنیا اطمینان کا سانس بھی نہ لے پائی تھی کہ 31 جولائی کو روسیوں نے مائیکو لائف کی بندرگاہ پر میزائیل برسا دیے جس سے یوکرین میں غلے کے سب سے بڑے سوداگر اور نبیلون (Nibulon) زرعی کمپنی کے مالک اولیسکی ویڈٹرسکی (Oleksiy Vadatursky)ہلاک ہوگئے۔ اوڈیسا پورٹ حکام کا کہنا ہے کہ تازہ میزائیل حملے کے باوجود یوکرینی بحریہ سے اجازت ملتے ہی ایک آدھ دن میں غلہ کارواں روانہ ہوجائے گا۔ لیکن ایک دن تو کیا ایک منٹ کی تاخیر افریقہ، شام اور یمن کے لوگوں کو موت کے قریب کرتی جارہی ہے۔

ترک رہنمائوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ اگلے چوبیس گھنٹوں میں گندم سے لدے تمام کے تمام 16 جہاز کھلے سمندر میں ہوں گے۔ اسی کے ساتھ ہم جیسے پُرامید تجزیہ کاروں نے جمعہ کو سوچی میں ہونے والی ترک روس سربراہ کانفرنس سے بڑی امیدیں وابستہ کرلی ہیں۔ صدر اردوان کو اللہ نے بات چیت اور گفتگو کے فن میں مہارت بخشی ہے، اور اپنے اخلاص کی بنا پر وہ بہت جلد میز کے دوسری طرف بیٹھے شخص کا اعتماد حاصل کرلیتے ہیں۔ ترک صدر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے، لارے نہیں دیتے، اور سب سے بڑی بات کہ ان کا حسنِ سماعت غضب کا ہے۔

دنیا نے عثمانیوں کا جاہ وجلال دیکھا ہے، اب دورِ حاضر کا انسان ان شااللہ ترک سفارت کاری کا کمال دیکھے گا۔
…………………
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔