صحت اور فاسٹ فوڈ کا بڑھتا رحجان

ایک دنیا ہے کہ محض زبان کے چٹخارے کی بنیاد پر جی رہی ہے

 

دنیا بھر میں اس وقت جو شعبے غیر معمولی تیزی سے فروغ پذیر ہیں اُن میں کھانے پینے کا شعبہ بھی شامل ہے اور نمایاں ہے۔ اِس میں بھی بالخصوص فاسٹ فوڈ کا شعبہ زیادہ تیزی سے پنپ رہا ہے۔ کھانا انسان کی بنیادی اور یومیہ ضرورت ہے۔ ہر دور میں کھانے پینے کے شعبے سے وابستہ افراد نے بھرپور محنت کا بھرپور پھل پایا ہے۔ پوری دنیا میں جتنے بھی لوگ ہیں اُنہیں روزانہ کم از کم دو وقت تو کھانا درکار ہوتا ہی ہے۔ سب کو اعلیٰ معیار کا کھانا نصیب نہیں ہوپاتا۔ اگر ہم یہ سوچ لیں کہ دنیا بھر میں محض 20 فیصد افراد ہی ڈھنگ سے کچھ اچھا کھا پاتے ہیں تب بھی کھانے پینے کے شعبے کی ترقی لازم ٹھیری۔

وہ زمانے ہوا ہوئے جب انسان پیٹ بھرنے کے لیے کھاتا تھا۔ آج کا انسان پیٹ بھرنے سے پہلے چٹخارا دیکھتا ہے۔ زبان کو جو کچھ اچھا لگتا ہے وہی کھانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ کوئی کتنا ہی سمجھائے کہ کسی چیز کو کھانے سے صحت اچھی رہتی ہے، تب بھی اگر وہ چیز زبان کو نہ بھائے تو پیٹ تک نہیں جانے دی جاتی۔ ایک دنیا ہے کہ محض زبان کے چٹخارے کی بنیاد پر جی رہی ہے۔ دنیا بھر میں کھانے پینے کے شعبے سے وابستہ اداروں اور شخصیات نے پیٹ کی ضرورت کو پیچھے ہٹاکر صرف چٹخارے کو اہمیت دینے کی ذہنیت پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ آج دنیا بھر میں لوگ صحت کو دوسرے نمبر پر رکھتے ہیں اور ذائقے کو اوّلین ترجیح دی جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ دنیا بھر میں فاسٹ فوڈ کو بہت تیزی سے مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ تین چار عشروں کے دوران فاسٹ فوڈ نے روایتی کھانوں کی جگہ لے لی ہے۔ فاسٹ فوڈ کی مقبولیت اصلاً اس لیے زیادہ ہے کہ ان اشیاء کا ذائقہ زبان کو بہت پسند آتا ہے۔ طرح طرح کے مسالوں، چٹنیوں اور دیگر لوازم کے ساتھ تیار کیے جانے والے فاسٹ فوڈ آئٹم دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ جن ممالک میں کبھی پھیکے، اُبلے ہوئے اور کم تیل والے کھانے کھائے جاتے تھے وہاں بھی اب لوگ ڈیپ فرائی اور مسالے دار اشیاء کھانے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ انگلینڈ میں گورے بھی تِکّے، بریانی، نہاری اور پائے وغیرہ بہت شوق سے کھانے لگے ہیں۔ یہی حال امریکہ کا بھی ہے۔ دوسری طرف ایشیائی ممالک میں مغربی دنیا کی معروف ترین ڈشیں شوق سے کھائی جارہی ہیں، جبکہ یہ ڈشیں اِس خطے کے مزاج سے ذرا بھی میل نہیں کھاتیں۔

پاکستان، بھارت اور بنگلا دیش میں آج کل کھانے پینے کے حوالے سے ’’کسٹمائزیشن‘‘ کا زمانہ چل رہا ہے۔ دوسرے ممالک، بلکہ خطوں کی بہت سی چیزیں اپنائی جارہی ہیں، تاہم اُنہیں مقامی ٹچ بھی دیا جارہا ہے۔ کوشش یہ ہے کہ کسی بھی کانٹی نینٹل ڈش کو مقامی رنگ ڈھنگ کے ساتھ پیش کیا جائے تاکہ مزا بھی دوبالا ہو اور اپنائیت بھی برقرار رہے۔ ہمارے ہاں پیزا غیر معمولی مقبولیت سے ہم کنار ہوا ہے۔ یہ بنیادی طور پر اطالوی آئٹم ہے مگر ہم نے اِسے اس طور اپنایا ہے کہ اٹلی سمیت یورپ اور امریکہ کے لوگ بھی دیکھیں تو دنگ رہ جائیں۔ پیزا پر مقامی مسالے اور ٹاپنگز سجاکر پیش کیجیے تو وہ کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے۔ مزا بھی دوبالا ہوجاتا ہے اور دکھائی بھی کچھ اور دیتا ہے۔ اِسے کہتے ہیں کسٹمائزیشن۔

آج کل ہمارے ہاں مغربی انداز کا جو سینڈوچ کھایا جاتا ہے وہ اپنے رنگ ڈھنگ کے اعتبار سے مغربی رہا نہیں۔ اِس میں ہم نے اتنا کچھ ڈال دیا ہے کہ سارا ذائقہ مقامی ہوگیا ہے۔ مایونیز اور پنیر تو ڈلتا ہی ہے، ہمارے ہاں سینڈوچ میں اور بھی بہت کچھ ڈالا جاتا ہے، اور اس کے نتیجے میں نام تو مغربی رہتا ہے مگر ذائقہ مشرقی ہوجاتا ہے۔ اب معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ بہت سے مغربی فاسٹ فوڈ آئٹمز کی فرنچائز بھی مقامی ضرورت کے مطابق بہت سی تبدیلیوں کو یقینی بنانے پر مجبور ہیں۔

مغربی دنیا میں” ویجیٹیبل برگر“ نام کی کوئی ورائٹی نہیں، مگر بھارت جیسے ممالک میں یہ ورائٹی متعارف کرانا پڑی ہے۔ امریکہ میں اگر ویج برگر کھانا ہو تو آرڈر دیتے وقت کہنا پڑتا ہے کہ برگر میں گوشت کے بجائے آلو کی ٹکیہ رکھی جائے۔ پیزا میں بھی ویج پیزا جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی، مگر جہاں لوگ گوشت نہ کھاتے ہوں یا گوشت کھانے سے گریز کرتے ہوں وہاں ویج پیزا متعارف کرانا پڑتا ہے۔ ویج پیزا میں صرف پنیر پھیلاکر کام چلایا جاتا ہے۔ اگر مغربی دنیا میں کوئی طے کرے کہ جہاں ویج پیزا نہ بنتا ہو اُس آؤٹ لیٹ سے کچھ لینا ہی نہیں تو پھر بھوکا ہی رہنا پڑے گا۔ خالص ویجیٹیرین ڈشیں تو اب بھارتی ریسٹورنٹس میں بھی خال خال دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان میں نان ویج عام ہے یعنی لوگ ہر چیز میں گوشت کھانا پسند کرتے ہیں، جبکہ بھارت اور نیپال میں ویج ورائٹی غیر معمولی ہے۔

جنوبی ایشیا کے بہت سے ریسٹورنٹس میں سبزی کی کئی ڈشیں ملتی ہیں۔ یہ بھی خانساماں کا فنڈا ہے یعنی اُس کی فنی صلاحیت ہے کہ چند سبزیوں کو ایسے متنوع انداز سے پیش کرتا ہے کہ لوگ کھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اب اصل چیز سے زیادہ اُس کی ورائٹی فروخت ہوتی ہے۔ کسی بھی چیز کو نئے اور انوکھے انداز سے پیش کرنے کی صورت میں فروخت بڑھ جاتی ہے۔ ہمارے ہاں سبزی کے نام پر بہت سی ایسی ڈشیں بھی پیش کی جاتی ہیں جو متعلقہ کلچر میں عام نہیں۔ ہاں، سڑک چھاپ ہوٹلوں میں تھوڑی بہت ورائٹی ضرور ملتی ہے مگر وہ خاصی خام شکل میں ہوتی ہے۔ سموسے ہی کی مثال لیجیے۔ اِسے اتنے طریقوں سے تیار کیا جاتا ہے کہ لوگ دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ بعض علاقوں میں آلو اور قیمے کے سموسوں کے ساتھ ساتھ میٹھے سموسے بھی ملتے ہیں۔ بہت سے علاقوں میں محض دال کے سموسے بھی زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔ بہت سے شہروں میں چند ایک آئٹمز کو تھوڑے مختلف انداز سے تیار کرکے اور مسالوں میں کچھ تبدیلی لاکر نئی چیز پیش کی جاتی ہے اور وہ اُس شہر کی پہچان بن جاتی ہے۔

اشیائے خور و نوش میں تنوع پیدا کرنے کے حوالے سے بھارتی ریاست گجرات اور راجستھان کا کوئی جواب نہیں۔ ان دونوں ریاستوں میں مختلف آئٹمز کو اتنے طریقوں سے تیار کیا جاتا ہے کہ لوگ دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔ گجرات میں دہی کو تھوڑا سا پانی ڈال کر ململ کے کپڑے میں باندھ کر اُس کا پانی ٹپکنے دیا جاتا ہے۔ دو ڈھائی گھنٹے میں دہی کا سارا پانی نکل جاتا ہے اور جو دہی رہ جاتا ہے اُسے اچھی طرح پھینٹنے پر جو کچھ حاصل ہوتا ہے اُسے ’’شِکھنڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ رنگ ملانے کے بعد دیکھنے میں یہ گاڑیوں کے پہیوں میں لگائے جانے والے گریس جیسا ہوتا ہے اور ذائقہ بہت منفرد ہوتا ہے۔

بہت سے لوگ پڑھائی یا کام کاج کے سلسلے میں دوسرے شہروں میں رہتے ہیں تو وہاں اپنے علاقوں کی چیزیں کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یوں مقامی ڈشوں میں دوسرے علاقوں کی ڈشوں کا ذائقہ شامل کرکے کچھ نیا بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بھارتی ریاستوں گجرات، راجستھان اور مہاراشٹر کی بہت سی ڈشیں محض خطے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ شام کی چائے کے ساتھ کھانے کے لیے گجرات میں جو کچھ پیش کیا جاتا ہے وہ ایک الگ دنیا ہے۔ باریک، موٹی اور بہت موٹی سیو کے علاوہ سموسوں، پھاپھڑوں، پاپڑ، چٹنی، گول گپوں اور دیگر اشیاء کی اچھی خاصی ورائٹی دستیاب ہے۔ ممبئی میں بصد شوق کھائی جانے والی بھیل پوری اب پاکستان سمیت پورے خطے میں ایک مقبول آئٹم ہے۔ گجراتی ڈش پاؤ بھاجی بھی اب خطے میں مقبولیت حاصل کررہی ہے۔ ڈبل روٹی کے ٹکڑوں کے درمیان سبزی رکھ کر تیار کی جانے والی اس سینڈوچ نما ڈش میں اب پنیر اور کیچپ وغیرہ ڈال کر اِسے زیادہ جاندار اور مزیدار بنایا گیا ہے۔ ہر بات پوچھی جاتی ہے: پنیر کے ساتھ یا پنیر کے بغیر؟ تیل والا یا بغیر تیل والا؟ حد یہ ہے کہ روٹی اور نان کے بارے میں بھی پوچھا جاتا ہے کہ مکھن والا یا بغیر مکھن کا؟ آپ چاہے کوئی سا بھی سینڈوچ کھائیں، متبادل یا نعم البدل حاصل ہے۔ اب ’’ڈبل چیز‘‘ کی کیٹگری بھی آچکی ہے۔

اب دنیا بھر میں گوشت خوری کا رجحان تبدیل ہورہا ہے، کمزور پڑ رہا ہے۔ لوگ بیف سے پرہیز کی راہ پر گامزن ہیں۔ مٹن کھانے والے بھی کم ہیں۔ ہاں، چکن کے شوقین بڑھتے جارہے ہیں۔ اِس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ چکن تیزی سے ہضم ہوجانے والا گوشت ہے اور اِسے پکانے میں بھی زیادہ وقت نہیں لگتا۔ ڈیری پروڈکٹس سے دوری اختیار کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ گوشت خور افراد کے لیے گوشت چھوڑنا سگریٹ یا پان کی لَت چھوڑنے سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ جو لوگ گوشت چھوڑنا چاہتے ہیں مگر ایسی چیزیں کھانے کے خواہش مند ہیں جنہیں کھانے سے محسوس ہو کہ گوشت کھایا ہے اُن کے لیے مارکیٹ میں ایسے فاسٹ فوڈ آئٹم دستیاب ہیں جن میں شامل اشیاء گوشت کا مزا بھی دیتی ہیں اور طاقت بھی۔ گاجر، آلو، مٹر اور چند دوسری اشیاء کو اس طور پکایا جاتا ہے کہ اُن کے کھانے سے گوشت جیسی لذت محسوس ہوتی ہے۔ اِسے ’’پلانٹ میٹ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اب اس نوعیت کی اشیاء کھانا بھی فیشن کے درجے میں ہے۔ باورچیوں کی فنکاری یہ ہے کہ بعض سبزیوں کو جڑ سمیت اِس انداز سے پکاتے ہیں کہ جب ڈش تیار ہوتی ہے تو چباتے وقت محسوس ہوتا ہے کہ بیف، مٹن یا چکن کا قیمہ چبا رہے ہیں۔

2009ء میں امریکی شہر لاس اینجلس میں متبادل توانائی کے ماہر ایتھان براؤن نے گوشت کے متبادل کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور پھر ماہرین کی ایک ٹیم کو ایسی سبزیاں اُگانے کی ذمہ داری سونپی جو لذت اور غذائیت میں بیف یا چکن کی نعم البدل ہوں۔ تین سال کی تحقیق کے بعد ایتھان براؤن نے ’’بیونڈ میٹ‘‘ کے نام سے ایک کمپنی قائم کی جو گوشت کے متبادل کے طور پر سبزیوں کی ڈشیں پیش کرنے لگی۔ امریکہ میں ماہرین نے گوشت خوری کے نقصانات پوری تفصیل کے ساتھ بیان کرکے فضا پہلے ہی تیار کردی تھی۔ موٹاپا ایک بڑا مسئلہ تھا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ موٹاپا محض اس لیے ہے کہ لوگ گوشت بہت کھارہے ہیں اور اُس کی مناسبت سے چلتے پھرتے ہیں نہ ورزش ہی کرتے ہیں۔

سبزی کھانے پر مائل ہونا اچھی بات ہے، کیونکہ جسم کو ہر طرح کی خوراک درکار ہوتی ہے۔ صرف گوشت کھاتے رہنے سے جسم یک طرفہ ہوجاتا ہے، یعنی گوشت کی زیادتی نقصان سے دوچار کرتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ لوگ بہت سی ڈشوں کو صحت کا معیار بلند کرنے سے زیادہ محض فیشن یا اسٹیٹس سمبل کے طور پر اپناتے ہیں۔ بہت سی ڈشیں محض اس لیے کھائی جاتی ہیں کہ تصویر کھینچ کر فیس بک یا واٹس اپ پر اسٹیٹس لگایا جاسکے۔ یوں دنیا کو پتا چلتا ہے کہ ہم بھی دنیا بھر کی ڈشیں کھاتے ہیں، یعنی تنگ نظر ہیں نہ بے ذوق!

غیر ملکی فوڈ چینز کے فرنچائز پر دستیاب بہت سے فاسٹ فوڈ آئٹم اب ہماری کمزوری بن چکے ہیں۔ ہم نے دنیا بھر کے پھیکے یا بے ذائقہ پکوان اپنی زندگی میں شامل کرلیے مگر ہماری بیشتر ڈشیں ابھی تک بین الاقوامی سطح پر بھرپور مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے اُنہیں مقبولیت سے ہم کنار کرنے کے لیے خاطر خواہ محنت کی ہی نہیں۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ اگر ہم اپنے روایتی آئٹمز کو جوں کا توں پیش کریں گے تو باہر کی دنیا اُس میں زیادہ دلچسپی نہیں لے گی۔ ہمیں بتانا پڑے گا کہ وہ آئٹم کس چیز سے بنے ہیں اور اُنہیں کھانے سے کس طرح کی لذت حاصل ہوسکتی ہے۔ نام بدلنے سے بھی چیز کی تقدیر بدل جاتی ہے۔ کسی سادہ سی ڈش کو خالص مغربی نام دینے سے لوگ اُس میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم کس حد تک تجسّس پیدا کرسکتے ہیں۔ بھارت کا مشہور آئٹم مسالا ڈھوسا ہمارے ہاں بھی اب بہت کھایا جاتا ہے۔ اِسے امریکہ میں ’’اسمیش پوٹیٹو کریپ‘‘ کے نام سے پیش کیا گیا ہے اور لوگوں نے اس میں دلچسپی لی ہے۔ یہ سب کچھ توے پر کس طور بنایا جاتا ہے اس کے بارے میں بھی لوگوں کو بتایا گیا ہے۔ اب ناشتے میں ان چیزوں کے آرڈر بڑھتے جارہے ہیں۔

کھانے پینے کی اشیاء کے دھندے میں بنیادی اہمیت تصور کی ہے۔ اگر نئے گاہک تلاش کرنے ہیں تو کچھ نیا پیش کرنا پڑے گا۔ اگر پیش کرنے کے لیے کچھ نیا نہیں ہے تو کوئی بات نہیں۔ پرانی چیزوں ہی کو نئے انداز سے پیش کیجیے، بات بن جائے گی۔ یہ سب کچھ نئی سوچ کے ساتھ ہونا چاہیے۔ خالص کاروباری سوچ کے ساتھ کوئی بھی کام کرنے کی صورت میں کامیابی مل کر ہی رہتی ہے۔ یہ سب کچھ ایسا آسان بھی نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ مسابقت بہت زیادہ ہے۔ لوگ کسی بھی چیز کو اُسی وقت پسند کرتے ہیں جب وہ اُن کی زبان کو راضی کر پاتی ہے۔ بہت سے لوگ کسی ہوٹل پر کباب کھانے تو جاتے ہیں مگر درحقیقت وہ کباب سے زیادہ اُس کے ساتھ پیش کی جانے والی چٹنی کے دیوانے ہوتے ہیں۔ بعض ہوٹل محض سلاد پیش کرنے کے انداز کی بنیاد پر پسند کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی ڈش کو کامیابی سے ہم کنار کرنے میں اُس کا چٹخارا کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ جس نے یہ حقیقت سمجھ لی وہ کھانے پینے کے دھندے میں کامیاب ہوا۔

پاکستان میں کھانے پینے کا دھندا عروج پر ہے۔ اس حقیقت سے تو ہم سبھی اچھی طرح واقف ہیں کہ ہم کچھ بھی بہت تیزی سے قبول کرکے کھانا شروع کردیتے ہیں۔ بسا اوقات کسی چیز کو قبول کرنے اور اپنانے کا فیشن سا چل پڑتا ہے۔ شادی کی تقریبات میں اگر کوئی ایک ڈش کامیاب ہوجائے تو پھر ہر تقریب میں آپ کو وہ ڈش لازمی دکھائی دے گی۔ اِسی طور میٹھے میں اگر کوئی آئٹم کامیاب ہوجائے تو لوگ اندھا دھند اپناکر اُس آئٹم کا سارا حُسن اور لذت غارت کردیتے ہیں۔ کھانے پینے کے معاملات میں معیار بھی دیکھنا چاہیے، چٹخارا بھی دیکھا جانا چاہیے، مگر اُسے ہر معاملے سے اوپر نہ رکھا جائے۔ کوئی بھی چیز اصلاً تو پیٹ کے لیے کھائی جاتی ہے۔ اگر پیٹ قبول کرے تو اچھی بات ہے۔ محض زبان کو خوش کرنے کی روش زیادہ قابلِ ستائش نہیں۔ چٹخارے میں گم رہنے والے اپنے معدے پر محض ظلم ڈھاتے ہیں۔