افغانستان دنیا کی تین عالمی طاقتوںکے خاتمے کا سبب بنا؟
افغانستان ایک تاریخی ملک ہے اور اسے ایک فاتح قوم اور ملک کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ برصغیر ہند پر حکمران رہا ہے، کئی دفعہ ہندوستان کو تاراج کرچکا ہے، اور غلامی کو پسند کرنا اس کی سرشت میں نہیں ہے۔ برطانیہ نے جب افغانستان پر قبضہ کیا تو بالآخر اسے ایک شکست خوردہ قوم کی حیثیت سے افغانستان سے لوٹنا پڑا اور امان اللہ خان کو افغانستان کا بادشاہ تسلیم کرنا پڑا۔ ہندوستان پر پہلا حملہ شہاب الدین غوری نے کیا جس میں اسے شکست ہوگئی، وہ زخمی ہوکر گر پڑا تھا کہ ایک کمانڈر نے اسے اٹھایا اور محفوظ مقام پر پہنچا دیا۔ اس کے بعد شہاب الدین غوری نے 1192ء میں ہندوستان پر حملہ کیا اور رانا سانگا کو شکست دی۔ یوں اس نے اپنا بدلہ لے لیا۔ برطانیہ نے شکست کے بعد امان اللہ خان سے بدلہ لیا اور بچہ سقہ کی حمایت کی، ملاّئوں نے فتوے جاری کیے اور امان اللہ خان کو افغانستان سے رخصت ہونا پڑا۔ وہ کوئٹہ آئے، اس کے بعد اٹلی چلے گئے۔ امان اللہ خان نے ماہرین سے مدد لی اور افغانستان کے لیے ایک دستور بنایا اور بادشاہت کو قانونی اور دستوری تحفظ فراہم کیا۔ یوں افغانستان دستور کے تحت آگیا۔ لوئی جرگہ بھی دستوری حیثیت رکھتا ہے، اور سردار دائود تک یہ دستور حکمرانی کو تحفظ فراہم کرتا رہا۔
سردار دائود نے ایک مستحکم افغانستان کو متزلزل کردیا، اُسے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ اُس کے گرد افغانستان کے کمیونسٹوں نے ایک جال بنا رکھا تھا، اور بالآخر خلق اور پرچم نے مل کر اس کی حکمرانی کا خاتمہ کردیا اور اسے خاندان سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ لوگ اُس سے بعض دستاویزات پر دستخط چاہتے تھے، لیکن اُس نے انکار کردیا۔ پھر نور محمد ترہ کئی کو تختِ افغانستان پر بٹھادیا گیا اور ایک مسلم افغانستان کو کمیونسٹ ملک میں تبدیل کردیا۔ حفیظ اللہ امین نے نور محمد ترہ کئی کے خلاف بغاوت کی، یوں خلق پارٹی کے بانی نور محمد ترہ کئی کو بڑی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور اقتدار پرچم پارٹی کے ہاتھ میں آگیا۔ اس دوران ایران میں امام خمینی کی قیادت میں عوام شاہ ایران کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ فروری 1979ء میں شاہ کا تختہ الٹ دیا گیا، شاہ فرار ہوگیا اور اقتدار امام خمینی کے ہاتھ میں آگیا۔ سوویت یونین اس انقلاب سے خوف زدہ ہوگیا اور اس نے افغانستان میں روسی فوج اتارنے کا فیصلہ کیا، اور رات کو بگرام پر سرخ فوج اترنا شروع ہوگئی اور درہ سالانگ سے بھاری توپ خانہ بڑی تیزی سے کابل میں داخل ہوگیا۔ حفیظ اللہ امین ایوانِ صدر میں تھا، اس کو علم ہوگیا اور اس نے مقابلے کا فیصلہ کیا اور ڈٹ کے مقابلہ کیا۔ لیکن جلد ہی اس کی قوت نے دم توڑ دیا۔ یوں افغانستان ایک کمیونسٹ سوویت روس کے قبضے میں چلا گیا۔ اس کے بعد افغانستان میں مسلح جدوجہد کا آغاز ہوگیا۔ مغرب اس میدان میں اپنی حکمت عملی کی بنا پر داخل ہوگیا، اس نے مجاہدین کو مسلح کیا۔ عرب ممالک کی بادشاہت کو بھی خطرہ محسوس ہوا تو انہوں نے اس کشمکش میں دل کھول کر مجاہدین کی معاشی مدد کی۔ اس طرح سوویت یونین کو شکست ہوگئی۔ اس کے بعد سوویت یونین کے عوام کمیونسٹ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور سوویت یونین دیکھتے دیکھتے بکھر گیا اور کئی مسلم ریاستیں اُس کی گرفت سے نکل گئیں اور آزاد ہوگئیں۔ یہ تاریخ کا حیرت انگیز موڑ تھا۔ پھر یوگوسلاویہ ٹوٹ گیا اور کئی ریاستیں آزاد ہوگئیں۔ یہ دور ابتدا میں امریکہ کو پسند تھا، لیکن تھوڑے عرصے کے بعد مغرب نے مجاہدین کی حکومت کو ختم کیا اور طالبان کے حوالے کردیا۔ امریکہ اس جنگ کے نتائج سے بے خبر تھا۔ عرب مجاہدین اور طالبان متحد ہوگئے۔ امریکہ کے لیے سوویت یونین سے زیادہ خطرناک طالبان ثابت ہوئے اور عرب مجاہدین کا مسلح ہونا اور اکٹھا ہونا بھی خطرناک ثابت ہوا۔ اس نئی کشمکش میں امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ آور ہوگیا۔ یہ بالکل نئی کشمکش تھی، اس میں پاکستانی فوج کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور جنرل پرویزمشرف کو اقتدار میں لایا گیا۔ سب سے زیادہ حیرت اس بات پر تھی کہ پاکستان کا لیفٹ اور قوم پرست گروہ امریکہ اور ناٹو کی پالیسی کے ہمنوا بن گئے، بلکہ سرخ کیمپ سے سفید سامراج کے کیمپ میں چلے گئے۔ یہ باتیں بازو کاتاریخی یوٹرن اور انحراف تھا۔ طالبان کے خلاف مسلم ممالک کی اکثریت سمیت پوری دنیا محاذ آرا ہوگئی۔ پاکستان امریکی کیمپ کا طاقتور حلیف بن گیا۔ اسامہ کو پاکستان کی سرزمین پر تہہ تیغ کیا گیا۔ امریکہ کے کہنے پر فاٹا کو تاراج کیا گیا اور خون میں ڈبو دیا گیا۔ طالبان کو بڑی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ مغرب نواز شخصیت کو افغانستان کا حکمران بنایا گیا، اس کے لیے انتخابات کا ڈھونگ رچایا گیا۔ پاکستان کی مقدس سرزمین امریکہ اور مغربی استعمار کے لیے استعمال ہوئی۔ پاکستان نے آخری لمحات میں طالبان کا ساتھ دیا، چین اور روس بھی درپردہ طالبان کے پشت پناہ بن گئے اور قطر کا کردار سب سے نمایاں ہوگیا۔ سعودی عرب منہ دیکھتا رہ گیا اور طالبان 20 سال کی ایک عظیم جدوجہد کے بعد کابل میں داخل ہوگئے۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ امریکی فوج بھاگ رہی تھی اور افغانستان میں امریکی سامراج کا سورج غروب ہورہا تھا۔ طالبان تختِ کابل پر حکمران ہوگئے، کلمہ والا پرچم سربلند ہورہا تھا۔ ملا عمر کی قیادت میں اس جنگ کا آغاز ہواتھا، ان کی وفات کے بعد ملا منصور قائد بن گئے، انہیں بھی امریکہ نے ایران سے واپسی پر موت کے گھاٹ اتار دیا، اور تیسرے قائد کے طور پر ملا ہبت اللہ افغانستان کے حکمران بن گئے۔
پاکستان کے اندر بھی سیاست سے دلچسپی رکھنے والے ابھی تک طالبان کے سسٹم کو سمجھ نہیں سکے کہ کس طرح وہ اپنے امیر کا انتخاب کرتے ہیں، اس لیے کہ کوئی تحریری مواد ہمارے سامنے نہیں ہے۔ ملا عمر کی وفات کے بعد طالبان نے ملا منصور کو امیر منتخب کیا۔ وہ ایران گئے تھے، واپسی پر انہیں بلوچستان کے علاقے میں نشانہ بنایا گیا اور وہ مارے گئے۔ ان کی شہادت کے بعد طالبان کی انتخابی کمیٹی کے سامنے 3 اہم نام تھے: پہلا نام ملا عمر کے صاحبزادے کا، دوسرا ملا یعقوب کا، اور تیسرا نام سراج الدین حقانی کا تھا۔ عام خیال تھا کہ کمیٹی ملا عمر کے صاحبزادے کو منتخب کرلے گی، مگر اس نے بہت سوچ بچار کے بعد ملاہبت اللہ کو اپنا امیر منتخب کرلیا۔ طالبان کا انتخاب کئی پہلوئوں سے اہم ہے۔ اب طالبان جنگ کے میدان سے سیاست کے میدان کی طرف لوٹ رہے ہیں، اس لیے اب مذاکرات کی طرف جائیں گے۔ اب ان کے لیے میدانِ سیاست اہم ہے، اس لیے ملا ہبت اللہ کا انتخاب تمام پہلوئوں کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے۔ مولوی ہبت اللہ ایک سند یافتہ عالم دین ہیں، عمر 50 سال ہے، وہ طالبان کے باغی گروہوں کو ساتھ ملانا چاہتے ہیں۔ ان کی حیثیت علمی ہے اور میدانِ سیاست کے لیے ان کا انتخاب بالکل درست نظر آتا ہے۔ ملا ہبت اللہ خاموش طبع انسان ہیں، وہ اچھے سامع ہیں، وہ جج کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ طالبان نے ان دونوں ناموں کو جو اس منصب پر آنا چاہتے تھے، ملا ہبت اللہ کا نائب منتخب کیا ہے۔ اب سراج الدین حقانی اور ملا یعقوب ان کے معاون ہیں۔ یہ ایک درست فیصلہ ہے۔
ملا منصور کو بلوچستان میں نشانہ بنایا گیا، اب معلوم ہوا کہ انہیں افغانستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ملا منصور کو ملا عمر کی وفات کے بعد امیر بنایا گیا تھا، اور انہوں نے ملا عمر کی موت کو چھپائے رکھا، وہ ملا عمر کے نام سے احکامات جاری کرتے تھے۔
ملا ہبت اللہ کا بچپن قندھار میں گزرا ہے، ان کے والد اپنے گائوں میں خطیب تھے۔ ملا ہبت اللہ نے جنگوں میں حصہ نہیں لیا، ان کی حیثیت طالبان میں ایک دانشور کی سی ہے۔ ملا ہبت اللہ طالبان میں زیادہ شہرت نہیں رکھتے، اس لیے کہ وہ جنگوں میں شریک نہیں رہے ہیں۔ طالبان کمانڈر کہتے ہیں کہ ہم ان کے احکامات کے پابند ہیں۔
ملا یعقوب کی عمر 25 سال ہے اور انہیں وہ تجربہ حاصل نہیں ہے جو ملا ہبت اللہ کو حاصل ہے۔ سراج الدین حقانی طالبان کے مرکزی عسکری ونگ کے کمانڈر ہیں اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب تصور کیے جاتے ہیں۔ آپ ملا منصور کے نائب منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے امریکی اور افغان فورسز کے خلاف کئی کامیاب آپریشن کیے ہیں۔ ملا ہبت اللہ کا انتخاب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ کے مطابق طالبان کی مجلس شوریٰ کے 24 ارکان اور افغانستان کے ممتاز علماء نے مل کر کیا ہے۔ ملا عمر کے قریبی ساتھی ملا عبدالسلام ضعیف نے بتایا کہ مولوی ہبت اللہ طالبان کے تمام گروہوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ملا عبدالسلام ضعیف کی رائے ہے کہ طالبان اپنی پالیسی تبدیل کریں یا نہ کریں دونوں صورتوں میں تمام طالبان کا ایک بات پر متفق ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ بیرونی مداخلت کے حوالے سے طالبان کا فتویٰ موجود ہے کہ جنگ جاری رکھی جائے۔ ملا عبدالسلام ضعیف کا کہنا ہے کہ طالبان کا اس فتوے کے خلاف جانا اپنے آپ کو تنہا کرنے کے مترادف ہوگا۔ جب افغانستان میں روسی جارحیت شروع ہوئی تو ملا ہبت اللہ کا خاندان کوئٹہ منتقل ہوگیا تھا۔ ملا ہبت اللہ نے اپنی زندگی کے خوبصورت لمحات کوئٹہ میں گزارے ہیں۔ وہ افغان مہاجرین کے کیمپ میں تھے۔ ایک طویل عرصہ انہوں نے کیمپ میں گزارا اور دینی تعلیم حاصل کی۔ اب گزشتہ 14 سال سے وہ طالبان کے ساتھ میدانِ عمل میں موجود ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں وہ طالبان کے اقتدار میں آتے ہی جج کے عہدے پر فائز کیے گئے تھے۔ بے شمار فیصلے کیے اور ملا عمر کی تائید انہیں حاصل تھی اور وہ ان کی رائے کو اہمیت دیتے تھے۔ ملا منصور کے نائب منتخب ہونے سے پہلے مولوی ہبت اللہ پاکستان کے مدرسوں میں ایک عالم کی حیثیت سے معتبر شخصیت شمار ہوتے تھے۔ وہ پاکستان میں رہ کر مدرسوں کے طلبہ کو افغان جہاد کی طرف راغب کرتے تھے اور ان کی ذہن سازی کرتے تھے۔ افغانستان کے سابق سفیر حبیب اللہ فوزی کے مطابق مولوی ہبت اللہ کے انتخاب کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ طالبان کے مختلف بکھرے گروہوں کو متحد کریں گے۔ ملا منصور سے بغاوت کرنے والے اکثر کمانڈروں کا تعلق مولوی ہبت اللہ کے قبیلے نورزئی سے ہے۔ ان کے انتخاب کا یہ بھی پس منظر ہے کہ وہ ناراض کمانڈروں کو واپس لانے کا سبب بنیں گے۔ طالبان کے ایک باغی گروپ کے کمانڈر ملا عبدالمنان کی رائے ہے کہ ملا ہبت اللہ کا انتخاب قابلِ قبول نہیں ہے کہ ملا منصور کے دور میں گرفتار کیے گئے طالبان کمانڈروں سے مشورہ نہیں کیا گیا۔ یہ ایک رائے ہے۔ بہرحال ملا ہبت اللہ کا انتخاب بہت سوچ بچار کے بعد کیا گیا ہے اور طالبان آہستہ آہستہ اپنے مقاصد کی طرف جارہے ہیں، اور اس وقت مسئلہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا ہے۔