چشمے کے قطروں سے سبق

مشہور امام اور مفسر قفال شاشی ابتدائے عمر میں لوہار کا کام کرتے تھے اور اپنے فن میں نظیر نہ رکھتے تھے۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ انہوں نے ایک فولادی صندوقچہ بنایا۔ اس کا قفل اس طرح بنایا کہ اس کی کنجی دوسرے قفل میں منتقل کردی جس کا وزن نصف قیراط سے زیادہ نہ تھا۔ جب یہ صندوقچہ، اس کا قفل اور کنجی تیار ہوگئے تو وہ ان کو لے کر بادشاہ کی خدمت میں پہنچے اور تحفے کے طور پر پیش کیے۔
بادشاہ اور اس کے درباری اس نادر تحفے پر بہت حیران ہوئے اور تعریف کرنے لگے۔ اتنے میں اس زمانے کا کوئی عالم، بادشاہ سے ملنے آیا۔ اسے دیکھ کر بادشاہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور بڑی تعظیم و تکریم کے ساتھ اسے اپنی جگہ لاکر بٹھایا اور خود ادب سے ایک طرف بیٹھ گیا۔
لوہار نے یہ کیفیت دیکھی تو اپنے دل میں سوچنے لگا کہ ’’اس شخص کی اتنی تعظیم علم کے سبب سے ہے، ایک میں ہوں کہ ساری عمر قفل سازی کے کام میں ضائع کی اور دین اور دنیا کا کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا۔ بہتر یہ ہے کہ اب سے میں بھی شریعت کا علم سیکھنا شروع کروں اور باقی عمر اسی کی تحصیل میں صرف کردوں‘‘۔
یہ سوچ کر وہ دربار سے نکلے اور سیدھے ایک بہت بڑے عالم کی خدمت میں پہنچے۔ اُس وقت ان کی عمر تیس سال تھی۔
جب انہوں نے اس عالم کو اپنا مقصد بتایا تو وہ بہت حیران ہوا، بولا: تیس سال کے بوڑھے توتے ہوکر اب کیا پڑھوگے؟ سینگ کٹاکر بچھڑوں میں شامل ہونے سے کیا حاصل؟‘‘
مگر امام نے ایک نہ سنی اور شریعت کا علم سیکھنے پر اَڑے رہے۔ مجبوراً عالم نے کہا: ’’تم مانتے ہی نہیں ہو تو آئو تمہارا امتحان کرتا ہوں۔ دیکھو ایک فقرہ تمہیں بتاتا ہوں، کل صبح اسے یاد کرکے لانا اور مجھے سنانا۔ دیکھوں تو سہی کہ کیسا یاد کرتے ہو‘‘۔ یہ کہہ کر اس عالم نے امام شافعی کے مذہب کے مطابق یہ فقرہ بتایا:’’قال الشیخ جلد الکلب لاتطہر بالدباغ‘‘۔
امام قفال ایک ستون کے پیچھے جاکر بیٹھ گئے اور اس فقرے کو یاد کرنے لگے۔ ایک ہزار مرتبہ اسے دوہرا کر دوسرے دن حاضر ہوئے۔
عالم نے پوچھا: ’’کل والا سبق یاد ہوگیا ہو تو سنائو‘‘۔
امام قفال نے کہا: ’’قال الکلب جلد الشیخ لاتطہر بالدباغ‘‘۔ شیخ کی جگہ ’’کلب‘‘ اور ’’کلب‘‘ کی جگہ ’’شیخ‘‘ پڑھنے کی وجہ سے دوسرے طلبا ہنسنے لگے۔ استاد نے ان کو منع کیا اور نئے شاگرد کو ایک اور سبق پڑھادیا۔
اس طرح ایک سال گزر گیا، مگر امام قفال جیسے پہلے علم سے کورے تھے ویسے ہی کورے رہے۔
آخر تنگ آکر سیاحت کی ٹھانی۔ وطن سے باہر نکل کر پہاڑ کا رخ کیا۔ دھوپ تیز اور ہوا گرم ہوگئی تو ایک سایہ دار مقام پر پہنچے، جہاں ایک چشمہ پہاڑ کی اونچائی سے نکل کر قطروں کی شکل میں رس رس کر پہاڑ کے دامن میں ایک پتھر پر گررہا تھا، اور ان قطروں کے اثر سے پتھر میں سوراخ ہوگیا تھا۔
اس پتھر پر نظر پڑی تو امام پر بہت اثر ہوا، سوچا کہ ’’علم اس پانی سے زیادہ نرم اور میرا دل اس پتھر سے زیادہ سخت نہیں ہے۔ اگر پانی کے حقیر قطرے اس پتھر پر اتنا اثر کرسکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ میں محنت کروں تو علم میرے سخت دل پر اپنا نقش نہ جماسکے‘‘۔
یہ سوچ کر اسی وقت شہر میں لوٹ آئے اور دل و جان سے پڑھنے میں مشغول ہوگئے۔ پورے تیس سال تک محنت کرکے آخر ساٹھ سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہوئے۔
ان ریاضتوں اور مشقتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ خدا نے ان پر علوم کے دروازے کھول دیئے اور وہ اپنے وقت کے امام مانے گئے۔
کہا جاتا ہے کہ انہوں نے تیس سال کی عمر میں پڑھنا شروع کیا، تیس سال پڑھا، تیس سال پڑھایا اور تیس سال فتوے دینے میں مشغول رہے۔
(’’جوامع الحکایات‘‘ سے انتخاب، بشکریہ: ماہنامہ چشم بیدار۔ اپریل2012ء)

 

مجلس اقبال
عزیز تر ہے متاعِ امیر و سلطاں سے
وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز و براقی

علامہ اقبال اپنے کلام میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں اپنے کلام کی حقیقت اور اہمیت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ اس شعر میں بھی وہ بتارہے ہیں کہ اگر ایسا شعر جس میں جذبوں کو جلا بخشنے اور مشکلات کو حل کرنے کے لیے روشنی اور رہنمائی کا پیغام ہو تو ایسا شعر حقیقت میں بادشاہوں کے خزانوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے، اس لیے کہ اس میں روشنی ہوتی ہے، حرارت ہوتی ہے اور حیات آفرینی کا درس ہوتا ہے۔ علامہ اپنے کلام کے سوزو گداز سے بخوبی آگاہ ہونے کی بنا پر بجا طور پر اپنے مخاطب کو متوجہ کرتے ہیں کہ میرے کلام کے معنی سمجھو اور اس میں بتائی گئی حکمت و دانائی سے فائدہ اٹھا کر اپنے دور کی مشکلات کا مقابلہ کرو۔