جگر

انسانی جسم کا کیمیکل پروسیسنگ پلانٹ،ایک گھنٹے میں ساٹھ لیٹر خون فلٹر کرتا ہے

ایک زمانہ تھا جب پیغام رسانی کبوتر کے ذریعے ہوتی تھی۔ اب لوگ سہل پسند ہوگئے ہیں اور یہ کام سیل فون نے لے لیا ہے۔ سیل فون پر ہمارے کئی قارئین نے ہیپاٹائٹس (Hepatitis) (سوزشِ جگر) کے حوالے سے سوالات کیے ہیں۔ بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہیپاٹائٹس کے مرض کو جاننے سے پہلے ہم جگر (Liver) کو سمجھ لیں، پھر ہیپاٹائٹس کو سمجھنا آسان ہوگا۔
جگر ہمارے جسم کا ایسا کیمیکل پروسسنگ پلانٹ یا کیمیکل فیکٹری ہے جو ہماری زندگی میں وہ کام کرتا ہے جن کو کرنے کے لیے انسان کو کئی ایکڑ پر پھیلی ہوئی کیمیکل فیکٹری کی ضرورت ہوگی۔
یہ بڑا اہم، قوی اور لچک دار عضو ہے، اس میں مرمت اور اصلاح کی صلاحیت موجود ہے۔ اس کی یہ خوبی ہمیں نئی زندگی عطا کرتی ہے۔ جگر کا بڑا حصہ کاٹ دیا جائے تب بھی یہ معمول کے مطابق کام کرتا رہتا ہے اور کچھ عرصے میں واپس اپنی اصل حالت پر آجاتا ہے۔
جگر کی اہمیت کے پیشِ نظر قدرت نے اس کو ہمارے جسم میں بڑی محفوظ جگہ عطا کی ہے۔ جسم کے دیگر اعضائے رئیسہ دل و دماغ سے جسامت میں یہ بڑا ہے۔ اس کا وزن ڈیڑھ کلو کے برابر ہے اور یہ ہمارے جسم میں دائیں جانب پسلیوں کے نیچے واقع ہے۔ بالائی جانب اس کے دو فصص (Lobelu) نظر آتے ہیں۔ پہلا حصہ پوری طرح دائیں جانب ہوتا ہے، جبکہ دوسرا حصہ بائیں جانب معدے کے اوپر تک آجاتا ہے۔ عورتوں کا جگر قدرے چھوٹا اوپر کی طرف پھیپھڑے سے ملحق ہوتا ہے۔ تندرست شخص کے جگر کو پسلیوں سے نیچے نہیں آنا چاہیے۔ جگر کی درست کارکردگی ہماری صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ ہمیں زندہ رکھنے کے لیے پانچ سو سے زیادہ حیات آفریں خدمات انجام دیتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک بنیادی خدمت بھی اپنا کام بند کردے تو انسان کو اپنی وصیت تیار کرلینی چاہیے۔
جگر کے مختلف کام ہیں۔ یہ اپنے اندر حیاتین کا ذخیرہ کرلیتا ہے۔ اگر آپ ایک دو سال تک حیاتین الف استعمال نہ کریں تب بھی آپ کو اس کی کمی محسوس نہیں ہوگی۔ حیاتین الف کے علاوہ حیاتین ’ب‘، ’د‘ اور ’ک‘ بھی جمع کرلیتا ہے۔ اکثر آپ کے چوٹ لگ جاتی ہے اور خون بہنے لگتا ہے مگر جلد ہی خون جم جاتا ہے، پھر اس جگہ پر کھرنڈ آجاتا ہے، اس طرح خون ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے اور جسم میں داخل ہونے والے کھربوں جراثیم کا راستہ بھی بند ہوجاتا ہے۔ وہ کیمیائی مادہ جو وقتِ ضرورت خون کے اندر جمنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے، خون کے اندر تیار حالت میں موجود نہیں ہوتا، اس کے مختلف اجزاء خون میں الگ الگ تیرتے رہتے ہیں، ان میں سے ایک جز وٹامن ’ک‘ ہر وقت خون میں شامل ہوتا رہتا ہے۔ جگر جسم کو زہریلے اجزاء سے محفوظ رکھتا، خون میں شکر کی سطح متوازن رکھتا اور حیوانی شکر (گلائیکوجن ) تیار کرتا ہے۔ جگر پت یا صفراء پیدا کرنے کے علاوہ کولیسٹرول بھی تیار کرتا ہے، جسم میں موجود غیر ضروری اجزاء کو جسم سے خارج کرتا ہے، انسان کو زندہ رہنے کے لیے ایک ہزار کے قریب اینزائم (Enzymes)جن میں غذا کو ہضم کرنے میں مدد دینے والا اینزائم بھی شامل ہے، پیدا کرتا ہے۔ جگر روزانہ 5 سے 9 لیٹر پت یا صفراء پیدا کرتا ہے۔ یہ کڑوا سبز رنگ کا مادہ ہوتا ہے جو جگر کے نیچے ایک تھیلی (Gallbladder) میں جمع رہتا ہے۔ صفراء غذا ہضم کرنے کے عمل میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے، خاص طور پر ایسے اجزاء جن میں چربی ہوتی ہے۔ صفراء پتے سے نکل کر ایک نالی کے ذریعے چھوٹی آنت میں ٹپکتا ہے، یہ آنتوں کو صاف کرتا ہے، چربی پر کیمیائی عمل کرکے اسے سادہ اجزاء میں تقسیم کردیتا ہے تاکہ وہ بآسانی جذب ہوجائیں۔ یہ آنتوں کی حرکت کو تیز کرکے غذا کو آگے سرکنے میں مدد دیتا ہے۔ یرقان میں ہماری آنتوں میں پت نہیں گرتا جس کی وجہ سے مریض کو قبض ہوجاتا ہے۔ براز کا رنگ سفید ہوجاتا ہے اور صفرا میں سخت بدبو ہوجاتی ہے۔ براز کی موجودگی میں بدبو کافی حد تک ختم ہوجاتی ہے اور آنتوں میں موجود مضرِ صحت بیکٹیریا ہلاک ہوجاتے ہیں۔ جب بچہ ماں کے رحم میں نمو پارہا ہوتا ہے تو جگر اپنا کام شروع کردیتا ہے۔ اس وقت جگر خون کے سرخ خلیات تیار کرتا ہے، لیکن پیدائش کے بعد جگر اپنا یہ کام بند کردیتا ہے۔ پھر اس کا ایک اہم کام خون خارج کرنا ہوتا ہے۔ جگر میں ہر وقت جسم میں موجود کُل خون کا چوتھائی حصہ موجود رہتا ہے۔ جگر ہر منٹ میں ایک لیٹر سے زائد خون فلٹر کرتا ہے۔ گویا ایک گھنٹے میں ساٹھ لیٹر خون فلٹر ہوتا ہے۔ جگر سے آنتوں میں وریدِ بابی(Portal Vein) کے ذریعے غذائی اجزاء مزید ہضم کے عمل سے گزرتے ہوئے جگر میں پہنچتے ہیں۔ جگر کے خلیات خون میں سے غذائی اجزاء کو الگ کرلیتے ہیں اور اس کو مخصوص کیمیائی ہاضمے کے عمل سے گزار کر کچھ مقدار ذخیرہ کرلیتے ہیں اور کچھ مقدار خون میں شامل کردیتے ہیں تاکہ جسم کے تمام حصوں کو غذائی اجزاء مل جائیں۔
جگر خون کے اجزاء کے تناسب کو بھی برقرار رکھتا ہے۔ اس کے لیے یہ تلی کی مدد سے خون کے ناکارہ سرخ خلیات کو جن کی عمر چار ماہ سے زائد ہوچکی ہو، مخصوص عمل کے ذریعے سے توڑ کر اس میں سے ہیمو گلوبن الگ کرلیتا ہے اور اسے بیلی روبِن (Bilirubin) میں تبدیل کرکے اس سے پت یا صفرا تیار کرتا ہے اور باقی غیر ضروری اجزا کو جسم سے خارج کردیتا ہے۔ یہ خون میں شکر کا تناسب برقرار رکھتا ہے۔ جگر شکر اور چربی کو لحمیات یعنی پروٹین میں تبدیل کرتا ہے۔ آنتوں سے جذب ہونے والے گلوکوز کا بڑا حصہ جگر اپنے اندر ذخیرہ کرلیتا ہے اور حسب ضرورت جسم کو توانائی کے لیے دیتا رہتا ہے۔ جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو جسم میں شکر کی سطح زیادہ ہوجاتی ہے، اُس وقت جگر انسولین کی مدد سے گلوکوز کو حیوانی شکر (گلائیکوجن) میں تبدیل کرتا ہے۔ جب خون میں گلوکوز کی مقدار کم ہوجاتی ہے تو جگر حیوانی شکر کو دوبارہ گلوکوز میں تبدیل کرکے خون میں شامل کردیتا ہے۔ جب ہم محنت و مشقت کا کام کرتے ہیں تو کافی بھاری مقدار میں گلوکوزکی مسلسل ضرورت ہوتی ہے، اُس وقت جگر یہ توانائی فراہم کرتا ہے۔ دماغ کو بھی گلوکوز کی مسلسل ضرورت ہوتی ہے، اس کو بھی جگر یہ توانائی فراہم کرتا ہے۔
یرقان:
یرقان ایک عام مرض ہے۔ لیکن یہ مرض نہیں بلکہ مرض کی علامت ہے۔ جس طرح کسی بھی بخار کی متعدد وجوہ ہوتی ہے اسی طرح یرقان کے بھی مختلف اسباب ہوتے ہیں۔گو اِس زمانے میں یرقان کا سب سے عام سبب عفونت و تعفن ہے۔ یرقان میں جلد اور آنکھوں کے سفید حصے اور جسم کی مختلف جھلیوں کا رنگ زرد ہوجاتا ہے۔ اس زردی کی بنیادی وجہ ایک خاص قسم کے کیمیائی مادے بلی روبین(Bilirubin)کی خون میں زیادتی ہے۔
نوزائیدہ بچوں میں بعض خمائر (اینزائم )کی قلت سے یرقان ہوسکتا ہے۔ بڑی عمر کے بعض افراد میں خلقی نقص کی وجہ سے بعض اقسام کے یرقان ہوسکتے ہیں۔ یرقان کی ایک عام وجہ صفرا کے بہائو میں رکاوٹ ہے، جو سنگِ صفرا یا لبلبہ کے سرطان کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ لبلبہ کے سرطان میں صفرا کی نالی دب جاتی ہے، جس کی وجہ سے صفرا خارج نہیں ہوسکتا اور خون میں واپس آکر اپنا اظہار ’یرقان‘ کی شکل میں کرتا ہے۔ لیکن زمانۂ جدید میں خصوصاً غریب تیسری دنیا میں یرقان کی نہایت عام اور اہم وجہ سوزشِ جگر (ہیپاٹائٹس) ہے، جس نے دنیائے صحت میں تباہی و انتشار پیدا کردیا ہے، اور بدنصیبی یہ ہے کہ یہ مرض صرف اس لیے ہوتا ہے کہ ہم حفظانِ صحت کی بنیادی بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ نہیں دیتے۔
اس مرض کے نتیجے میں مریض نہ صرف فوری طور پر مبتلائے الم ہوتا ہے، بلکہ دائمی بیماری کا بھی اسیر ہوجاتا ہے۔ اس مرض کی عالمگیری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی ہر سال تین لاکھ نئے مریضوں کا اضافہ ہورہا ہے۔
متعدی یرقان (ہیپاٹائٹس)
سب سے اہم اور عام طور پر ہونے والا یرقان جگر کے خاص قسم کے خلیوں پر مختلف وائرس کے حملہ آور ہونے سے ہوتا ہے۔ وائرس کی مختلف قسموں کو قسم اے، بی، سی، ڈی اور ای کے نام دئیے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ اور اقسام کے وائرس بھی کبھی کبھار یرقان کا سبب بن سکتے ہیں، لیکن زیادہ تر ان اقسام میں سے ہی کوئی ایک قسم جگر پر حملہ آور ہوتی ہے اور متعدی یرقان پیدا کرنے کا موجب بن سکتی ہے۔
ہیپاٹائٹس(Hepatitis) یونانی زبان کا لفط ہے جس کے معنیٰ جگر کی سوزش یا ورم کے ہیں۔ جب ہم ہیپاٹائٹس کہتے ہیں تو اس کا مطلب وائرل ہیپاٹائٹس ہے جس کی چھ اقسام ہیں۔ غیر وائرل کی بھی اقسام ہیں۔ ہیپاٹائٹس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں بہت سے وائرس بے شمار کیمیائی مادوں، ادویات، بیکٹیریا، انسانی دفاعی نظام کی بیماریاں، موروثی عوامل، اتائی معالجوں کی کارستانیاں وغیرہ شامل ہیں۔
ہیپاٹائٹس وائرس ایک چھوٹا جاندار جرثومہ ہے جو جسم میں داخل ہوکر مختلف اعضاء کو نقصان پہنچاتا ہے اسے ہم سوزشِ جگر (ہیپاٹائٹس) کا وائرس کہتے ہیں۔ اس وائرس کی درج ذیل اقسام ہیں:
(1) ہیپاٹائٹس اے وائرس (HAV)
(2) ہیپاٹائٹس بی وائرس (HBV)
(3) ہیپاٹائٹس سی وائرس (HCV)
(4) ہیپاٹائٹس ڈی وائرس (HDV)
(5)ہیپاٹائٹس ای وائرس (HEV)
(6)ہیپاٹائٹس جی وائرس (HGV)
ہیپاٹائٹس اے: یہ وبائی طور پر یا انفرادی طور پر ورمِ جگر کا سبب بنتا ہے۔ یہ وائرس عموماً بچپن میں حملہ آور ہوتا ہے حفظانِ صحت کے بنیادی اصولوں پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے۔ یہ مریضوں کے فضلے میں خارج ہوتا ہے۔ اگر فضلہ صحیح طریقے سے ٹھکانے نہ لگایا جائے تو یہ پینے کے پانی یا دیگر غذائی اشیاء کے ذریعے انسانوں کے پیٹ میں پہنچ جاتا ہے اور یرقان کا سبب بنتا ہے۔ اس طرح یہ وائرس عموماً ایسے علاقوں میں بآسانی پھیلتا ہے جہاں پانی خصوصاً پینے کے پانی کا نظام ناقص ہو۔ بعض اوقات دودھ اور مچھلی بھی اس وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بنتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس اے کی مدت حضانت تقریباً دو سے چھ ہفتے ہے۔ ہیپاٹائٹس اے سے مرنے والوں کی تعداد کم ہے۔ ہیپاٹائٹس اے کے خلاف اجسام (Anti HAV) بیماری کی ابتدا میں ہی ظاہر ہوجاتے ہیں۔ بیماری کے حملے کے بعد سیرم میں دونوں امونو گموبولیز (IgG IgM) اینٹی ایچ اے وی (Anti HAV)کا پتا چلایا جاسکتا ہے۔ بیماری کے ابتدائی ہفتے میں ہیپاٹائٹس اے وائرس کے خلاف اجسام Anti HAV) (کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے، جو عام طور پر تین سے چھ ہفتے بعد غائب ہوجاتی ہے۔ Anti HAV IgM ہیپاٹائٹس اے کی تشخیص کے لیے بہتر ٹیسٹ ہے۔
ہیپاٹائٹس بی وائرس: مریض کی جسمانی رطوبات، رطوبتِ منویہ، مسہل، تھوک(Saliva) اور خون میں موجود ہوتا ہے۔ انہی جگہوں سے دوسرے تندرست افراد میں داخل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہیپاٹائٹس بی میں مبتلا افراد سے متعلقہ غیر متحرک آلات اور استعمال شدہ سرنج دوبارہ استعمال کرنے سے ہوتا ہے۔ ایسی حاملہ عورتیں جن کا ہیپاٹائٹس بی اینٹی جن مثبت ہو وہ ڈیلیوری کے وقت اپنے بچوں میں بھی یہ مرض منتقل کرسکتی ہیں۔ انتقالِ خون کے وقت بھی اس کا وائرس دوسرے فرد میں منتقل ہوسکتا ہے۔ اگر ایک ہی سوئی سے بار بار انجکشن لگایا جائے… حجام کا استرا، تولیہ اور دیگر اوزار صحیح طریقے سے صاف نہ ہوں… لڑکیوں کے کان اور ناک چھدوانے یا نام کندہ کروانے یا غلقاری کے وقت جراثیم شدہ سوئیاں استعمال کی گئی ہوں… نشہ آور اشیاء بذریعہ انجکشن لیتے وقت… حادثاتی طور پر جلد کا کٹنا، پھٹنا یا جراثیم سے متاثرہ خون کا جلد پر لگنا… جو ہیپاٹائٹس بی کے پرانے مریض ہوں، خاص طور پر جبکہ ہیپاٹائٹس بی ابتدائی زندگی میں لاحق ہوا ہو، ان میں جگر کا چربیلا یا سخت ہوجانا۔ ہیپاٹائٹس بی کی تشخیص کے لیے ہیپاٹائٹس بی سے ملتا ہوا تین واضح اینٹی جن اینٹی باڈی کا نظام موجود ہے اور خون میں گردش کرنے والی کئی علامتیں بھی ہیں جو تشخیص میں مدد دیتی ہیں۔
ہیپاٹائٹس سی: اسے پہلے Non A , Non B وائرس کہا جاتا تھا۔ حال ہی میں اس کو سائنسدانوں نے مکمل طور پر وائرس سی کا نام دیا ہے۔ اس کے پھیلاؤ کے طریقے بھی وہی ہیں جو وائرس بی کے ہیں۔ ہیپاٹائٹس سی کے یرقان کی شدت نسبتاً کم ہوتی ہے لیکن 50 فیصد مریضوں میں دائمی سوزش، اور ان میں سے تقریباً 25 فیصد لوگوں میں جگر کا سکڑاؤ دیکھا گیا ہے، جبکہ کچھ مریض سرطان کا بھی شکار ہوجاتے ہیں، لہٰذا یہ ہیپاٹائٹس بی سے بھی زیادہ مولق ہے اور ہمارے ملک میں بہت عام ہے۔ بیماری کی تشخیص کے لیے خون کے ٹیسٹ CBC، LFT، Anti HCV، Typegeno HCV ، پیٹ کا الٹرا ساؤنڈ کروانا چاہیے۔
ہیپاٹائٹس ڈی: یہ ایک نامکمل وائرس ہے اور بذاتِ خود براہِ راست مریضوں پر حملہ آور نہیں ہوتا۔ تاہم جن لوگوں کو وائرس بی لاحق ہو اُن میں بی وائرس کے ساتھ وائرس ڈی بھی بعض اوقات حملہ آور ہوجاتا ہے۔ یہ صورت حال بہت خطرناک نتائج کی حامل ہوسکتی ہے اور جلد موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اس کی تشخیص Anti HDV کی سیرم میں موجودگی ہوسکتی ہے۔
ہیپاٹائٹس ای: یہ وائرس بھی اے کی طرح پانی کی آلودگی سے پھیلتا ہے۔ اکثر اوقات ترقی پذیر ممالک میں وبائی صورت اختیار کرلیتا ہے، خصوصاً پاکستان میں بالغ افراد میں یہ مرض کا سبب بنتا ہے۔ بیس فیصد حاملہ خواتین اس مرض میں مبتلا ہوکر اﷲ کو پیاری ہوجاتی ہیں۔
ہیپاٹائٹس جی : HGV حال ہی میں دریافت ہونے والا وائرس ہے، جو جِلد کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے اور خون کی سمومیت (Varemine) کا سبب بھی بنتا ہے۔ ہیپاٹائٹس جی 50 فیصد وریدی ادویات استعمال کرنے سے، تیس فیصد گردوں کی صفائی، بیس فیصدHeterophils، اور پندرہ فیصد مزمن ہیپاٹائٹس بی اور ہیپاٹائٹس سی میں دریافت ہوا ہے۔
احتیاطی تدابیر:
ان اقسام کی سوزشِ جگر پھیلنے کے امکانات کم کرنے کے لیے انجکشن لگوانے میں پاک صاف ان چھوئی سوئیاں استعمال کرنا اور انھیں دوبارہ استعمال نہ کرنا، ناک،کان چھدوانے میں بھی پاک صاف سوئیاں استعمال کرنا اور غلط سوئیوں سے کھال نہ گدوانا، علاوہ ازیں ایک دوسرے کے اور مریض کے استرے اور زیر استعمال اشیاء استعمال میں نہ لائیں اور علیحدہ رکھیں، پاک صاف زندگی گزاریں اور ایک دوسرے کی ریزشوں سے خود کو محفوظ رکھیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ خون وغیرہ لینے میں انتہائی احتیاط برتیں۔ ضرورت کے تحت جب خون لیا جائے تو یہ نہایت پاک صاف اور جراثیم سے پاک ہو۔ اطبا اور جراحوں کو چاہیے کہ اشد ضرورت کے وقت خون صاف دیا جائے اور بلا ضرورت خون نہ دیا جائے، کیونکہ خون لینے میں شدید خطرات مضمر ہیں اور بڑا خطرہ اس زمانے میں سوزشِ جگر اور ’’ایڈز‘‘کا ہے۔ پیشہ ور خون دینے والوں کا خون ہرگز نہ لیا جائے، صرف مستند و معتبر محفوظ اداروں یا جاننے والوں سے خون لیا جائے، یا جراحی سے قبل اپنا خون محفوظ کرلیا جائے تاکہ دورانِِ جراحی خون دیا جاسکے۔ خون لینے سے قبل جانچ کے ذریعے یہ اطمینان کرلیا جائے کہ خون وائرس سے پاک ہے۔ وائرس ’’ب‘‘ اور ’’د‘‘کو روکنے کے لیے ویکسین بھی دستیاب ہے، جو بچوں اور بڑوں کو بے خطر دی جا سکتی ہے۔ جگر کے خلیات میں اپنی مرمت کی نہایت اہلیت ہے مگر بعض زہر جگر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ان میں سے بعض اشیاء بے ہوش کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں اور بعض صنعت میں مستعمل ہیں۔ ان سے صنعتی مزدوروں کو ان مقامات پر کام کرنے سے ضرر پہنچ سکتا ہے۔ان کیمیائی اشیاء میں چند درج ذیل ہیں: فاسفورس، کلوروفام، برومائڈ مرکبات، سنکھیا، سرمہ، پکرک ایسڈ، زہریلے مشروم (کھمبی) وغیرہ۔
جگر کو سب سے زیادہ ضرر غذا سے پہنچتا ہے۔ اگر غذا میں لحمیات کی قلت ہو اور ضروری امینو ایسڈ نہ ملیں تو جگر مجروح ہوجاتا ہے، اس کے نتیجے میں کہبت جگر (سروس) کا مرض واقع ہوجاتا ہے۔
شراب نوشی سے بھی جگر کو سخت ضرر پہنچتا ہے اور نتیجتاً جگر سکڑ جاتا ہے۔ شراب نوشی دو طرح سے نقصان پہنچاتی ہے، اول تو شراب کی الکوحل خود ضرر رساں ہے، دوسرے یہ کہ شراب نوشوں میں غذائی قلت بھی ہوجاتی ہے۔ اگر غذا میں مناسب مقدار میں حیاتین نہ ہوں، مثلاًحیاتین ’’ب‘‘مجموعی طور پر نہیں ہوں گے تب بھی جگر کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس حیاتین کی قلت رفع کرنے کے لیے پتوں والی ترکاریاں، اناج، پھلیاں، دالیں، دودھ اور انڈے کھائے جائیں۔
جن افراد میں اشتہا مناسب نہیں ہوتی، مثلاً حاملہ خواتین… اگر ان کی غذائی ضروریات کا مناسب خیال نہ رکھا جائے تو ان کے جگر کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جگر کو پتے (مرارہ) میں سنگریزوں سے بھی ضرر پہنچ جاتا ہے، خصوصاً جب وہ صفرا کے بہائو میں رکاوٹ پیدا کریں۔ جگر کے مریض کا مواد، بول و براز مناسب طریقے سے ٹھکانے لگایا جائے، اس کا سامان علیحدہ رکھا جائے۔ گھر کا ہر فرد خصوصاً گھر کے وہ ملازمین جو باورچی خانے میں کام کرتے ہیں وہ بیت الخلاء سے آکر اچھی طرح صابن سے ہاتھ صاف کریں۔ بچے کھیل کر آنے کے بعد ہاتھ صاف کریں۔ بازار سے خریدے ہوئے پھل صاف پانی سے اچھی طرح دھو لیں۔ آج کل فاسٹ فوڈ کا بہت زیادہ استعمال ہے۔ غیر معیاری اشیاء کھانے میں احتیاط کر یں۔ مرغن اور تلے ہوئے کھانوں کے مقابلے میں سادہ غذا کھائیں۔ جگر کے مریض کو زیتون کے تیل میں پکا ہوا کھانا دیں۔ مولی کے پتوں کا پانی دن میں کئی مرتبہ پلائیں۔ سرکے میں پڑی ہوئی پیاز، کینو، انار، گنے کا رس، میٹھا اور گنڈیریاں چوسیں۔ ابلے ہوئے پانی میں گلوکوز اور عرق گلاب ملا کر پلائیں۔ ڈرپ صرف اس صورت میں لگوائیں جب الٹی اور متلی ہورہی ہو اور منہ سے کوئی دوا لینا ممکن نہ ہو۔