سابق وزیر اعظم اور حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار سے ملاقات کا احوال
سابق افغان وزیراعظم اور حزبِ اسلامی کے امیر انجینئر گلبدین حکمت یار نے بھی اپنی رہائش گاہ پر پاکستانی صحافیوں، اساتذۂ کرام، تاجروں، علماء اور ڈاکٹروںکے الگ الگ وفود سے ملاقات کے دوران اس اندیشے کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کو جنرل پرویزمشرف کی پالیسیوں کو دہرانا نہیں چاہیے اور ایک ایسی معقول اور مربوط افغان پالیسی اپنانی چاہیے جس کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان بداعتمادی اور غلط فہمیاں پیدا نہ ہوں اور اسلام آباد اور کابل کے مابین فاصلے بڑھنے کے بجائے ان میں کمی واقع ہو۔ حکمت یار کے بقول اسلام آباد اور کابل میں فاصلے پیدا ہونے کے نتیجے میں دہلی اور کابل ایک دوسرے کے قریب ہوسکتے ہیں جس کا فائدہ اسلام دشمن قوتیں اٹھانے کی کوشش کریں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ طورخم سمیت دیگر سرحدی پوائنٹس پر پاکستانی حکومت افغانوں کے آنے جانے میں آسانی اور سہولیات فراہم کرے اور افغان شہریوں کے ساتھ سرحدی پوائنٹس پر توہین آمیز اقدامات سے گریز کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ افغان پچھلے چالیس سال سے مسائل کا شکار ہیں، ان کے زخم بھرنے کے بجائے اگر ان کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کیا جائے گا تو اس کے نتیجے میں افغانوں کے اندر پاکستان کے بارے میں نفرت پیدا ہوگی جس کا فائدہ اسلام دشمن قوتیں اٹھائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ میں پہلی بار امارتِ اسلامی کی صورت میں ایسی افغان حکومت قائم ہوئی ہے جس کے پاکستان کے ساتھ بہت ہی اچھے تعلقات ہیں اور پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سینٹرل ایشیا کے ممالک تک اپنی تجارت بڑھا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے پُرامن اور مستحکم افغانستان اور باہمی اعتماد اور تعان ضروری ہے تاکہ دونوں ممالک زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کرسکیں۔
انجینئر گلبدین حکمت یار نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو نے افغانستان کے اندر کوئی ترقیاتی کام نہیں کیے ہیں بلکہ یہاں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ادارے برباد کیے، امریکہ کے تسلط کے وقت صرف ڈیڑھ لاکھ افراد محدود تنخواہوں پر کام کرکے گزربسر کرتے تھے اور وہی چند لاکھ لوگ امریکہ کے جانے پر ناخوش ہوں گے، باقی افغان عوام کی اکثریت امارتِ اسلامی کی حکومت قائم ہونے کے بعد خوش اور پُرامید ہے۔ تاہم حکمت یار نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا کو مطمئن اور افغان حکومت کو تسلیم کروانے کے لیے ضروری ہے کہ جلد از جلد ایک اساسی قانون اور آئین مشاورت سے بنایا جائے، ایک منتخب پارلیمنٹ ہو تاکہ وہ افغانستان کے مستقبل کے لیے قانون سازی کرے اور پالیسیاں ترتیب دے۔ انہوں نے امارتِ اسلامی کو مشورہ دیا کہ افغانستان کی آزادانہ اور خودمختار حیثیت اور افغان عوام کے مفادات کو مدنظر اور برقرار رکھتے ہوئے دنیا کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائیں اور کسی مخصوص بلاک کی طرف جھکائو سے گریز کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں افغانوں کو ایک نئی مشکل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
حزبِ اسلامی افغانستان کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمت یار نے کہا کہ امریکہ شکست اور ناکامی کے بعد انتقام پر اتر آیا ہے، وہ شکست کا بدلہ لینے کی خاطر افغانستان میں دوبارہ جنگ وجدل چاہتا ہے، لیکن معاشی مسائل میں گھرے افغان عوام اس سازش کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ امریکہ شکست کھا کر چلا گیا تاہم اُس کا چھوڑا ہوا بوسیدہ اور ناکارہ نظام کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے جس کے باعث مشکلات کا سامنا ہے۔ پاکستان نے ہر مشکل میں افغان عوام کی مدد کی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اسلام آباد افغان عوام کی مشکلات کے پیش نظر اپنی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لے گا۔ انہوں نے کہاکہ حزبِ اسلامی موجودہ حکومت میں شامل نہیں تاہم ہم افغانستان کے معاشی استحکام، اداروں کی بحالی اور فعالیت، ترقی اور عوام کی خوشحالی کی خاطر امارتِ اسلامی افغانستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، ہمارے دوست دشمن ایک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ داعش کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، ان کو ٹشو پیپر کے طور پر بین الاقوامی خفیہ ادارے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسلکی اختلافات کو ہوا دے کر امریکہ اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت افغانستان میں ایک بار پھرخانہ جنگی اور فتنہ پیدا کرنا چاہتا ہے۔ مساجد میں دھماکے اور غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانا کون سا اسلام ہے؟ اسلام ان چیزوں کی اجازت نہیں دیتا۔ جو لوگ ان واقعات میں ملوث ہیں ان کا اسلام اور افغانستان سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
انجینئر گلبدین حکمت یار نے افغان حکومت کو تجویز دی کہ اندرونی مشکلات پر قابو پانے، افغان عوام کے اعتماد کو بحال کرنے اور افغانستان کو مستحکم کرنے کے لیے منتخب شوریٰ یا پارلیمنٹ قائم کریں جو مشاورت سے طرزِ حکومت، خارجہ و داخلہ پالیسی، دستور اور دیگر معاملات کا فیصلہ کرسکے۔ انہوں نے پاک افغان بارڈر پر افغان عوام کو درپیش مصائب اور مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ افغانوں کو سفری سہولیات فراہم کی جائیں گی، لیکن اس سمت میں عملی قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے افغانوں کے دلوں میں پاکستان کے حوالے سے شکوک وشبہات جنم لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں مستقل امن کا افغانوں کے بعد سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوگا، لیکن اب یہ اسلام آباد پر منحصر ہے کہ وہ افغانستان میں مستقل قیام امن کے لیے کیا اقدامات کرتا ہے۔ افغان رہنما نے کہا کہ قیامِ پاکستان سے لے کر سابق حکومت تک افغانستان میں پاکستان مخالف حکمران براجمان رہے ہیں، چنانچہ یہ بہترین موقع ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک نفرت اور کشیدگی کے بجائے امن و محبت سے معاملات طے کریں جس سے خطہ تیزی سے خوشحالی کا سفر طے کرسکتا ہے، اور افغانستان میں امن اور مستحکم حکومت کی بدولت پاکستان وسط ایشیائی ممالک تک اپنی تجارت کو بڑھا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام سابق افغان حکومت کی ناکامی اور کرپشن سے متنفر تھے اور اسے برا سمجھتے تھے، امریکہ نے بھی اشرف غنی حکومت کی نااہلی کا اعتراف کیا تھا۔ انہوں نے روس کی طرف سے امارتِ اسلامی افغانستان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے عندیہ کے بارے میں کہا کہ روس کے اپنے مفادات ہیں تاہم ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے، کابل حکومت کے مفاد میں نہیں کہ عالمی طاقتوں میں سے کسی ایک جانب اس کا جھکائو ہو۔
ایک سوال کے جواب میں گلبدین حکمت یار نے کہا کہ ٹی ٹی پی آج کا مسئلہ نہیں ہے، ٹی ٹی پی اُس وقت بھی افغانستان میں تھی جب امریکہ ادھر ہی تھا، اُس وقت اگر کراچی اور بڑے شہروں میں کارروائیوں کو برداشت کیا جارہا تھا تو اب بھی کوئی جلدی نہیں کرنی چاہیے، اور نہ ہی اس حوالے سے امارتِ اسلامی کو موردالزام ٹھیرانا چاہیے، اس حوالے سے مذاکرات ہوئے ہیں اور ہم نے بھی طالبان حکومت کو کہا ہے کہ وہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تعاون کرے اور اعتمادکی فضا بحال رکھے تاکہ اسلام آباد اور کابل کے مابین فاصلے نہ بڑھیں۔ امید ہے ٹی ٹی پی کا معاملہ جلد حل کرلیا جائے گا۔ اپنے مستقبل کے متعلق ایک سوال کے جواب میں انجینئر گلبدین حکمت یار نے کہا کہ طالبان کے برسرِاقتدار آنے کے بعد انہیں ترکی، پاکستان اور ایران سمیت کئی ممالک کی جانب سے پناہ کی پیش کش کی گئی لیکن انہوں نے اٹل فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب افغانستان ہی میں رہیں گے اور یہاں رہتے ہوئے ایک پُرامن، مستحکم اور اسلامی افغانستان کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔
انجینئر گلبدین حکمت یار نے افغان جہاد میں پاکستان اور اہلِ پاکستان کے کردار کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ افغانی پاکستان کا احسان کبھی نہیں بھول سکیں گے، پاکستان نے انہیں اُس سخت وقت پناہ دی جب دنیا کی کوئی طاقت ہماری آواز سننے کے لیے تیار نہیں تھی، پاکستان میں چالیس لاکھ سے زائد مہاجرین کو اہلِ پاکستان نے نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کے لیے اپنے ہسپتالوں، تعلیمی اداروں، حتیٰ کہ اپنے گھروں اور حجروں کے دروازے کھول کرانہیں خوش آمدید کہا جس کی مثال دنیا کا کوئی دوسرا ملک پیش نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پوری ایک نسل پاکستان میں پل کر جوان ہوئی ہے، لہٰذا ہم پاکستان کا یہ احسان زندگی بھر فراموش نہیں کرسکتے۔
انجینئر گلبدین حکمت یار نے کہا کہ جنگ زدہ افغانستان کو اس وقت تعلیم اور صحت کے شعبوں میں پاکستان اور دیگر پڑوسی ممالک کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اکثر بچوں نے چونکہ پاکستانی تعلیمی اداروں میں پڑھا ہے اس لیے ان بچوں کو مزید تعلیم خاص کر پیشہ ورانہ تعلیم کے شعبوں میں مدد اور راہنمائی فراہم کرنے میں پاکستان اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی انخلا کے ساتھ پیشہ ور افغان جن میں تاجر، ڈاکٹر، ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کے لوگ قابلِ ذکر ہیں، ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں جن سے ہماری اپیل ہے کہ انہیں اپنے ملک کے وسیع تر مفاد میں اپنے وطن واپس آکر اپنے لوگوں کی خدمت کرنی چاہیے۔ ان لوگوں کے جانے سے پیدا ہونے والے خلا کی وجہ سے ہمارے ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور کاروبار پر منفی اثرات پڑے ہیں، لہٰذا اس خلا کو وقتی طور پر پُر کرنے کے لیے پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان کو ہماری مدد کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ہرممکن مدد کرسکتا ہے، لہٰذا آپ کے توسط سے ہماری حکومتِ پاکستان سے اپیل ہے کہ افغانوں کو نہ صرف علاج معالجے میں ترجیحی سہولیات بہم پہنچائی جائیں بلکہ اعلیٰ تعلیم کے شعبوں میں بھی افغانستان کے ساتھ مشترکہ پروگرامات شروع کرنے چاہئیں۔
انجینئر گلبدین حکمت یار نے خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے وفد… جس نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق کی قیادت میں اُن سے ملاقات کی… کا خیرمقدم کرتے ہوئے ان کی جانب سے کابل میں یونیورسٹی کیمپس کھولنے کی خواہش کو سراہتے ہوئے اس ضمن میں ہرممکن تعاون کا یقین دلایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر مجوزہ کیمپس کے لیے افغان حکومت کی جانب سے کوئی عمارت مختص کرنے میں مشکلات ہوں تو وہ اپنی طرف سے ایک چار منزلہ کثیرالمقاصد بلڈنگ دینے کے لیے تیار ہیں جس کے قریب ہی سو بستروں پر مشتمل ایک جدید ہسپتال بھی زیر تعمیر ہے، اس ہسپتال کو بھی مجوزہ کیمپس کے ساتھ تدریسی مقاصد کے لیے منسلک کیا جاسکتا ہے۔ یونیورسٹی کے وفد نے انجینئر گلبدین حکمت یار کی اس فراخ دلانہ پیش کش پر اُن کا شکریہ ادا کیا اور انہیں یقین دلایا کہ اگرافغان حکومت کی جانب سے انہیں کوئی عمارت دینے میں مشکلات پیش آئیں تو وہ افغان حکومت کی مشاورت سے ان کی پیشکش پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔ بعد ازاں انجینئر گلبدین حکمت یار نے وفد کو مجوزہ عمارت کا دورہ بھی کروایا اور زیر تعمیر ہسپتال کے بارے میں بھی مختصر بریفنگ دی، جس پر وفد نے ایک بار پھر اُن کا شکریہ ادا کیا۔