بارش کے بعدشہر میں اس وقت تعفن پھیل رہا ہے، گٹر بہہ رہے ہیں
کراچی کے عوام بدترین حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، لوگوں کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں، ایک عام صارف سے لے کر دکان دار تک.. سب پریشان ہیں، سندھ حکومت کی نااہلی و ناقص کارکردگی نے پورے شہر کو کھنڈر اور گندے پانی کے تالاب میں تبدیل کردیا ہے۔ سندھ حکومت جھنڈے لگاکر نمائشی اقدامات اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے سوا کچھ نہیں کررہی ہے۔ پیپلزپارٹی گزشتہ15سال سے سندھ اور کراچی پر حکمرانی کررہی ہے جس میں 8سال ایم کیو ایم بھی حکومت کا حصہ رہی ہے، اور دونوں نے مل کر شہر کا جو بدتر حال کیا ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ جسارت کے متحرک رپورٹر منیر عقیل انصاری کی رپورٹ کے مطابق ”کراچی میں بارش کے بعد پہلے سے تباہ حال گلیوں، سڑکوں اور اہم شاہراہوں کی حالت مزید بدتر ہوگئی ہے۔ شہر کی97 اہم سڑکیں اور اہم شاہراہیں ٹوٹ چکی ہیں، ڈسٹرکٹ ساؤتھ کی 10 سڑکیں، ڈسٹرکٹ سٹی کی 10، ڈسٹرکٹ سینٹرل کی 29، ڈسٹرکٹ ایسٹ کی 14، کورنگی کی 12، ڈسٹرکٹ ویسٹ کی 10 اور ڈسٹرکٹ ملیر کی 12 سڑکوں سمیت شہر کی دیگر 145 چھوٹی بڑی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔“
حالیہ مون سون بارشوں میں 66کروڑ روپے کا بجٹ نالوں کی صفائی کے لیے منظور ہوا، 1.2 ارب روپے اس کے علاوہ مینٹی نینس کے نام پر مختص کیے گئے تھے، لیکن اس میں سے سندھ حکومت نے سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے شہر میں کتنا لگایا وہ اس کی سڑکیں اور تباہ حال انفرا اسٹرکچر چیخ چیخ کر بول رہا ہے۔ شہر میں اس وقت تعفن پھیل رہا ہے، گٹر بہہ رہے ہیں، ڈی ایچ اے سے سرجانی تک تمام ہی علاقے گندگی میں لتھڑے ہوئے ہیں، شہر میں جرائم بڑھ گئے ہیں، آئے روز قتل کی وارداتیں ہورہی ہیں، ڈاکو جب چاہتے ہیں کسی کو نشانہ بنادیتے ہیں۔ جگہ جگہ آج بھی گندا پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے گاہک دکانوں اور بازاروں کا رخ کرنے سے گریزاں ہیں۔ ایسے میں بجلی کے بلوں اور ٹیکسوں کی صورت میں ایک نیا عذاب شہریوں پر مسلط کردیا گیا ہے اور تاجر و شہری دونوں اس وقت سراپا احتجاج ہیں۔ کراچی کے لوگ اس وقت چیخ اور چلّا رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کسی خاص منصوبے کے تحت انہیں خراب صورت حال میں رکھا ہوا ہے۔ ایسے میں جماعت اسلامی کراچی کے عوام اور کراچی کے تاجروں کے ساتھ کھڑی ہے اور ہر ہر ایشو پر روزانہ کی بنیاد پر جدوجہد کررہی ہے جس کی پاداش میں اسے ریاستی جبر اور تشدد کا بھی سامنا ہے۔ لیاری میں جماعت اسلامی کے احتجاجی کیمپ پر حملے کا معاملہ حال ہی کا واقعہ ہے جہاں حکومتی پارٹی کے غنڈہ عناصر نے پُرامن احتجاج کو روکنے کی کوشش کی اور ریاست ان کی پشت پر کھڑی رہی۔ ایم پی اے عبدالرشید سمیت کئی کارکنوں پر تشدد کیا گیا۔
جماعت اسلامی کی حقوق کراچی تحریک کا مقصد ہی یہ ہے کہ کراچی کے ساڑھے تین کروڑ شہریوں کو تحفظ مل سکے اور ان کے حقوق مہیا ہوسکیں۔ اس وقت کراچی کا ایک اور سب سے بڑا مسئلہ دکان داروں اور خوردہ فروشوں (Retailers)سے کے الیکٹرک کے ذریعے بجلی کے بلوں میں ظالمانہ اور جبری ٹیکس کی وصولی ہے، جس کی وجہ سے تاجر پریشان ہیں۔ جماعت اسلامی کبھی بھی اس کے حق میں نہیں ہے کہ دکان دار ٹیکس ادا نہ کریں، بلکہ تاجر بھی چاہتے ہیں کہ ٹیکس لیا جائے، لیکن ظالمانہ ٹیکس کسی صورت قبول نہیں ہے۔ پہلے جماعت اسلامی نے تاجروں کی تمام تنظیموں و اتحاد اور چیمبر آف کامرس کے رہنماوں کے ساتھ کے الیکٹرک ہیڈ آفس گذری پر احتجاج کیا جس میں شہر بھر کی تاجر تنظیموں و مارکیٹ ایسوسی ایشنز کے رہنماؤں اور نمائندوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ احتجاجی کیمپ سے آل پاکستان آرگنائزیشن آف اسمال ٹریڈرز اینڈ کاٹیج انڈسٹری کراچی کے صدر محمود حامد، آل کراچی تاجر اتحاد کے چئیرمین عتیق میر، لائٹ ہاوس مارکیٹ ایسوسی ایشن کے رہنما حکیم شاہ، آرام باغ مارکیٹ کے رہنما دلشاد بخاری، بولٹن مارکیٹ کے صدر محمد شریف، صدر کو آپریٹو مارکیٹ کے رہنما اسلم خان،کراچی اسپورٹس مارکیٹ کے صدر سلیم ملک، آرام باغ ٹریڈ ایسوسی ایشن کے نائب صدر محمد آصف، سعید آباد ٹریڈ ایسوسی ایشن کے صدر، اورنگی ٹریڈ ایسوسی ایشن کے صدر عبداللہ بٹرا، لیاقت آباد ٹریڈرز الائنس کے رہنما بابر خان بنگش، حیدری مارکیٹ کے سید اختر شاہ، اسمال ٹریڈرز کے نائب صدر نوید احمد، تاجر رہنما حفیظ شیخ و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ تاجروں نے بجلی کے بل ہاتھوں میں اٹھاکر احتجاج کیا۔ تاجروں نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور بینر اٹھائے ہوئے تھے جن پر تحریر تھا ”کے الیکٹرک کے بلوں میں تاجروں سے ناجائز ریٹیلر ٹیکس نامنظور، بجلی کے بلوں میں غنڈہ ٹیکس نامنظور، بجلی کے بلوں میں ایف بی آر کی مداخلت نامنظور، ایف بی آر کے الیکٹرک گٹھ جوڑ نامنظور“۔ اسی طرح حیدری مارکیٹ ایسوسی ایشن کی انتظامیہ کے تحت کبوتر چوک حیدری پر سیکڑوں دکان داروں نے بجلی کے بلوں میں جبری ریٹیلرز سیلز ٹیکس کی وصولی کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا، بعد ازاں دکان داروں نے کبوتر چوک سے کے الیکٹرک آفس نارتھ ناظم آباد بلاک H تک احتجاجی مارچ کیا، اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور مطالبہ کیا کہ کے الیکٹرک بجلی کے بلوں سے 6ہزار روپے سیلز ٹیکس فی الفور ختم کرے اور تاجروں کو نئے بل جاری کرے، بصورتِ دیگر تاجر بجلی کے بل ادا نہیں کریں گے۔ اس موقع پر امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن، حیدری مارکیٹ ایسوسی ایشن کے صدر اختر شاہد اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے خطاب کرتے ہوئے تاجروں سے بھرپور اظہارِ یکجہتی کیا اور ایک بار پھر جماعت اسلامی کے اس مؤقف کا اعادہ کیا کہ تاجروں پر یہ ظالمانہ اور جبری سیلز ٹیکس فی الفور ختم کیا جائے، اس کے نفاذ کے لیے ایف بی آر کراچی چیمبر آف کامرس اور تاجر تنظیموں کی مشاورت سے فکسڈ ٹیکس کا ایک منصفانہ اور قابلِ عمل نظام وضع کرے، اگر بجلی کے بلوں میں اسے وصول کرنا ہے تو پھر ایف بی آر کا کیا کام رہ جاتا ہے؟ 150یونٹ استعمال کرنے والوں کے حوالے سے جو ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس سے باز رہا جائے۔ جماعت اسلامی تاجروں کے ساتھ ہے، تاجروں کے احتجاج کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ جماعت اسلامی تاجروں کے ساتھ مل کر بھرپور احتجاج کی کال دے گی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے اختر شاہد نے کہا کہ حافظ نعیم الرحمٰن نے تاجروں کے مسئلے کو بھرپور طریقے سے اُٹھایا ہے جس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں، تاجروں کا واضح اور دوٹوک اعلان ہے کہ ہماری احتجاجی تحریک جاری رہے گی اور جب یہ ٹیکس ختم ہوگا تبھی تحریک ختم ہوگی۔
اب لگتا ہے جماعت اسلامی کی ”حق دو کراچی تحریک“ جدوجہد اور مزاحمت کے نئے مرحلے میں داخل ہورہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سوائے جماعت اسلامی کے عوام کی ترجمانی کرنے والا کوئی نہیں۔ اس وقت شہر کے مسائل کا حل صرف ایک ہی ہے کہ فوری بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں، تاکہ عوام اپنے بلدیاتی نمائندے منتخب کرسکیں۔