ـ5اگست

پانچ اگست 2019ء کے بھارتی اقدام کو تین برس مکمل ہو گئے ہیں، انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودوی نے اس روز غیر قانونی طور پر اپنے زیر قبضہ کشمیر کی اقوام متحدہ سے تسلیم شدہ متنازع حیثیت کو تبدیل کر کے اسے بھارت کا باقاعدہ حصہ بنانے کا اعلان کیا تھا اور بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35 ۔ اے میں ترامیم کر کے مقبوضہ کشمیر کی جداگانہ ریاست کی منفرد حیثیت ختم کر دی تھی یوں جہاں بھارت نے اقوام عالم سے کشمیر میں رائے شماری کرانے کے وعدوں کی تکمیل سے انکار کر دیا جس سے اقوام متحدہ کی کشمیری عوام کے حق خود ارادیت سے متعلق قرار دادیں بے معنی ہو کر رہ گئیں وہیں مقبوضہ کشمیر کے خطے کو بھارتی آئین کے تحت جو خصوصی حیثیت اور تحفظ حاصل تھا کہ کوئی غیر کشمیری باشندہ کشمیر میں جائیداد خریدنے کا حق نہیں رکھتا تھا، وہ بھی ختم ہو گیا اور بھارتی حکومت کو مقبوضہ کشمیر کے متنازع خطے میں بھی دوسری ریاستوں کی طرح سیاہ و سفید کے اختیارات حاصل ہو گئے۔ نریندر مودی نے محض آئینی اور قانونی حیثیت تبدیل کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے فوری بعد مقبوضہ خطے میں مسلمانوں کی واضح اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے مختلف عملی اقدام بھی شروع کر دیئے ہیں۔ ڈومیسائل قوانین میں تبدیلی کر کے کم و بیش پانچ لاکھ ہندوئوں کو کشمیر کے ڈومیسائل جاری کئے جا چکے ہیں، لاکھوں سابق فوجیوں اور آر ایس ایس کے انتہا پسندوں کی بستیاں مقبوضہ ریاست میں قائم کرنے کے منصوبے پر بھی عملی پیش رفت کی جا چکی ہے یہ تمام اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں اور دیگر بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہیں مگر مودی حکومت اس کی پرواہ کئے بغیر پوری ڈھٹائی سے اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنا رہی ہے۔
دوسری جانب فسطائی ہتھکنڈوں پر عمل کرتے ہوئے پوری مقبوضہ وادی کو بھارتی فوج کے حوالے کر دیا گیا اور اس خطے میں اتنی بڑی تعداد میں بھارتی فوجی تعینات کر دیئے گئے ہیں کہ جس کی مثال دنیا بھر میں کہیں اور نہیں ملتی وادی عملاً ایک بڑی جیل کی شکل اختیار کر چکی ہے جس کے باشندے بھارتی فوجیوں کی سنگینوں کے سائے تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ان کے تمام بنیادی انسانی حقوق سلب کئے جا چکے ہیں، آزادی کے متوالے کشمیری نوجوانوں کو گولیوں سے چھلنی کیا جاتا ہے اور جرم بے گناہی میں پکڑ کر عقوبت خانوں میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں انہیں اذیت پہنچانے کے لیے تیسرے درجے کے گھٹیا ہتھکنڈے اختیار کئے جاتے ہیں، مجاہدین کی پناہ گاہ قرار دے کر شہریوں کے گھروں کو نذر آتش کرنا اور ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دینا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ عفت مآب کشمیری مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں پامال کی جاتی ہیں، فوجی محاصرے میں وہاں کے باشندوں کی زندگی اجیرن بن چکی ہے تمام کشمیری قیادت مسلسل قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہی ہے، جرأت و عزیمت اور استقامت کی بے مثال داستانیں رقم کرنے والے قائد حریت سید علی گیلانی اور ان کے جانشین اشرف صحرائی ہر طرح کی اذیتوں اور صعوبتوں کے سامنے عزم و حوصلہ کی چٹان بنے داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے ہیں اور اب یٰسین ملک، بھارتی عدالت سے سزا سنائے جانے کے بعد بھارتی حکومت کے مظالم کے خلاف تقریباً دو ہفتوں سے جیل میں بھوک ہڑتال کئے ہوئے ہیں۔ ان کی حالت نازک ہو چکی ہے مگر ظالم بھارتی حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
بھارتی حکومت اور ظالم فوج کے ظلم و جبر کے تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود کشمیری مسلمانوں نے اول روز سے آج تک ایک لمحے کے لیے بھی بھارت کے تسلط کو قبول نہیں کیا وہ ہر ستم خندہ پیشانی سے برداشت کر رہے ہیں مگر جبر کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہیں۔ ہر سال پاکستان کے یوم آزادی پر چودہ اگست کو جشن آزادی مناتے، پاکستانی پرچم لہراتے اور ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعرے لگاتے سینہ تانے بھارتی فوجیوں کے سامنے سڑکوں پر آ کر ہر قیمت پر آزادی حاصل کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں جب کہ پندرہ اگست کو بھارت کے یوم آزادی پر ’یوم سیاہ‘ مناتے ہیں۔ وہ ہر طرح کے خوف سے بے نیاز ہو کر آج بھی اپنے عظیم مرحوم قائد سید علی گیلانی کی آواز میں آواز ملا کر اعلان کرتے ہیں کہ: ’’ ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے…‘‘ کشمیری قوم نے گزشتہ پون صدی کے دروان ہر طرح کا ظلم برداشت کیا مگر حوصلہ نہیں ہارا۔ کشمیری بھائیوں کے اس عزم اور جذبہ کو جس قدر خراج تحسین اور سلام عقیدت پیش کیا جائے کم ہے سوال مگر یہ ہے کہ پاکستان جس کے بانی محمد علی جناح نے کشمیر کو اس مملکت خداداد کی ’شہ رگ‘ قرار دیا تھا… وہ پاکستان کہاں کھڑا ہے؟… بلاشبہ پاکستان کے عوام اپنے کشمیر بھائیوں کی جدوجہد آزادی میں ان کے شانہ بشانہ ہیں اور دامے، درمے، سخنے ہر ہر طرح سے ان کی جدوجہد میں حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہیں مگر سوال حکمرانوں کا ہے کہ ان کا طرز عمل کیا ہے؟ سابق وزیر اعظم عمران خاں نے پانچ اگست کے بھارتی اقدام کے بعد بلاشبہ ایک نہایت زور دار تقریر اقوام متحدہ میں کی اور بھارتی طرز عمل کے سبب دنیا کو ایٹمی جنگ کے خطرے تک کا انتباہ کر دیا چند مزید اقدامات کا اعلان بھی انہوں نے کیا خود کو کشمیری مسلمانوں کا وکیل قرار دیا مگر پھر سب کچھ بھول کر مطمئن ہو کر بیٹھ گئے۔ جہاں تک موجودہ حکمرانوں کا تعلق ہے ان کی بے حسی کا تو یہ عالم ہے کہ جب سے اقتدار سنبھالا ہے ’’کشمیر‘‘ کا نام تک زبان پر نہیں آنے دیا کہ کہیں بیرونی آقا خفا نہ ہو جائیں…!!!
(حامد ریاض ڈوگر)