سردار اختر مینگل نے وزیراعظم شہبازشریف سے ملاقات میں سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا
منگل12جولائی کو بلوچستان کے سیاحتی علاقے زیارت میں ’’ ورچوم ‘‘کے مقام پر پاک فوج کے حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل لئیق بیگ مرزا کے اغوا اور قتل نے ایک بار پھر صوبے میں حالات کی حساسیت کی جانب متوجہ کیا ہے۔ بلاشبہ صوبے میں امن کی یہ غیر یقینی فضا خراب حکمرانی کی نشاندہی کرتی ہے۔ انہی کالموں میں ذکر کرچکے ہیں کہ کوئٹہ اور متصل اضلاع کی کوئلے کی صنعت مسلح گروہ بند کرا چکے ہیں، انہوں نے کوئلہ کان مالکان سے ماہانہ بنیاد پر مخصوص رقم دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ عرصۂ دراز سے اس بندش کے باوجود اس اہم مسئلے پر کوئی سر جوڑ کر بیٹھا ہے، نہ سنجیدگی دکھائی دے رہی ہے۔ حکومت تو سرے سے ان سنگین مسائل کو اپنا منصبی فریضہ سمجھتی ہی نہیں۔ وہ سمجھتی ہے کہ صوبائی بجٹ میں بھاری رقم مختص کی گئی ہے اس بنا پر اب یہ درد سر فورسز کا ہے، اور اس نے خود کو محض مذمتوں تک محدود کر رکھا ہے۔ بادی النظر میں اس ابتری کی صوبے کی حکومت ذمہ دار ہے جس نے بالعموم پولیس اور بالخصوص لیویز بشمول کمشنر، ڈپٹی کمشنر کو گھر کا ملازم بنا رکھا ہے۔ اراکینِ اسمبلی بشمول حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اراکین ذاتی ترجیح و اغراض کے تحت مرضی کے ڈپٹی کمشنر اور کمشنر اپنے اضلاع اور ڈویژنوں میں تعینات کراتے ہیں۔ پھر یہ سرکاری افسران اُن کی خدمت بجا لانے اور حکم کی تعمیل میں لگے رہتے ہیں۔ سول بیوروکریسی ہر لحاظ سے وزیراعلیٰ، اُن کے وزراء اور اراکین کی زیرِ دست ہے۔ ذرا کوئی آفیسر، کمشنر، ڈپٹی کمشنر قانون اور کارِ سرکار کو مقدم رکھنے کی کوشش کرتا ہے تو اگلے لمحے او ایس ڈی بنادیا جاتا ہے یا کھڈے لائن لگانے کے دوسرے ہتھکنڈوں کی زد میں لے لیا جاتا ہے۔ من جملہ بیوروکریسی اس قید سے آزاد ہو تو صوبے کو درپیش کئی انتظامی، مالی، ترقیاتی اور امن وامان کے مسائل کے حل میں اچھی پیش رفت ہوسکتی ہے۔گویا کرنل لئیق اور اُن کے چچا زاد بھائی عمر جاوید کے اس قدر آسانی سے ایک پُرامن علاقے سے اغوا میں متذکرہ عوامل شامل ہیں۔ خواتین و بچوں کے سامنے ایک اعلیٰ فوجی آفیسر کا اغوا دراصل لیویز فورس کی مکمل ناکامی اور فرائض سے غفلت کا نتیجہ ہے۔ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اور انہیں تعینات کرنے والے جواب دہ اور قابلِ مواخذہ ہیں۔
کرنل لئیق ڈی ایچ اے کوئٹہ میں ڈائریکٹر لینڈ ایکوزیشن تعینات تھے۔ وہ12جولائی کو عید کی تعطیلات میں اہلِ خانہ کے ساتھ زیارت سیر و سیاحت کے لیے جارہے تھے کہ ورچوم کے مقام پر مسلح افراد نے قومی شاہراہ پر سرِ عام ان کی گاڑی روک لی اور شناخت معلوم کرنے کے بعد کرنل لئیق اور اُن کے کزن عمر جاوید کو جو پراپرٹی ڈیلر تھے، ہمراہ لے گئے۔ یہ کھلی واردات لیویز فورس کی ناک کے نیچے ہورہی تھی۔ مسلح گروہ نے جس کے ارکان کی تعداد دس سے بارہ بتائی گئی ہے، پہلے ورچوم میں دکانیں بھی بند کرائی تھیں۔ چناں چہ وہ مغویوں کو لے کر پیدل ٹھکانوں کی طرف روانہ ہوئے۔ اطلاع پر سرچ آپریشن کا آغاز ہوا۔ فضائی اور زمینی آپریشن کے پیش نظر شاید مسلح افراد کے لیے مغویوں کو کمین گاہ تک لے جانا ممکن نہ رہا، اس بنا پر 14جولائی کو کرنل لئیق کو زیارت اور ہرنائی کی سرحد پر مانگی ڈیم کے قریب سر میں گولی مار کر، اور عمر جاوید کو گلا دبا کر قتل کردیا تھا۔ کرنل لئیق کے جسم کے ساتھ بم باندھے گئے تھے، تاکہ جب فورسز نعش اٹھائیں تو دھماکے ہوں۔ آپریشن میں ایک حوالدار خان محمد جاں بحق ہوا۔ آئی ایس پی آر نے آپریشن کے دوران مقابلے میں 9 عسکریت پسندوں کے مارے جانے کی خبر دی ہے۔
حکومت کی جانب سے اس سانحے پر وہی روایتی مذمتی بیانات کا تانتا بندھا رہا۔ بے خبر حکومت کے بیان نویس مذمتی خبریں جاری کرتے رہے۔ حکومت کے ترجمان نے جو کوئٹہ کے تین ستارہ ہوٹل میں رہائش پذیر ہیں، پوز بنائے اور تصویر کے ساتھ مذمتی بیان جاری کیا۔ جب کرنل لئیق کے جاں بحق ہونے کی خبر آئی تب بھی پوز بنائے اور تصویر کے ساتھ مذمتی بیان جاری کیے۔ گویا صوبے میں حکمرانی اور اس کے معیارات اور تقاضے صریح مذاق بن چکے ہیں۔ دوسری طرف ہلاک ہونے والے افراد و نوجوانوں کے لواحقین اور بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور دوسرے بلوچ سیاسی و سماجی حلقوں نے ماورائے عدالت قتل کا الزام لگایا، انہوں نے کہا کہ پانچ افراد لاپتا افراد کی فہرست میں شامل تھے۔ وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو نے بھی اس کی تصدیق کی ہے، تاہم وہ یہ بھی بتا چکے ہیں کہ تھانوں میں گمشدگی کی رپورٹیں اور لاپتا افراد کی فہرست میں جو نام شامل کیے گئے تھے وہ دراصل ریاست مخالف سرگرمیوں میں مشغول تھے۔ ان افراد میں تعلیم یافتہ نوجوان بھی شامل تھے، جن میں 26 سالہ ظہیر بلوچ الیکٹریکل انجینئر تھا، 23 سالہ شہزاد بلوچ نے سول انجینئر نگ کر رکھی تھی اور پولیس کے ریٹائرڈ انسپکٹر کا بیٹا تھا، مختیار احمد نے حال ہی میں بلوچستان یونیورسٹی سے فزیوتھراپی کی ڈگری لی تھی۔ 9 میں سے 7 لاشوں کی شناخت ہوئی۔ دو افراد کا تعلق مری قبیلے سے تھا۔ ایک ہزار گنجی اور دوسرا ہرنائی کا رہائشی تھا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے وزیراعظم شہبازشریف سے ملاقات میں سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا۔ بی این پی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات آغا حسن نے جو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی بھی ہیں، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ سے ملاقات کی۔ بی این پی کی پریس ریلیز کے مطابق رانا ثناء اللہ نے صورت حال پر تشویش ظاہر کی اور جوڈیشل کمیشن کے قیام پر اتفاق کیا۔ سابق وزیراعلیٰ نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی اسے انسانی حقوق کے خلاف عمل قرار دیا ہے۔21 جولائی جولائی کو وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے تحت ریلی نکالی گئی جس میں بلوچ خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ ریلی وزیراعلیٰ ہائوس کے سامنے احتجاج کے لیے روانہ ہوئی تھی کہ پولیس نے منتشر کرنے کے لیے ڈنڈے برسائے، آنسو گیس استعمال کی جس سے خواتین اور بچوں کی حالت غیر ہوگئی۔ یقیناً پولیس نے حکومت کے کہنے پر یہ قدم اٹھایا جو معاملات سدھارنے کے بجائے مزید خراب کرنا تصور کیا جاتا ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے 6 نکات کی زنبیل میں لاپتا افراد کی بازیابی کا نکتہ بھی شامل ہے۔ تضاد دیکھیے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی وفاق سے اتحاد توڑنے اور جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کرتی ہے، جبکہ عبدالقدوس بزنجو کی حکومت سے پوری طرح بغل گیر اور راضی بہ رضا ہے۔ اگرچہ مغویوں کی بازیابی وزیراعلیٰ اور پولیس و لیویز کے بس کی بات نہیں تھی مگر ملزمان کے خلاف کارروائی کے حکم کے بیانات تو صوبائی حکومت ہی کی جانب سے جاری و شائع ہوئے ہیں، اصولاً سب سے پہلے بلوچستان نیشنل پارٹی کو صوبے کی حکومت سے بازپرس کرنی چاہیے تھی۔
آئی ایس پی آر نے آپریشن میں نشانہ بننے والے سالم کریم سے متعلق شواہد پیش کیے جس میں وہ مسلح گروہ کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔ سالم کریم کا تعلق بالگتر سے تھا۔ غرض آئی ایس پی آر کی جانب سے آپریشن کے بارے میں وضاحت جاری کرنے سے پہلے ہونا یہ چاہیے تھا کہ وزیراعلیٰ اپنی کابینہ کے ہمراہ کرنل لئیق اور اُن کے کزن کے اغوا، قتل اور فورسز کے آپریشن میں مارے جانے والے افراد کے بارے میں مؤقف پیش کرتے۔ مارے جانے والے افراد کے لواحقین کے الزامات کا جواب دینا بھی وزیراعلیٰ کی ذمہ داری بنتی ہے۔ مگر فرار اور چپ کی پالیسی اپناکر وزیراعلیٰ نے خود کے لیے محفوظ راہ کی حکمت عملی اپنالی، اور تو اور اعلیٰ فوجی آفیسر کے اغوا اور قتل کا واقعہ اس سیاست کاری نے پس منظر میں دھکیل دیا۔ چناں چہ ہونا یہ چاہیے کہ بی این پی، نیشنل پارٹی اور سماجی و سیاسی حلقے پیش کیے گئے اپنے تحفظات و خدشات کی وضاحت اوّل اوّل صوبے کی حکومت سے طلب کرتے۔ دوئم، سب سے پہلے مواخذہ یہ ہوکہ زیارت میں دن دہاڑے کرنل لئیق کیسے اغوا ہوئے؟ یہ بات یاد رہے کہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی اغوا اور قتل کی ذمہ داری قبول کرچکی ہے اور دعویٰ کیا کہ ان کا کوئی بندہ مارا نہیں گیا ہے۔ یہ گروہ ریاست کے خلاف اپنی سرگرمیوں اور تخریب کا اعتراف کرتا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان اگر سخت گیر سوچ اپنا رہے ہیںاور یہ سوچنے اور غور و فکر کا متقاضی پہلو ہے، اس رجحان میں لوٹ کھسوٹ کی سیاست اور غیر موزوں افراد پر مشتمل حکومتوں کے قیام کا گہرا عمل دخل ہے۔ چناں چہ امن اور بات چیت اور افہام و تفہیم کی فضا قائم کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور اس پر عمل کرنا ہوگا۔ ہر جانب سے قیمتی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے، خصوصاً صوبے کے بہت ہی پیارے نوجوان پیوندِ خاک ہوچکے ہیں۔
ورچوم واقعے کے بعد 17جولائی کو قلات کے علاقے منگچر میں لیویز اہلکاروں پر فائرنگ کی گئی جس میں ایک اہلکار جاں بحق اور ایک زخمی ہوا۔ مستونگ میں بھی لیویز اہلکار ہدف بنا ہے۔ کوئٹہ میں فورسزپر دستی بم حملہ ہوا۔ شدت پسندوں نے ماضی کی مانند ایک مرتبہ پھر لیویز اور پولیس کو آڑے نہ آنے کی دھمکی دی ہے۔ ماضی میں بھی پولیس اور لیویز فورس متواتر ان کے نشانے پر تھیں۔