ایران میں امام خمینی نے شاہ کے خلاف تاریخی جدوجہد کی اور شاہ کا تختہ الٹ کر ایک اسلامی حکومت قائم کردی۔ اس تبدیلی نے سوویت یونین کو خوف زدہ کردیا اور اسے خطرہ محسوس ہوا کہ ایران کے اثرات افغانستان پر پڑسکتے ہیں اور وہ اسلامی تبدیلی کی طرف جاسکتا ہے۔ اس خوف نے برژنیف کو افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب کے لیے بے چین کردیا اور اُس نے مسلح قوت کے ذریعے افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب کا فیصلہ کرلیا۔ افغانستان میں خلق اور پرچم کے لیڈروں میں اقتدار پر قبضے کی جو جنگ چل رہی تھی وہ کچھ عرصے کے لیے رک گئی تھی، اس لیے سوویت یونین نے افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب کا آغاز کردیا اور نور محمد ترہ کئی کو اقتدار میں لایا گیا۔ اس بیرونی مداخلت سے افغانستان کے کمیونسٹ دھڑوں میں چپقلش شروع ہوگئی اور اقتدار پر شب خون کا کھیل شروع ہوگیا، نور محمد ترہ کئی کو اس کے شاگردوں نے موت کے گھات اتار دیا اور اقتدار پر قبضہ کرلیا، اورپھر حفیظ اللہ امین نے اقتدار اپنے قبضے میں لے لیا۔
یہ کھیل انقلابِ ایران کے بعد بڑی تیزی سے کھیلا گیا۔ اس کے بعد سوویت یونین نے اپنی سرخ فوج کو افغانستان میں داخل کرنے کا فیصلہ کیا۔ سرخ فوج صدارتی محل میں داخل ہو ئی اور صدرِ افغانستان حفیظ اللہ امین کو موت کے گھاٹ اتار کر گڑھے میں پھینک دیا۔ اس کے بعد افغانستان میں مجاہدین اور کمیونسٹوں کے درمیان کشمکش شروع ہوگئی۔ ایران اور پاکستان دونوں ہمسایہ ممالک تھے اس لیے دونوں کے لیے مسئلہ تھا۔ سوویت یونین کو بالآخر شکست ہوگئی اور افغانستان سامراجی ممالک کے لیے مسئلہ بن گیا۔
افغانستان میں مجاہدین کی باہمی چپقلش اور خونریزی کے نتیجے میںطالبان کی حکومت قائم ہوگئی جسے امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے 2001ء میں نائن الیون واقعے کا بہانہ بناکر ختم کردیا۔ چونکہ طالبان سے حکومت بہ زور قوت حاصل کی گئی تھی اس لیے طالبان اور امریکہ مدمقابل آگئے، بالآخر بیس سال کی طویل مسلح جدوجہد نے امریکہ کو اس کے حامیوں سمیت شکست سے دوچار کردیا۔
افغانستان میں طالبان کا اقتدار میں دوبارہ آنا ایک حیرت انگیز تاریخی عمل ہے جس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ افغانستان میں سپر پاور نے ذلت آمیز شکست کھائی، اب افغانستان مکمل طالبان کے ہاتھوں میں ہے۔ پاکستان پر اس کے جو اثرات مرتب ہوئے ہیں، وہ بڑے حیران کن ہیں۔ اس پر تفصیل سے تجزیہ کیا جاسکتا ہے، صرف چند جملے لکھ کر اپنے تجزیے کی جانب لوٹ آئوں گا۔ پاکستان کے تمام پشتون اور بلوچ قوم پرست بقول قوم پرستوں کے پنجابی استعمار کی گود میں جا کر بیٹھ گئے ہیں اور بی این پی نے تو نوازشریف کے آگے سر جھکا دیا اور وزارتیں قبول کرلیں، اس نے نہ صرف بلوچوں کا خون بلکہ بلوچ مسنگ پرسن کا مسئلہ بھی فراموش کردیا۔ نواب بگٹی کو بلوچ قوم پرستوں کے ساتھ حکومت کرنے کا موقع ملا تو وہ اس تلخ تجربے کے بعد قوم پرستوں کو ’’پیٹ پرست‘‘ کہتے تھے۔ ہزاروں بلوچ نوجوان گم ہوگئے ہیں، اٹھا لیے گئے یا مار دیے گئے۔ آج اقتدار کی چمک نے سب کچھ بھلا دیا ہے۔
اس حوالے سے آگے چلتے ہوئے طالبان کی طرف لوٹ جانا چاہتا ہوں۔ امریکہ، ناٹو اور افغان فوج نے طالبان سے تاریخی شکست کھائی ہے جس نے ویت نام کی یاد تازہ کردی ہے۔ اب طالبان کے ہاتھ میں اقتدار ہے لیکن دنیا اس کو تسلیم نہیں کررہی، مسلم دنیا نے بھی امریکہ کی طرف دیکھنا شروع کردیا ہے۔ کامیابی کے اس مرحلے تک آنے سے پہلے طالبان کی پشت پناہی روس‘ چین‘ ایران اور پاکستان کررہے تھے۔ اب یہ چاروں ممالک محتاط ہوگئے ہیں۔ امریکہ نے افغانستان کے 9 ارب ڈالر پر قبضہ کرلیا ہے اور طالبان کے حوالے نہیں کررہا۔
ایران کے حوالے سے چند تجاویز ہیں جن کی طرف طالبان کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔ اب تک طالبان نے کسی آئینی دستور یا اسمبلی کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کی۔ انہیں اس طرف توجہ دینا ہوگی۔ ایران کے رہبر امام خمینی نے آتے ہی اپنی حکومت قائم کرلی تھی اور پوری کابینہ تشکیل دے دی تھی حالانکہ اُس وقت ایران کے وزیراعظم شاہ پور بختیار تھے۔ اس کے بعد مسلح تصادم شروع ہوا اور فوج نے انقلابی حکومت کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور ایران مکمل امام خمینی کے ہاتھ میں آگیا۔ شاہ کا دستور موجود تھا‘ آیت اللہ شریعت مدار نے امام سے کہا کہ شاہ کے دستور میں کچھ تبدیلیاں کردیں۔ امام خمینی نے اس مؤقف کو تسلیم نہیں کیا اور قوم سے اپیل کی کہ میری حکومت کو اسلامی دستور بنانے کی اجازت دی جائے۔ ریفرنڈم ہوا اور قوم نے دستور بنانے کا اختیار دے دیا۔ اس کے بعد امام خمینی نے اپنے بااعتماد ساتھیوں اور دستور کا علم رکھنے والوں سے مشورہ کیا اور دستور کو قوم کے سامنے ریفرنڈم کے لیے پیش کردیا جس کی 90 فیصد سے زیادہ عوام نے تائید کی۔ اس کے بعد صدر کا انتخاب کیا گیا۔ بنی صدر کو قوم نے منتخب کرلیا، بعض علما نے امام سے اختلاف کیا کہ بنی صدر درست انتخاب نہیں ہے۔ امام نے کہا کہ نوجوان اس کے حامی ہیں، اگر ہم نے اِس وقت کوئی اور فیصلہ کیا تو نوجوان ہمارے مخالف ہوجائیں گے، اس کو منتخب ہونے دو، اگر وہ غلط راہ پر گیا تو پھر ہم دوسرا فیصلہ کریں گے۔ اتفاق دیکھیے کہ بنی صدر امریکہ کا حامی نکلا اور پھر اسے ملک سے فرار ہونا پڑا۔ پارلیمنٹ کا انتخاب کرایا گیا اور پارلیمنٹ نے بنی صدر کے خلاف فیصلہ کیا، اس کے بعد آیت اللہ خامنہ ای کو صدرِ ایران کے لیے نامزد کیا گیا، اور قوم نے انہیں صدرِ ایران بنا دیا۔ پارلیمنٹ کا باقاعدہ انتخاب ہوتا ہے، اور ابھی تک اس راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔ حالتِ جنگ میں بھی پارلیمنٹ اور صدر کا انتخاب ہوتا رہا ہے۔
میں نے طالبان کے سامنے ایران کی مثال اس لیے رکھی ہے کہ وہ پہلے مرحلے پر دستور بنائیں اور ایک دستور ساز کمیٹی تشکیل دیں، اور اپنے سامنے افغانستان کے دستور کو بھی رکھیں۔ ایران کی طرح دستور پر ریفرنڈم کرائیں اور اس کے بعد پارلیمنٹ کا انتخاب کرائیں۔ طالبان اس وقت مکمل با اختیار ہیں اور افغانستان کی دیگر قوموں کو بہت کم اہم عہدے دیے گئے ہیں۔ طالبان دنیا کے سامنے ایک حقیقی پارلیمنٹ تشکیل دیں جس میں تمام قومیتوں کا اُن کی آبادی کے حساب سے تناسب موجود ہو۔ ایک جمہوری پارلیمنٹ ہی افغانستان کی نمائندگی کرے گی اور کوئی اس کا انکار نہیں کرسکے گا۔