گیارہواں باب
سن 2015 ء میں، مَیں ’موسم‘ پر ایک کانفرنس میں شریک تھا، اور بڑا حیران پریشان تھا کہ آیا کیا ہم واقعی یہ کام کرسکیں گے؟ یہ بہت متاثر کن تھا کہ دنیا بھر سے ماہرین ایک جگہ جمع تھے اور اس ضرورت پر اتفاقِ رائے کررہے تھے کہ ہر قوم اپنے حصے کی کاربن گھٹائے۔ تاہم ایک کے بعد دوسرے پول سے یہ رائے مستحکم ہوئی کہ ’’موسمی تبدیلی‘‘ ایک سیاسی معاملہ ہی سمجھا جارہا ہے۔ مجھے خدشہ ہوا کہ ہم کبھی بھی یہ مشکل کام نہیں کرپائیں گے۔
آج مجھے خوشی ہے کہ عام لوگوں نے موسمی تبدیلی میں توقع سے بڑھ کر دلچسپی لی ہے۔ چند سالوں میں موسمی تبدیلی پر عالمی گفتگو نے مثبت پیش رفت کی ہے، اور یہ مکالمہ سیاسی ارادے پر اثرانداز ہوا ہے۔ دنیا بھر میں ووٹرز امیدواروں سے ماحول دوست پالیسیوں کا تقاضا کررہے ہیں۔ ہمیں اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اہداف کو واضح منصوبہ بندی سے حاصل کیا جائے۔ جیسا کہ میں نے اور پال ایلن نے مائیکروسافٹ کے ابتدائی دنوں میں یہ ہدف ’’ہرگھر کی ایک میز پر ایک کمپیوٹر‘‘ طے کیا تھا، اور پھر اگلے دس سال اس ہدف کے حصول میں صرف کیے تھے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ ہمارا ہدف ’’دیوانے کا خواب‘‘ تھا۔ مگر میرے نزدیک وہ چیلنج ’’موسمی تبدیلی‘‘ کی نسبت کچھ بھی نہ تھا۔ کیونکہ موسمی تبدیلی وہ چیلنج ہے جس سے ساری دنیا کے اداروں اور افراد کی شرکت سے ہی نمٹا جاسکتا ہے۔
گزشتہ باب میں اس ضرورت پر زور دیا گیا کہ حکومتیں ’کاربن گھٹاؤ‘کا ہدف حاصل کرنے کی کوششیں کریں۔ اس باب کا مقصد وہ منصوبہ پیش کرنا ہے جو’’موسمی تباہی‘‘ سے گریز ممکن بناسکے، وہ واضح اقدامات جو حکومتی رہنما اور پالیسی ساز لے سکیں، اور اس سلسلے میں مجھ جیسے افراد انفرادی طور پر ہر ممکن کردار ادا کرسکیں۔
ہمیں کتنی تیزی سے صفر کاربن تک پہنچنا ہے؟ سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ موسمی تباہی سے بچنے کے لیے امیر ملکوں کوکاربن اخراج سن2050ء تک صفر پر لے جانا ہوگا۔ بدقسمتی سے وہ تمام اسباب جن کا میں نے اس کتاب میں ذکر کیا ہے، سن 2030ء تک ہدف حاصل نہیں کرنے دیں گے۔ ایسی امید حقیقت پسندی نہ ہوگی۔ قدرتی ایندھن ہماری زندگی میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے، یہ ممکن نہیں کہ بہت بڑے پیمانے پر ہم ایک دہائی کے اندر اندر اس کا استعمال ترک کرسکیں۔ جو ہم کرسکتے ہیں، جو ہمیں کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ دس سال کے اندر اندر اُن پالیسیوں کو پوری طرح اپنالیں جو ہمیں اُس رستے پر ڈال دیں جو 2050ء تک کاربن کے استعمال کا خاتمہ ممکن بناسکیں۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ ہم ’’صفر کاربن‘‘ تک کا سفر صحیح رستے پر طے کریں، بصورتِ دیگر ہماری منزل مزید دور بھی ہوسکتی ہے۔
ہمارے لیے دو طریقہ کار بہ یک وقت فائدہ مند ہوں گے۔ پہلا: کاربن فری، سستی اور پائیدار بجلی کی مکمل فراہمی، اور دوسرا: جہاں تک ممکن ہو گاڑیوں سے صنعتوں تک ہر چیز کو بجلی سے چلانے کے قابل بنائیں۔ یہاں تک کہ بجلی پیدا کرنے کے وہ ذرائع جو قدرتی ایندھن پر انحصار کرتے ہیں، انہیں بھی بجلی کی توانائی مہیا کریں۔
اگر ہم محض یہ سوچتے رہیں کہ سن 2030ء تک کاربن اخراج گھٹا لیں گے، تو یہ ایک ناکام خیال ہے۔ ایک دہائی میں صفر کاربن کا ہدف حاصل کرنا ممکن نظر نہیں آرہا۔ ہم صرف صاف ستھری بجلی کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کے ساتھ ہی صفر کاربن کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔ جو ملک صفر کاربن تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں، انہیں اس بات پر سراہا جانا چاہیے کہ وہ صحیح رستے پر ہیں۔ اگر ہم ابھی سے شروع کریں، اور غریب ملکوں کے لیے سائنس کی طاقت اور جدت پسندی میں معاون بنیں تو موسمی تباہی کے حل یقینی بناسکیں گے۔
جدت، مانگ اور ترسیل کا قانون
ایک جامع ’’موسمی تبدیلی‘‘ منصوبہ مختلف اسلوب اور طریقہ ہائے کار اختیار کرے گا۔ موسم کی سائنس بتاتی ہے کہ کیونکر ہمیں اس مسئلے سے نمٹنے کی ضرورت ہے، مگر یہ نہیں بتاسکتی کہ یہ کام کیسے کرنا ہے۔ اس کے لیے ہمیں حیاتیات، کیمیا، طبیعات، معاشیات، پولیٹکل سائنس، انجینئرنگ اور دیگر علوم کی ضرورت ہوگی۔ یہ بھی ہر ایک کے لیے ضروری نہیں کہ اس باب میں ہر مضمون سمجھے۔ ہم مائیکرو سافٹ میں ’’موسمی تبدیلی‘‘ کے سلسلے میں مختلف اسلوب اختیار کررہے ہیں جو درست رستے پر ہماری رہنمائی کرسکیں۔ توانائی یا سافٹ وئیر میں یا کسی بھی اور شعبے میں یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ جدت فقط کسی مشین کی ایجاد یا کسی نئی کارگزاری کا نام ہے۔ جدت کاروبار کے نئے نمونوں اور فراہمی کے نئے ذرائع تک رسائی میں بھی ہوسکتی ہے۔ یہ جدت وہ پالیسیاں بھی ہوسکتی ہیں جو ایجادات کو قابلِ عمل بنائے جانے میں مددگار ہوں۔ جدت سے مراد آلات اور نئے طریقے دونوں ہیں۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے اپنے منصوبے کے عناصر دو حصوں میں تقسیم کیے ہیں۔ ایک حصہ نئے آلات اورایجادات کی بڑے سے بڑے پیمانے پر ساری دنیا میں فراہمی کی یقین دہانی حاصل کرنا ہے۔ دوسرا حصہ ان جدتوں کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ممکن بنانا ہے۔ یہ دونوں کام ایک دوسرے سے متعلق ہیں، ساتھ ساتھ بھی ہوسکتے ہیں۔ جدت کی مانگ کے بغیر ماہرین اور پالیسی سازوں میں کام کی تحریک پیدا نہیں ہوگی، نئے آلات اور ایجادات کے بغیر صارفین دنیا بھر میں گرین پراڈکٹس سہولت سے حاصل نہیں کرپائیں گے، اور اس طرح عالمی سطح پرصفر کاربن تک پہنچنا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ بظاہر بزنس اسکول قسم کی تھیوری لگ رہی ہے، مگر اصل میں یہ بہت عملی ہے۔