5 اگست 2019ء کے فیصلے سے کشمیر کی شناخت ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ کشمیر کی شناخت کی حفاظت کرنے والا ڈھانچہ بھی خس و خاشاک کی مانند بہہ گیا
سری نگر سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار ”گریٹر کشمیر“ نے یہ چونکا دینے والی رپورٹ شائع کی ہے کہ بھارتی حکومت 1990ء کی دہائی میں مسلح تحریک سے وابستہ ہوکر آزاد کشمیر منتقل ہونے، یا حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر نقل مکانی کرنے والے ان تمام افراد کی فروخت شدہ جائدادوں کو سرکاری کنٹرول میں لینے کا منصوبہ بنا چکی ہے۔ 1990ء کی دہائی میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقوں سے ہزاروں افراد آزادکشمیر منتقل ہوئے، اور ان میں سے اکثر یہیں آباد ہوکر رہ گئے، جس کے بعد ان لوگوں نے مقبوضہ علاقے میں اپنی جائدادیں فروخت کرکے رقم آزادکشمیر اور پاکستان منتقل کرکے نئے آشیاں آباد کرنے کا راستہ اختیار کیا۔ اب بھارت کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے الزام عائد کیا ہے کہ ایسی بہت سی جائدادوں سے حاصل ہونے والی رقم مقبوضہ علاقے میں ہی شدت پسندانہ سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوئی۔ بھارتی حکومت نے ایسی فروخت شدہ جائدادوں کو اپنے کنٹرول میں لینے کے ساتھ ہی اس طرح کی خرید وفروخت پر پابندی عائد کردی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے ریونیو کے اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی اس حوالے سے کئی جائدادوں کی تفصیل بھی سامنے لائی ہے۔
یوں لگتا ہے کہ پہلے مرحلے پر جائدادوں کی فروخت کے بعد رقم مسلح سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کے نام پر شروع ہونے والی کارروائی کے بعد اس کا دائرہ نقل مکانی کرنے والے تمام افراد کی فروخت کی جانے والی جائدادوں تک بڑھا جائے گا، کیونکہ اصل مقصد کشمیر کی زیادہ سے زیادہ اراضی پر اپنا کنٹرول قائم کرنا ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی شناخت ختم کرنے کا فیصلہ بھارت نے بے سبب اور الل ٹپ نہیں کیا تھا۔ اس فیصلے کے پیچھے برسوں کی منصوبہ بندی اور حالات پر اپنی گرفت قائم کرنے میں ناکامی کے طویل سلسلے تھے۔ بھارت نے کشمیر میں حالات اور عوامی جذبات کے دھارے کو اپنے حق میں کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں ناکامی کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرلیا تھا کہ اب اس مسئلے کا حل اسرائیل اور فلسطین طرز پر ہی نکالا جاسکتا ہے۔ نوّے کی دہائی کے اوائل میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں نے اسرائیل کے دورے کرکے فلسطین اور اسرائیل کے تنازعے کا گہرا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ اسی دور میں بھارت کے ریاستی سطح پر اسرائیل کے ساتھ درپردہ تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوتی چلی گئی، جس کے بعد بھارت نے کنٹرول لائن پر حفاظت اور چوکسی کا وہی نظام اپنانا شروع کیا جو اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں اور دوسرے سرحدی علاقوں میں اپنایا تھا۔ کنٹرول لائن پر باڑھ کا تصور بھی فلسطین کی سرزمین پر چُنی جانے والی اونچی دیواروں سے لیا گیا تھا۔
5 اگست 2019ء کے فیصلے سے کشمیر کی شناخت ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ کشمیر کی شناخت کی حفاظت کرنے والا ڈھانچہ بھی خس و خاشاک کی مانند بہہ گیا۔ جموں و کشمیر کی مقامی حکومت، اسمبلی، قوانین… سب کچھ طاقت کی اس لہر میں بہہ گیا۔ اب بھارت کو کشمیر کے حوالے سے اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے کشمیر کی اسمبلی، آئین اور حکومت کی توثیق کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ان تمام رکاوٹوں کے ختم ہونے کے بعد بھارت نے کشمیریوں کی زمینوں کو ہتھیانے کا ایک عمل بہت سرعت کے ساتھ جاری رکھا ہوا ہے۔ گوکہ ابھی بھارت کے بڑے بزنس ٹائیکون ٹاٹا، برلا، ہیرو، ہندوجا گروپ جیسے سرمایہ داروں نے براہِ راست کشمیر کی زمینیں خریدنے کے لیے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی، مگر پہلے مرحلے پر بھارتی حکومت کشمیریوں کی زیادہ سے زیادہ زمینوں کو اپنے کنٹرول میں لینے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ بھارتی حکومت جب کشمیریوں کی زمینوں کی قانونی مالک و مختار بن جائے گی تو وہ بلاروک ٹوک اس زمین کر بھارت کے بڑے کاروباری گروپوں کو لیز پر دے گی۔ یہ کاروباری گروپ صرف سرمایہ کاری نہیں کریں بلکہ بھارت کے مختلف علاقوں سے عملہ بھی بھرتی کریں گے، اور یوں کشمیر کے فلسطین بننے کا عمل باقاعدہ زمین پر نظر آنے لگے گا۔ سرِدست جنگلات، سیاحت، محفوظ چراگاہوں کے نام پر وسیع وعریض رقبے حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ کشمیری پنڈتوں اور مختلف ادوار میں جموں و کشمیر سے نقل مکانی کرنے والے مسلمانوں کی جائدادیں بھی متروکہ املاک کے طور پر حکومت کے تصرف میں ہیں۔ حکومت بیک جنبش قلم ان جائدادوں کا کوئی بھی استعمال کرسکتی ہے۔
کچھ عرصہ قبل بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں سے ہجرت کرنے والے کشمیریوں کی ان تمام زمینوں کو اپنے کنٹرول میں لینے کا فیصلہ کیا ہے جو اس سے پہلے محکمہ کسٹوڈین کے عارضی کنٹرول میں تھیں۔ نقل مکانی کرنے والے لوگ بدستور ان جائدادوں کے نہ صرف قانونی مالک تھے بلکہ اگر حکومت ان جائدادوں سے کوئی کام لے رہی تھی تو اصل مالک ان کا معاوضہ یا کرایہ وصول کرنے کے مجاز تھے۔ پانچ اگست کے فیصلے کے بعد اپنائے گئے قوانین کے تحت ان جائدادوں کے تمام حقوق حکومت کو منتقل ہوگئے۔ اب یہ بھارتی حکومت کی صوابدید ہے کہ وہ ان کا کیا استعمال کرتی ہے۔ حکومتِ پاکستان کو اپنے پہلو میں ایک ڈوبتے ہوئے ’’فلسطین‘‘ کی بھی کچھ خبر رکھنی چاہیے جہاں کے لوگ قطرہ قطرہ زہر پینے پر مجبور کردئیے گئے ہیں، جن کے پیروں کے نیچے سے گزوں، کنالوں اور ایکڑوں میں جیسے بھی دائو لگے.. زمین چرائی اور ہتھیائی جارہی ہے۔