نماز اور اس کے تربیتی اثرات

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا: نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنا کیسا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ”یہ شیطان کی جھپٹ ہے، وہ آدمی کی نماز پر ایک جھپٹ مارتا ہے“۔
(بخاری،جلد اوّل، کتاب الاذان حدیث نمبر714 )

دینِ اسلام سراپا دینِ رحمت ہے، اس کی پاکیزہ تعلیمات زندگی کو صاف ستھرا بناتی ہیں، اور ان پر عمل کرنے والا دنیا اور آخرت کی کامیابیاں حاصل کرتا ہے۔ آیئے آج کی نشست میں نماز کے طبی، جسمانی، اخلاقی اور روحانی تربیتی اثرات پر گفتگو کرتے ہیں۔ عاجز نے جب بھی اسلام کی تعلیمات پر غور کیا، مجھے اس میں فوائد و ثمرات اور فیوض و برکات کے کئی پہلو نظر آئے ہیں۔
نماز: نماز کو عربی زبان میں الصَّلوٰۃ کہتے ہیں۔ امام راغب اصفہانی کی معروف لغت ’’مفردات القرآن‘‘ میں لفظ صلاۃ پر بڑی مفید گفتگو کی گئی ہے، وہ لکھتے ہیں: ’’الصَّلٰوۃ کے بارے میں بہت سے اہلِ لغت کا خیال ہے کہ اس کے معنی دعا دینے، تحسین و تبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں۔ چنانچہ محاورہ ہے: ’’صَلَّیتُ عَلَیہِ‘‘ میں نے اُسے دعا دی، نشوونما اور برکت کی تمنا کی اور حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ جب کسی کو کھانے پر بلایا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرے، اگر وہ روزہ دار ہے تو (میزبان کے لیے) دعا کرکے واپس چلا جائے۔ قرآن حکیم میں ہے:
خُذْ مِنْ أَمْوَٰلِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَوٰتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ(التوبۃ:103)
’’(اے نبیؐ)! آپ ان کے (یعنی مسلمانوں کے) مالوں میں سے صدقہ لے لیجیے جس کے ذریعے آپ ان کا تزکیہ فرمائیں (یعنی طہارتِ نفس) اور ان کے لیے دعا کیجیے،بلاشبہ آپ کی دعا، ان کے لیے موجب اطمینان ہے اور اللہ خوب سنتا اور جانتا ہے‘‘۔
اس آیت کے ذیل میں حافظ صلاح الدین یوسف لکھتے ہیں:
’’یہ حکمِ عام ہے، صدقہ سے مراد فرضی صدقہ یعنی ’’زکوٰۃ‘‘ بھی ہوسکتی ہے اور نفلی صدقہ بھی۔ نبیؐ کو کہا جارہا ہے کہ اس کے ذریعے سے آپ مسلمانوں کی تطہیر اور ان کا تزکیہ فرمادیں، جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ زکوٰۃ و صدقات انسان کے اخلاق و کردار کی طہارت و پاکیزگی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں (غربا و مساکین کی خدمت سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے)، علاوہ ازیں صدقے کو صدقہ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خرچ کرنے والا اپنے دعوائے ایمان میں صادق ہے، دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ صدقہ وصول کرنے والے کو صدقہ دینے والے کے حق میں دعائے خیر کرنی چاہیے جس طرح یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبرؐ کو حکم دیا ہے اور آپؐ دعا فرمایا کرتے تھے۔ اس حکم کے عموم سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ زکوٰۃ کی وصولی امامِ وقت کی ذمہ داری ہے، اگر کوئی اس سے انکار کرے تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور صحابہ کرامؓ کے طرزعمل کی روشنی میں اس کے خلاف جہاد ضروری ہے‘‘۔ (احسن البیان بحوالہ تفسیر ابن کثیر)
نماز اور تزکیہ نفس
قرآن حکیم میں آیا ہے:
قَدۡ أَفۡلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ۝١٤ وَذَكَرَ ٱسۡمَ رَبِّهِۦ فَصَلَّىٰ ۝١(الاعلیٰ: 14،15)
’’(دنیا و آخرت میں) فلاح پاگیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا اور پھر نماز پڑھی‘‘۔
آیات ِمبارکہ کی ترتیب واضح اور روشن ہے۔ نماز جیسی قیمتی عبادت سے پہلے ضروری ہے کہ انسان اپنے دل کو قرآن و سنت کی روشنی میں تمام رذائل سے پاک و صاف بنالے… جن میں سرفہرست شرک و کفر، حسد و بغض، مکرو فریب، خیانت اور بددیانتی اور اسی قبیل کے دوسرے رذائل ہیں۔ تمام رذائل سے بچ کر قرآن و سنت کے مطابق تمام فضائل سے اپنے آپ کو آراستہ کرلیا جائے جیسا کہ صدق و امانت داری، زبان اور دل کی سچائی، شرم و حیا، ایثار و ہمدردی وغیرہ، تو دن رات میں پانچ مرتبہ ایسی نماز پابندی کے ساتھ ادا کرنے سے تمام گناہ دھل جاتے ہیں۔ اس حدیث ِمبارکہ پر غور کیجیے:
’’سیدنا ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کو فرماتے ہوئے سنا: بھلا یہ تو بتلائو کہ اگر کسی کے دروازے پر نہر ہو اور وہ روزانہ پانچ مرتبہ اس میں غسل کرتا ہو، تو کیا اس کے جسم پر میل کچیل باقی رہے گی؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: بالکل نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’یہی مثال پنجگانہ نماز کی ہے، اسی کے ذریعے اللہ تعالیٰ تمام خطائیں معاف کردیتا ہے‘‘۔ (ریاض الصالحین، باب فضل الصلوٰۃ)
nn