کراچی میں مون سون :نظام زندگی درہم برہم

بارشوں سے کراچی میں نظام زندگی درہم برہم ہوگیا۔ دنیا کے لیے بارش رحمت اور مسرت کا باعث بنتی ہے لیکن کراچی کے مکین ہر بارش میں خوشی کے بجائے خوف میں مبتلا ہوجاتے ہیں، کیونکہ بارش سے شہر کی سڑکیں اور نشیبی آبادیاں پانی میں ڈوب جاتی ہیں۔ کتنی بری صورت حال ہوتی ہے اس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومتِ سندھ کو ایک دن کی تعطیل بھی کرنا پڑی، محکمۂ موسمیات کی جانب سے شہریوں کو بلا ضرورت گھروں سے باہر نہ نکلنے کی ہدایت بھی کی گئی، لیکن کراچی میں مسلسل جاری رہنے والی مون سون بارشوں نے شہریوں کو تکلیف میں مبتلا کیا، اور ان کے لیے اس شہر میں جہاں پہلے ہی بہت تکلیفیں ہیں وہاں ان کی اذیت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ کراچی کا کون سا علاقہ تھا جو پانی میں نہیں ڈوبا؟ اسکیم 33 کی متعدد رہائشی سوسائٹیوں انچولی سوسائٹی، پی سی ایس آئی آر، کوئٹہ ٹاؤن، کراچی یونیورسٹی، اسٹیٹ بینک، گوالیار، پیلی بھیت سوسائٹی، محمد خان گوٹھ اور مدراس سوسائٹی میں برساتی پانی کا بڑا ریلا داخل ہوگیا جس کے باعث سوسائٹیوں کے مکینوں کی قیمتی گاڑیاں پانی میں ڈوب گئیں اور پانی گھروں میں داخل ہوگیا، جس سے لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے، جب کہ کئی مکین نقل مکانی کرکے اپنے رشتے داروں کے گھر چلے گئے۔ اسی طرح لیاری، ملیر، گڈاپ، ناظم آباد، لالو کھیت، صدر، گارڈن اور ڈیفنس سمیت مختلف علاقے زیر آب رہے، جبکہ سڑکوں پر موجود پانی نے ٹریفک نظام کو شدید متاثر کیا۔ شہر کی کوئی سڑک یا علاقہ بارش کے پانی سے محفوظ نہیں رہا۔ تاحال بدترین صورت حال ہے، گٹر اور نالوں سے بھی پانی کی نکاسی نہیں ہورہی۔ مون سون کی حالیہ بارشوں میں کرنٹ لگنے سمیت دیگر حادثات و واقعات میں آٹھ افراد ہلاک ہوگئے۔ لیاری، بہار کالونی الفلاح میں کرنٹ لگنے سے ایک شخص اور ایک بچی ہلاک ہوگئی۔ ہلاک ہونے والوں کی شناخت 35 سالہ رحمان ولد عثمان، اور 10 سالہ حفیظہ دختر رحمان سے ہوئی۔21 سالہ عامر کی لاش سہراب گوٹھ پل کے نیچے لیاری ندی سے ملی۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق عامر کی لاش نیوی کے غوطہ خوروں نے نکالی۔ لیاقت آباد نمبر پانچ میں گھر کے باہر کرنٹ لگنے سے 17 سالہ ضیا ہلاک ہوگیا، جبکہ سرجانی لیاری میں ایکسپریس وے کے قریب کرنٹ لگنے کے دو مختلف واقعات میں دو افراد ہلاک ہوئے۔ لی مارکیٹ کے قریب گھر میں کام کے دوران چالیس سالہ شان حسین، جبکہ سائٹ ایریا میں کمپنی میں کام کے دوران کرنٹ لگنے سے مزدور جان سے گئے۔ بارشوں کے نتیجے میں کراچی میں پیدا ہونے والی سیلابی کیفیت کو سمجھنے کے لیے پہلے شہر کی پیچیدگیوں کو سمجھنا ہوگا۔
حالیہ بارشوں نے کراچی کے بنیادی ڈھانچے کو تقریباً مکمل تباہی سے دوچار کیا، ساتھ ہی ساتھ ایک طویل مدت سے شہر کے نظم و نسق، بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے نظام، اور فراہمی و نکاسیِ آب کے نظام کی خرابیوں کو بھی بے نقاب کردیا۔ اور یہ آج پہلی مرتبہ نہیں ہوا، 2020ء میں بھی کچھ اسی طرح کے حالات تھے جب ماہرین نے کراچی کے انفرا اسٹرکچر پر بہت سے سوالات اٹھائے، انھی میں ماہر شہری امور عارف حسن نے کراچی میں نکاسیِ آب کی تاریخ کے پس منظر میں لکھا تھا کہ ”ہم سب جانتے ہیں کہ کراچی میں برساتی پانی دو موسمی دریاؤں (دریائے لیاری اور دریائے ملیر) میں گرتا ہے۔ ان دونوں دریاؤں کا مآخذ کیرتھر رینج میں ہے اور یہ تقریباً بارہ سے چودہ میل کے فاصلے سے متوازی بہتے ہیں۔ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی دستاویزات کے مطابق 43، اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے اعداد و شمار کے مطابق 64 نالے برساتی پانی ان دونوں دریاؤں تک پہنچاتے ہیں۔ اور کم و بیش 600 نالیاں برساتی پانی ان 64 نالوں تک پہنچاتی ہیں۔ مزید برآں، ہزاروں چھوٹے نالوں پر تجاوزات قائم ہیں۔
قیامِ پاکستان سے قبل کراچی کی آبادی کم و بیش ساڑھے چار لاکھ تھی۔ تب برساتی اور گندے پانی کی نکاسی کا نظام بہت حد تک زیر زمین تھا اور گٹر باغیچہ (موجودہ بے نظیر بھٹو یا ٹرانس لیاری پارک) میں واقع سسٹم کے ذریعے اس گندے پانی کی ٹریٹمنٹ کی جاتی تھی۔ ٹریٹمنٹ کے بعد بچ رہنے والے پانی سے سبزیاں اور پھول وغیرہ اگائے جاتے تھے۔ تب گٹر باغیچہ کا رقبہ ایک ہزار ایکڑ تھا۔ غیر قانونی مگر سرکاری طور پر تسلیم شدہ کچی آبادیوں کے قیام کے نتیجے میں اب یہ رقبہ 480 ایکڑ رہ گیا ہے۔
پاکستان کے قیام کے بعد 1947ء سے 1951ء کے دوران بھارت سے ہجرت کرکے کم و بیش آٹھ لاکھ افراد کراچی آئے اور مختلف علاقوں میں آباد ہوئے، جس کے نتیجے میں شہر کا رقبہ بڑھا اور ساتھ ہی بنیادی ڈھانچے کی بھی توسیع ہوئی۔ 1958ء کے دی گریٹر کراچی ری سیٹلمنٹ پلان کے تحت دو نئے قصبے (لانڈھی کورنگی اور نیو کراچی) آباد کیے گئے۔ یہ دونوں قصبے اُس وقت کے کراچی سے کم و بیش بیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھے۔ لانڈھی و کورنگی سے نکاسیِ آب کے لیے کورنگی کریک استعمال ہوتی تھی، اور نیو کراچی کے لیے خواجہ اجمیر نگری نالہ بروئے کار لایا جاتا تھا۔ دونوں قصبوں کے لیے واٹر ٹریٹمنٹ کی بھی منصوبہ سازی کی گئی تھی، تاہم یہ پلانٹ کبھی نصب نہیں کیے گئے، اور دونوں بڑے قصبوں کا گندا پانی کسی بھی طرح کی ٹریٹمنٹ کے بغیر ہی نالوں کے ذریعے سمندر میں گرایا جاتا رہا۔
موزوں سوشل ہاؤسنگ پالیسی کے فقدان کے باعث نالوں پر اور اُن کے گرد آبادیاں قائم ہوتی گئیں اور اُن کے مکین گندا پانی، ظاہر ہے اِنھی نالوں میں گراتے رہے۔ 1960ء کے عشرے کے وسط میں کسی متبادل منصوبے کی عدم موجودگی میں رسمی نوعیت کی سیکٹر ڈویلپمنٹ نے بھی ان نالوں ہی کو استعمال کیا۔ یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ 1960ء کے عشرے کے اواخر میں طے کرلیا گیا کہ گندے پانی کی نکاسی برساتی نالوں میں کی جائے گی، اور یوں گندے پانی میں شامل ٹھوس غلاظت یعنی کچرا نالوں اور نالیوں میں بھرتا چلا گیا۔
1978-79ء میں کراچی میں غیر معمولی بارشیں ہوئیں اور نالوں پر قائم تجاوزات کا بڑا حصہ بہہ گیا۔ اس کے بعد ندی نالوں پر غیر قانونی تعمیرات کے حامل افراد نے اپنے مکانات کو مضبوط کرنا شروع کیا تاکہ وہ برساتی پانی میں بہہ نہ جائیں۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی نے طوفانی پانی کی نکاسی کے لیے جو نالیاں بنائیں اُن میں کلفٹن کے مکینوں کا گندا پانی اور کچرا بہتا ہے جو سمندر کو آلودہ کرتا ہے۔ شہر کی آبادی بڑھتے رہنے سے 2001ء سے 2020ء کی درمیانی مدت میں ٹھکانے لگائے جانے والے ٹھوس کچرے کی یومیہ مقدار 6500 ٹن سے 15 ہزار ٹن تک جاپہنچی۔ کسی موزوں اور مؤثر نظام کے نہ ہونے سے اتنے سارے ٹھوس کچرے کو ڈھنگ سے ٹھکانے لگانا انتہائی دشوار ہوگیا۔ اس کا دباؤ شہر کے نکاسیِ آب کے پورے نظام پر مرتب ہوا۔
دی کراچی اسٹرے ٹیجک پلان 2020 کے تحت کیرتھر رینج کے سِرے پر کئی ڈیم بنانے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ کراچی میں زیادہ پانی داخل نہ ہو۔ اب تک صرف تھڈو ڈیم بنایا گیا ہے۔
سیاست دانوں، بیوروکریٹس، ڈویلپرز اور انجینئرز نے کہا ہے کہ کراچی میں نکاسیِ آب کے نظام کو درست کرنے کی سمت پہلا قدم یہ ہے کہ تجاوزات ختم کرکے تمام نالوں کی بھرپور صفائی کی جائے۔ اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ نالوں کے سِروں پر واقع تجاوزات ختم کی جائیں تاکہ پانی آسانی اور روانی سے دریائے لیاری اور دریائے ملیر میں داخل ہو اور سمندر تک پہنچے۔ نالوں کے کناروں پر موجود آبادیوں کو ہٹانے کی صورت میں گندے پانی سے بڑے پیمانے پر زمین کا کٹاؤ واقع ہوگا اور اس کے نتیجے میں متعلقہ آبادیوں کے لیے پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ 1978ء اور 1979ء میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ زمین کا کٹاؤ روکنے کے لیے نالوں کے سرے مضبوط کرنا بھی ناگزیر ہے۔“
حقیقت یہ ہے کہ اس شہر کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ نے 43 نالوں کی نشاندہی کی، اور ساتھ ہی یہ منصوبہ بھی پیش کیا کہ ان نالوں کے دونوں طرف ٹرنکس تعمیر کرکے گندے پانی کو ٹریٹمنٹ کے لیے پلانٹ تک منتقل کیا جاسکتا ہے۔ یہ تجویز منظور کرلی گئی، اور پھر چند ترامیم کے ساتھ دی گریٹر کراچی سیوریج پلان تیار ہوا۔ لیکن یہ منصوبہ بھی تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔
جس تھڈو ڈیم کا عارف حسن ذکر کررہے ہیں  اس کے ناکافی ہونے کی وجہ سے کراچی میں جب بھی موسلا دھار بارش ہوتی ہے تھڈو ڈیم اوور فلو ہوجاتا ہے، اور نتیجے کے طور پر پانی ڈیم کے کناروں سے بہنے لگتا ہے، جس کی وجہ سے کاٹھور ندی کے پانی سے سپر ہائی وے نیشنل ہائی وے لنک روڈ کا راستہ بند ہوجاتا ہے اور اردگرد کی آبادیاں بھی متاثر ہوتی ہیں۔ اس شہر کا انتظامی ڈھانچہ جس طرح تباہ ہوا ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کراچی کو نہ تو کبھی پیپلزپارٹی نے اپنا سمجھا، نہ ایم کیو ایم نے، اور نہ پی ٹی آئی نے کراچی کے لیے کچھ کیا۔ کراچی کے مستقل نظرانداز ہونے کی وجہ سے شہریوں میں احساس اور سوال ہے کہ کیا اس شہر کا کوئی والی وارث نہیں ہے؟ کیا حکومت کے پاس شہر کے بنیادی انفرااسٹرکچر کو بہتر کرنے کے لیے فوری کوئی حل ہے؟ اگر نہیں تو سندھ کی موجودہ حکومت کا کیا جواز ہے؟ اور یہ شہر پر حکمرانی کا خواب کس بنیاد پر دیکھتی ہے؟