کیا جانیے کب، کس نے اور کیوں یہ فقرہ کس دیا کہ ’’ہم قوم نہیں ہجوم ہیں‘‘۔
بس یہ فقرہ کس دینے کی دیر تھی… قوم کی قوم، ہجوم در ہجوم بے سوچے سمجھے یہی فقرہ رٹنے لگی۔ صاحبو! جب سے سب کچھ زبانِ غیر میں پڑھایا جانے لگا ہے، تب سے سب ہی رَٹُّو طوطے بن گئے ہیں۔ ایک نسل کی نسل ایسی تیار کردی گئی ہے کہ بقول رحمٰن کیانی، جس کے:
ذہن میں غیروں کی باتیں، منہ میں مانگے کی زباں
اس پہ دعویٰ یہ کہ صاحب ہم بھی فرزانوں میں ہیں
یہ دعوے دار فرزانے خواہ خود جانیں یا نہ جانیں، باقی سب جانتے ہیں کہ ہماری قومی زبان میں ’ہجوم‘ ایک وقتی چیز کا نام ہے۔ ابھی تھا، اب نہیں ہے۔ ’ہجوم‘ کے معنی ہیں ’اچانک آجانا، ناگاہ حملہ کردینا، چڑھائی کرنا یا ٹوٹ پڑنا‘۔ ان معنوں میں اُردو ترکیب ’ہجوم کرنا‘ استعمال کی جاتی ہے۔ مثلاً ’غموں نے ہجوم کیا‘ یا ’وسوسوں نے ہجوم کردیا‘۔ غالبؔ کا مصرع ہے:
ہجومِ فکر سے دل مثلِ موج لرزاں ہے
اہلِ فارس نے ’ہجوم‘ کو ’بھیڑ بھاڑ، مجمع یا انبوہِ کثیر‘ کے معنوں میں استعمال کیا۔ سو، ان معنوں کو اُردو نے بھی اختیار کیا۔ مثلاً امیرؔ مینائی اپنی قبر میں لیٹے لیٹے اپنی کسی برسی پر اپنے دوستوں سے گلہ کرتے سنائی دیتے ہیں:
کمال احباب سے ہے شکوہ، کیا نہ عُرس ایک دن ہمارا
سرِ لحد ہی ہجوم ہوتا کبھی حسینانِ مہ جبیں کا
امیرؔ جانتے تھے کہ ہجوم کبھی کبھی ہی ہو سکتا ہے، مستقل نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح اقبالؔ بھی خود سوال کرکے خود ہی جواب دیتے ہیں:
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیرِ مغاں ہے مردِ خلیق
القصہ ہجوم ہمیشہ برقرار نہیں رہتا۔ کبھی ہوجاتا ہے۔ کبھی کردیتے ہیں اشک و آلام و تفکرات وغیرہ۔ بالآخر ہجوم چَھٹ ہی جاتا ہے۔
اب ’قوم‘ کے لفظ کا شجرۂ نسب بھی کھنگال لیتے ہیں تاکہ جب ہم کوئی لفظ استعمال کررہے ہوں تو اس کے پورے پس منظر سے واقف ہوں۔ عربی لغت میں ’’قَامَ، یَقُوْمُ، قَوْماً، قِیَاماً و قَامَۃً‘‘ کے الفاظ کا مفہوم کھڑا ہونا یا ٹھہرنا لیا جاتا ہے۔ ’قُمْ بِاِذْنِ اللہ‘ کا مطلب ہے’اللہ کے حکم سے اُٹھ کر کھڑے ہوجاؤ‘۔ کھڑے رہنے کو ’قیام‘ کہتے ہیں اور کھڑے ہونے کی جگہ کو ’مقام‘ کہتے ہیں۔ جو کھڑا ہو یا کھڑا رہے اُسے ’قائم‘ کہا جاتا ہے۔ قائم کرنا، قائم ہونا اور قائم رہنا اِنھیں معنوں میں ہے۔ ہمارے ہاں ‘Standing Committee’ کو ’مجلسِ قائمہ‘ کہا جاتا ہے۔ مضبوطی سے جم کر اور سیدھے کھڑے رہنے کو ’استقامت‘ کہتے ہیں۔ جو ہمیشہ سے قائم ہے، ہمیشہ قائم رہے گا اور جس کے سہارے سب کچھ قائم ہے اُس ذاتِ پاک کا ایک اِسمِ حَسن ’القیّوم‘ ہے۔ نظم و نسق قائم کرنے والے اور قائم رکھنے والے نگہبان شخص یا محافظ کو ’قوّام‘ اور’قیّم‘ کہتے ہیں۔ اوپر عرض کیا تھا کہ کھڑے رہنے کی حالت ’قیام‘ کہلاتی ہے، تو مجازاً کہیں ٹھہر جانے یا بس جانے کو بھی ’قیام کرنا‘ کہا جاتا ہے۔ ایسی جگہ کے لیے اُردو میں ’قیام گاہ‘ کی ترکیب رواج پا گئی ہے۔ قیام سفر کی ضد ہے۔ منیرؔ نیازی کہتے ہیں:
بہت قیام کی خواہش سفر میں آتی ہے
’قیامت‘ وہ دن ہے کہ سب کے سب اپنی اپنی قبروں سے یکایک اُٹھاکر کھڑے کردیے جائیں گے۔ جانے کب تک کھڑے رکھے جائیں۔ ’اِقامت‘ کے معنی بھی کھڑے ہونے، ٹھہرنے اور قرار حاصل کرنے کے ہیں۔ فرض نماز کے لیے کھڑے ہونے کے وقت جو کلمات کہے جاتے ہیں اُنھیں بھی اصطلاحاً ’اِقامت‘ ہی کہا جاتا ہے۔ کھڑے شخص کا جو قد نظر آتا ہے وہ ’قامت‘ ہے۔ رکوع سے اُٹھ کر کھڑے ہونا ’قومہ‘ہے۔ تو اے صاحبو! ’قوم‘ کا لفظ بھی اسی قبیل سے ہے۔ مطلب وہ لوگ جو ساتھ کھڑے ہوں اور ساتھ کھڑے رہیں۔
مختلف انسانی گروہ مختلف بنیادوں پر کھڑے ہوکر ایک قوم بناتے ہیں۔ کبھی نسل، خاندان اور قبیلے کی بنیاد پر۔ کبھی گورے، کالے اور پیلے رنگ کی بنیاد پر۔ کبھی کرۂ ارضی کے جغرافی خطوں کی بنیاد پر۔کبھی مختلف خطوں میں بولی جانے والی مختلف زبانوں کی بنیاد پر۔ اور آج کی جدید ’مہذب‘ دنیا میں وطنیت یا ریاست کی بنیاد پر۔ قوم یا قومیت کی یہ تمام بنیادیں تسلیم کی جاتی ہیں۔ ان سے انکار ممکن نہیں۔
مگر قومیت کی یہ بنیادیں بنی نوعِ انسان کو ’تقسیم‘ کرتی ہیں، ان میں ’تفریق‘ پیدا کرتی ہیں، اور ان کے اندر ’تعصب‘ کے جذبات کو جنم دیتی ہیں۔ نوعِ انسانی میں باہمی محبت، اخوت اور وحدت پیدا کرنے کا سبب نہیں بنتیں۔
قرآن نے پوری بنی نوعِ انسان کو ’نفسِ واحدہ‘ کی اولاد قرار دیا۔ سب کو ’بنی آدم‘کہا۔ رنگ، نسل، شعوب اور قبائل کو تعارف یا پہچان کے لیے ’شناختی علامات‘ میں شمار کیا۔ برتری زُہد و تقویٰ کو دی۔ کسی بھی رنگ، نسل، زبان یا علاقے سے ایمان لانے والوں کو باہم ’بھائی بھائی‘ ٹھہرایا۔ ایرانی النسل، فارسی زبان بولنے والے حضرت سلمانؓ کے متعلق، عربی النسل، قریشی، ہاشمی و مُطّلبی، سیدنا علیؓ فرمایا کرتے تھے کہ ’’سلمان منا اھل البیت‘‘ سلمانؓ ہم اہلِ بیت میں سے ہیں۔الغرض اسلام نے ایسی’ قومیت‘ تشکیل دی جس نے دنیا کے تمام انسانوں کو وحدتِ ایمانی کی واحد لڑی میں پرو دیا۔اسی وجہ سے اقبالؔ نے’قومیت‘ کے مغربی تصورات کو مسترد کرتے ہوئے کہا:
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ
دنیا میں دو عالمی جنگوں کے بعد ہونے والی بندر بانٹ نے قومِ رسولِ ہاشمیؐ کو بھی ’وطنی قومیتوں‘ کے چھوٹے چھوٹے خانوں میں بانٹ دیا۔ مگر آج بھی دنیا کے کسی خطے، کسی نسل، کسی رنگ اور کسی بھی لسانی گروہ سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص اگر اپنے آپ کو صرف اور صرف اللہ وحدہٗ لاشریک کا بندہ کہتا ہے اور صرف و صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کا اُمتی ہونے کا دعوے دارہے تو وہ ہماری قوم کا فرد ہے۔ ہمارا اُس کا سب کچھ ایک ہے، رہن سہن، تہذیب، تمدن اور ثقافت۔ ہمارے بچے پیدا ہوتے ہیں تو ہم اُن کے دائیں کان میں اذان کہتے ہیں اور بائیں کان میں اقامت۔ اُن کا عقیقہ کرتے ہیں۔ نکاح کا طریقہ ایک ہے۔ کس سے نکاح ہوسکتا ہے، کس سے نہیں، قانون ایک ہے۔ کیا کیا کھا پی سکتے ہیں، کیا نہیں کھا سکتے، کیا نہیں پی سکتے، ہمارے حلال و حرام ایک ہیں۔ دائیں ہاتھ سے کھانا اور بسم اللہ پڑھ کر کھانا ہماری قوم کا مشترکہ عالمی شعار ہے۔ کچھ مشترک کلمات ایسے ہیں جو محلِّ استعمال کے مطابق ہر زبان بولنے والا مسلمان بولتا ہے، سلام، الحمدللہ، سبحان اللہ، ماشاء اللہ، اللہ اکبر، جزاک اللہ اور صلی اللہ علیہ وسلّم وغیرہ۔ ہماری عائلی زندگی یکساں ہے۔ گھریلو ماحول ایک سا ہے۔ مرد و زن کی مقررہ حدود ایک جیسی ہیں۔ لباس، ستر اور حجاب کے معاملات مشترک ہیں۔ رمضان کے مہینے میں تو ہم سب کا سونا، جاگنا اور کھانے پینے کے اوقات کا تعین پوری دنیا میں بالکل ایک طرح کا ہوجاتا ہے۔ ہماری خوشیاں اورغم ایک ہیں۔ ہم ایک ہیں۔
تمام تر تفرقے بازی کے باوجود وطنِ عزیز پاکستان میں بھی ایک حرفِ شیریں (محمد صلی اللہ علیہ وسلّم) نے مختلف علاقوں، نسلوں، رنگوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والوں کو ایک ’قوم‘ کے رشتے میں پرو دیا ہے۔ ہم کوئی وقتی اور عارضی ہجوم نہیں ہیں۔ ہم ایک ’قوم‘ ہیں۔ قومِ رسولِ ہاشمیؐ۔