سیلاب کی تباہ کاریاں:بلوچستان انسانی المیے کا شکار،کورکمانڈر کوئٹہ کے ہیلی کاپٹر کو حادثہ

مسلسل بارشوں، دوسرے اور تیسرے شدید اسپیل نے صوبے کے34اضلاع میں سے26کو تہہ و بالا کردیا۔

بلوچستان میں جون کے پہلے اسپیل کے بعد جولائی میں دوسرے اور تیسرے اسپیل کی سیلابی آفت نے صوبے کے غالب حصے کو تہہ و بالا کردیا۔ یہاں تک کہ اس آفت نے کور کمانڈر12لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کو بھی 6 افسران سمیت نگل لیا۔ یکم اگست کو جب وزیراعظم میاں شہبازشریف وفاقی وزراء کے ہمراہ کوئٹہ، ضلع چمن اور قلعہ سیف اللہ کے دورے پر تھے، عین اسی دن لیفٹیننٹ جنرل سرفراز ضلع لسبیلہ کے دورے پر تھے۔ سیلاب و بارشوں سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات پر کمشنر قلات ڈویژن محمد دائود خلجی نے بریفنگ دی۔ کور کمانڈر نے خصوصاً پاک فوج کی جانب سے متاثرین کی بحالی اور ریلیف کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا۔ فوج کے جوان یقیناً صوبے بھر میں سول انتظامیہ کے ساتھ امدادی اور ریلیف سرگرمیوں میں ہمہ وقت لگے ہوئے ہیں۔ جنرل سرفراز علی کے ہمراہ ڈی جی کوسٹ گارڈ میجر جنرل امجد حنیف ستی اور کمانڈر انجینئر 12کور بریگیڈ محمد خالد بھی موجود تھے۔ پانچ بجے آرمی افسران کے دو ہیلی کاپٹروں نے اوتھل سے کراچی کی جانب اڑان بھری جسے ایک گھنٹے میں کراچی پہنچنا تھا۔ ایک ہیلی کاپٹر منزل پر پہنچ گیا۔ جنرل سرفراز نے جاتے جاتے حب ڈیم کے معائنے کی نیت کرلی، یوں اُن کے ہیلی کاپٹر کا رابطہ منقطع ہوا اور یہ ہیلی کاپٹر لسبیلہ کے علاقے وندر اور حب کے درمیان حادثے کا شکار ہوا۔ پیش ازیں دیر تک کچھ پتا نہ لگ سکا۔ اسی دوران پا ک فوج کا فضائی آپریشن شروع ہوا۔ زمینی راستے اول تو دشوار گزار ہیں، ساتھ ہی بارشوں کی وجہ سے مزید استعمال کے قابل نہ تھے۔ فرنٹیئر کور، کوسٹ گارڈ، ضلع کی پولیس اور لیویز فورس نے جو مقامی افراد پر مشتمل تھی، شام ہی کو تلاش کا کام شروع کردیا۔ جنرل سرفراز علی کے ساتھ ڈی جی کوسٹ گارڈ میجر جنرل حنیف ستی، کمانڈر انجینئر 12کور بریگیڈ محمد خالد، پائیلٹ میجر سعید احمد، معاون پائیلٹ میجر محمد طلحہ منان اور کریو چیف نائیک مدثرفیاض بھی صوبے میں آفات کے دوران متاثرین کی امداد اور داد رسی کے فریضے کے دوران خالقِ حقیقی سے جاملے۔ ملبہ اگلے روز 2 اگست کو لسبیلہ کے علاقے وندر میں گوٹھ موسیٰ بندیجہ کے مقام پر ملا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق حادثہ موسم کی خرابی کی وجہ سے پیش آیا۔ یہ نقصان بہت بڑا ہے جس کی تلافی قطعی ناممکن ہے۔
اس رنجیدہ خبر کے بعد مون سون کی بارشوں کی ہولناکی اور دوسری تفصیلات یہاں بیان کرتے ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان کا وسیع خطہ متاثر ہوا، جانی و مالی نقصانات ہوئے۔ ابھی ان بارشوں اور نتیجے میں آنے والے سیلابوں سے دوچار عوام سنبھلے نہیں تھے کہ 2جولائی سے شروع ہونے والی مسلسل بارشوں، دوسرے اور تیسرے شدید اسپیل نے صوبے کے34اضلاع میں سے26کو تہہ و بالا کردیا۔ ان میں بعض اضلاع جیسے لسبیلہ، جھل مگسی، قلعہ سیف اللہ، نوشکی، کچھی، پنجگور، قلات، پشین، ژوب بشمول میٹرو پولیٹن کارپوریشن شدید متاثر ہوئے۔ جھل مگسی اور لسبیلہ پانی میں ڈوب گئے۔ درماندہ بلوچستان کا انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیا۔ کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والی قومی شاہراہ این 25 نو مقامات پر پل اور سڑکیں ٹوٹنے کے باعث ایک ہفتے تک بند رہی اور دونوں صوبوں کا زمینی رابطہ منقطع ہوگیا۔ صوبے میں سات سو کلومیٹر کے قریب سڑکیں بہہ گئیں،16پل ٹوٹ گئے، متعدد ڈیم اور حفاظتی پشتے پانی میں بہہ گئے۔ کوئٹہ کے مضافات میں کیچ کے مقام پر بنایاگیا ڈیم آخرکار پانی کا بہائو برداشت نہ کرسکا اور ٹوٹ گیا۔ نتیجتاً نواں کلی، سرہ غڑگئی اور چشمہ اچوزئی کے علاقے زیرآب آگئے۔ کئی مکانات منہدم ہوئے۔ قیمتی اشیاء پانی کی نذر ہوگئیں۔ سیلابی ریلوں نے ضلع چاغی اور نوشکی میں ریلوے ٹریک کو اکھاڑ دیا۔ پاکستان اور ایران کو ملانے والے اس ٹریک کے سو سے ڈیڑھ سو کلومیٹر حصے اور ایک بڑے پل کو نقصان پہنچا ہے۔ کئی مقامات پر پانی ریلوے لائن کے پختہ پشتوں، پلوں، بنکرز اور ریلوے لائن کو بہا لے گیا ہے۔ دوبارہ بحالی میں ایک ماہ سے زائد کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ بارشوں کے باعث کوئٹہ چمن سیکشن، جیکب آباد سبی سیکشن اور سبی ہرنائی سیکشن کو بھی مختلف مقامات پر نقصان پہنچا ہے۔ صوبے بھر میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ وسیع رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے تمام یعنی 34 اضلاع میں کھڑی فصلوں اور باغات کو نقصان پہنچا ہے۔ ایک لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی رقبہ شدید متاثر ہوا ہے۔ یہ ابتدائی تخمینہ ہے جو 19 جولائی کو ظاہر کیا گیا ہے۔ جبکہ بعد کی بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ 23ہزار سے زائد مال مویشی ہلاک ہوئے۔ بلوچستان میں زراعت کے بعد گلہ بانی اہم ذریعہ معاش ہے۔14 ہزار کے قریب مکانات تباہ ہوئے ہیں۔
ظاہر ہے کہ ان نقصانات اور تباہی سے نبرد آزما ہونا صوبے کی حکومت اور اس کی سرکاری مشینری کے لیے ممکن نہیں۔ وفاق اور دوسرے صوبوں اور عوام کی مدد آنا ضروری ہے۔ ملک کے عوام رفاہی تنظیموں کے ذریعے بحالی کے عمل میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔ ان بارشوں نے صوبے کی حکومتوں اور سرکاری محکموں کی اہلیت و دیانت کا چہرہ نمایاں کردیا ہے۔ آفات سے کرہ ارض کا کوئی بھی گوشہ محفوظ نہیں، مگر بلوچستان کے اندر خصوصاً پانی ذخیرہ کرنے کے ڈیم، حفاظتی پشتے اور پل ناقص تعمیرات اور تکنیکی خامیوں کی بنا پر پانی کا بہائو برداشت نہیں کرسکے۔ کوئٹہ کے کچ ڈیم سے متعلق پہلے ہی محکمہ پی اینڈ ای نے تیکنیکی کمزوریوں کی نشاندہی کی تھی، مگر کسی نے توجہ نہ دی۔ چناں چہ اب بحالی کے آپریشن پر اخلاص کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ صوبائی حکومت کے وزراء، اسی طرح دوسرے اراکین اسمبلی اپنے اضلاع تک میں نہیں دیکھے گئے۔ ارکان کی غالب تعداد واجبی طور پر دکھائی دی۔ جام کمال خان فریضۂ حج کی ادائی کے بعد اپنے علاقے لسبیلہ میں دورے پر ہیں۔ وزیراعظم پاکستان میاں شہبازشریف نے 30 جولائی کو جھل مگسی کا دورہ کیا، بعد ازاں یکم اگست کو ضلع قلعہ سیف اللہ اور چمن گئے۔ کوئٹہ ایئرپورٹ پر بھی وزیراعظم کو بریفنگ دی گئی۔ صوبے کی حکومت نے بھی امداد کا اعلان کر رکھا ہے، جبکہ وزیراعظم شہبازشریف نے جاں بحق افراد کے ورثا کو دس لاکھ، تباہ شدہ گھر کی تعمیر کے لیے پانچ لاکھ، اور کم نقصان پہنچنے والے گھروں کے لیے دو لاکھ روپے کا اعلان کیاہے۔ ضرورت ہے کہ وفاقی حکومت بحالی کی مد میں فنڈز پر خود نگاہ رکھے، تاکہ اس کا مصرف ٹھیک ٹھیک ہو۔کیونکہ اس کی امید صوبے میں بیٹھے لوگوں سے نہیں کی جاسکتی۔ وزراء شاہی انتظار ہی میں ہے کہ وفاق سے بھاری فنڈ آئے تاکہ سیلاب متاثرین کے نام پر اپنی جیبیں بھریں۔
دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ اپنی نااہلی چھپانے کے لیے غیر ضروری اور سطحی اقدامات کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر وزیراعلیٰ نے قلعہ سیف اللہ کے ڈپٹی کمشنر کو اس لیے معطل کیا ہے کہ وہاں متاثرین نے وزیراعظم کے دورے کے موقع پر کھانا اور راشن بروقت نہ ملنے کی شکایت کی، حالاں کہ وزیراعلیٰ کا اپنا ضلع آواران بھی متاثر ہوا ہے، وہ خود وہاں نہیں جاسکے ہیں۔ حکومت کی خاتون ترجمان اسلام آباد میں بیٹھ کر پریس کانفرنس کرتی ہیں۔ لازم ہے کہ اعلیٰ سطح پر تحقیقاتی عمل کا آغاز کیا جائے اور اُن وزراء، اراکین اسمبلی، ٹھیکیداروں اور متعلقہ محکموں کے مجاز افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے جن کی بدعنوانی نے عوام کو تباہی سے دوچار کیا۔ بڑے ڈیم کے ٹوٹنے سے بڑی تعداد میں بارانی و سیلابی پانی ضائع ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ تعمیرات درکار معیار کے مطابق نہیں ہوئی تھیں۔