پاکستانی معیشت کی صورت حال (کتاب ششم)

ارمغانِ خورشید کے نام سے جو سلسلۂ کتب آئی پی ایس پریس سے شائع ہورہا ہے ’’پاکستانی معیشت کی صورتِ حال‘‘ اس کی چھٹی کتاب ہے۔ جناب خالد رحمٰن چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد تحریر فرماتے ہیں:
’’پاکستان کی معیشت پر نگاہ ڈالی جائے تو اس کی ابتدا بہت کمزور تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اساسی ڈھانچے میں بہت سی بہتری آئی اور دوسری جانب ایک طویل عرصے تک پاکستان کی گروتھ کا مجموعی اوسط بھی مناسب یعنی 5 فیصد سالانہ رہا۔ تاہم بعد کے سالوں میں بہتری کا یہ عمل مسلسل اتار چڑھائو کا شکار رہا اور ظاہر ہے کہ آج کی دنیا میں معیشت کا دبائو محض معیشت تک محدود نہیں رہتا بلکہ سیاسی و سماجی دائروں میں بھی اس کے اثرات واضح طور پر محسوس کیے جاتے ہیں۔ زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ مجموعی صورتِ حال بہتری کے بجائے مسلسل ابتری کی جانب جارہی ہے، لیکن حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود بنیادی مسائل جوں کے توں محسوس ہوتے ہیں۔
پروفیسر خورشید احمد نے سینیٹ آف پاکستان کے رکن کی حیثیت سے کم و بیش 21 سال خدمات انجام دی ہیں۔ اپنے وسیع مطالعے اور تجربے کی بنیاد پر وہ دستور، قانون، مذاہبِ عالم، تعلیم، سماجیات، سیاسیات سمیت زندگی کے بہت سے اہم دائروں میں اعلیٰ علمی و عملی استعداد کے حامل ہیں، اور اسی لیے سینیٹ کے رکن کی حیثیت سے انہوں نے ان میں سے ہر ہر میدان میں قومی رہنمائی کا فریضہ انجام دیاہے۔ معاشیات ان کا خصوصی میدان ہے، چنانچہ ملک کی دگرگوں معاشی صورتِ حال، نظام کی خرابیاں اور اصلاحِ احوال کے لیے تجاویز سینیٹ میں ان کی گفتگوئوں اور تقاریر کا مسلسل عنوان رہا ہے۔ زیر نظر کتاب پروفیسر صاحب کی ان ہی میں سے کچھ منتخب تقاریر پر مشتمل ہے۔ ان میں سے چند تقاریر 1990ء کے عشرے سے متعلق ہیں، لیکن زیادہ تر وہ ہیں جو 2000ء کے عشرے میں سینیٹ میں کی گئی ہیں۔
سینیٹ کی کارروائی سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ یہاں گفتگو کے اپنے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں۔ کسی مسئلے پر بحث کرانی مقصود ہو تو اسے تحریک پیش کرکے متعارف کرانا ہوتا ہے، اور اگر وہ مسئلہ بحث کے لیے منظور ہوجائے تو اس پر مفصل گفتگو کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس کتاب میں دونوں ہی طرح کی تقاریر شامل ہیں۔ انتخاب کرتے وقت یہ پہلو سامنے رہا ہے کہ تقریر مختصر ہو یا نسبتاً طویل، اس میں کہی گئی بات کی محض وقتی اہمیت نہ ہو بلکہ وہ آج کے پالیسی مباحث میں بھی اہمیت کی حامل ہو۔
دوسرے کسی بھی موضوع کے مقابلے میں معاشیات کا معاملہ یہ ہے کہ اس پر گفتگو میں اعداد و شمار کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ بیشتر صورتوں میں یہ اعداد و شمار کسی خاص وقت سے متعلق ہوتے ہیں اور یوں سیاق و سباق کا حصہ ہوتے ہیں۔ ایک دل چسپ حقیقت یہ ہے کہ ماضی کے اعداد و شمار کو اب پڑھا جائے تو وہ مذاق معلوم ہونے لگتے ہیں کہ محض چند لاکھ یا چند ملین روپوں کے حوالے سے کسی خاص پالیسی یا حکومتی اقدام کو اس قدر تفصیل سے کیوں زیر بحث لایا جارہا ہے جب کہ اب ان ہی معاملات میں بات اربوں روپے سے بڑھ کر کھربوں روپے تک پہنچنے لگی ہے۔ ایسے میں آج کے سیاق و سباق میں بعض پرانے اعداد و شمار کسی حد تک غیر متعلق اور غیر اہم ہوجاتے ہیں۔ دوسری جانب اعداد و شمار سے بھری تحریر بہت سے قارئین کے لیے بوجھل ہوتی ہے۔
ان پہلوئوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے کوشش کی ہے کہ تجزیہ اور دلائل کو متاثر کیے بغیر اعداد و شمار کو حذف یا کم از کم کردیا جائے، جب کہ ساتھ ہی بعض مقامات پر حاشیہ قائم کرکے تازہ ترین اعداد و شمار کی جانب اشارہ بھی کردیا گیا ہے۔ اس مشق سے اضافی طور پر یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ پاکستانی معیشت کے حوالے سے اعداد و شمار کے حجم میں تو بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں لیکن مسائل کی نوعیت میں بہت کم کوئی فرق پڑا ہے، اور اگر فرق پڑا بھی ہے تو اس کی سمت بالعموم منفی ہے۔ بلاشبہ یہ تشویش کی بات ہے اور اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہے کہ ملکی معیشت میں خرابی ایک دن میں رونما نہیں ہوئی بلکہ آج یہ جس مقام پر ہے اس کی ذمہ داری اُن تمام افراد اور حکومتوں پر عائد ہوتی ہے جو مختلف ادوار میں فیصلہ سازی کرتے رہے ہیں۔
موجودہ ابتر صورتِ حال کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں اقتصادی منصوبہ بندی کی اپروچ اور پالیسی سازی میں بنیادی اور بہت گہرے نقائص موجود ہیں، اور اسی لیے ضرورت ہے کہ اصلاحِ احوال کے لیے ان تجاویز کو بار بار دہرایا جائے جو پروفیسر خورشید احمد تسلسل کے ساتھ سینیٹ کے ایوان کے ذریعے پالیسی سازوں کے سامنے پیش کرتے رہے ہیں۔
یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ پروفیسر خورشید احمد کی یہاں پیش کی گئی تقاریر کسی خاص وقت میں حکومتی پالیسی اور اقدامات پر تبصرہ ہے۔ اگرچہ ان مواقع پر بھی انہوں نے معیشت کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر کو وقتاً فوقتاً بیان کیا ہے، تاہم اصلاً یہ گفتگوئیں اسلامی نظام معیشت پر نہیں ہیں۔ یہ موضوع اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے اور اس پر پروفیسر خورشید احمد نے دیگر بہت سے مواقع پر بہت تفصیل سے اظہارِ خیال کیا ہے جو شائع بھی ہوچکا ہے۔
اسی طرح یہ بات دہرا لینا بھی مناسب ہے کہ کتاب میں شامل تمام ابواب میں ایک منقطی ربط کے باوجود ان میں سے ہر باب اپنی جگہ ایک یا ایک سے زائد تقاریر پرمبنی ہے، اور یوں اپنے سیاق و سباق کی روشنی میں وہ خود ایک مکمل مضمون کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ کتاب کا عنوان پیش نظر رکھا جائے تو اس عنوان کی روشنی میں کتاب کے ہر باب میں مسائل اور اسباب کے ساتھ ساتھ لائحہ عمل کی بھی نشان دہی ہوئی ہے۔
کتاب کا پہلا حصہ ان بڑے عنوانات سے متعلق ہے جو مجموعی معاشی حکمتِ عملی اور معاشی منصوبہ بندی اور پالیسیوںکی تشکیل میں کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے مقابلے میں دوسرا حصہ مختلف سالوں میں پیش ہونے والے سالانہ بجٹ کے پس منظر میں تبصرے اور تجاویز پر مشتمل ہے۔ ان میں وہ تجاویز بھی علیحدہ سے شامل ہیں جو پروفیسر خورشید احمد نے مجموعی طور پر سینیٹ یا اس کی کمیٹی کے نمائندے کے طور پر پیش کی ہیں۔ کتاب کا تیسرا حصہ بعض متفرق لیکن اہم موضوعات پر انفرادی عنوانات کے تحت بحث پرمبنی ہے۔
پروفیسر خورشید احمد کی سینیٹ کی منتخب تقاریر اور تحریروں پر مبنی سیریز کی یہ چھٹی کتاب ہے اور کسی بھی دوسری کتاب کی طرح اپنے متعین موضوع کے ساتھ ساتھ یہ پاکستان کی سیاسی و معاشی تاریخ اور آج کے پاکستان پر اس کے اثرات کو بیان کرتی ہے۔ اس اعتبار سے یہ پالیسی سازوں کے لیے ایک آئینہ ہے اور دوسری جانب آنے والی نسلوں اور قومی امور میں دل چسپی رکھنے والوں کے لیے تعلیم اور تربیت کا بہت غیر معمولی لوازمہ ہے۔
کتاب کے مضامین تین حصوں میں منقسم ہیں۔ حصہ اوّل کے مضامین درج ذیل ہیں:
٭ پاکستانی معیشت پر عالمی مالیاتی اداروں کی حکمت عملی کے اثرات (1)
٭ پاکستانی معیشت پر عالمی اداروں کی حکمت عملی کے اثرات (2)
٭ معاشی صورتِ حال اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بوجھ
٭ پاکستانی معیشت کے مسائل اور ٹیکسوں کا نظام
٭ معیشت کی صورتِ حال اور حکومتی دعوے ]پالیسیوں کی تشکیل میں درست حقائق کی اہمیت[
٭ قومی بجٹ اور ملکی معاشی پالیسیاں: صورتِ حال اور تجاویز
٭ قومی بجٹ میں دفاعی اخراجات کی تفصیلات اور پارلیمنٹ کا کردار
حصہ دوم
٭ قومی بجٹ (2004-05ء): تبصرہ و تجاویز
٭ قومی بجٹ (2006-07ء): تبصرہ و تجاویز
٭ قومی بجٹ (2008-09ء): تبصرہ و تجاویز
٭ قومی بجٹ (2009-10ء): تبصرہ و تجاویز
٭ قومی بجٹ (2010-11): تبصرہ و تجاویز
حصہ سوم
٭ قیمتوں میں اضافے کا رجحان: اسباب اور لائحہ عمل
٭ تیل کی قیمتیں اور فراہمی کے مسائل
٭ بجلی کی پیداوار، قیمتوں کا تعین اور تقسیم کا نظام
٭ زراعت و خوراک کے مسائل
٭ ادویہ کی قیمت، قلت اور معیار
٭ ٹرانسپورٹ، مائیگریشن اور ہائوسنگ پالیسی
٭ اشاریہ