سیّد روح الامین بن سید کرامت علی ایم اے بی ایڈ گجرات میں 17 اپریل 1970ء کو پیدا ہوئے۔ روزنامہ نوائے وقت میں مستقل کالم بعنوان ’’برسرِ مطلب‘‘ چودہ سال سے لکھ رہے ہیں۔ نفاذِ اردو کے علَم بردار ہیں۔ ان کے قلم سے درج ذیل کتب منصۂ شہود پر آئیں۔
’’اربعینِ رضویہ‘‘، ’’پانچ دریا‘‘، ’’اردو ہے جس کا نام‘‘، ’’اردو ایک نام محبت کا‘‘، ’’اردو بطور ذریعۂ تعلیم‘‘، ’’اردو لسانیات کے زاویے‘‘، ’’اردو کے لسانی مسائل‘‘، ’’اردو… تاریخ و مسائل‘‘، ’’اقبال… شاعری اور فکر و مقام‘‘، ’’اردو کے دھنک رنگ‘‘، ’’اقبال… فکر و فن‘‘، ’’برسرِ مطلب‘‘، ’’طیف نظر‘‘، ’’ہماری اردو ہمارا پاکستان‘‘، ’’اردو جو نہیں تو کچھ بھی نہیں‘‘
ان کی تحسین اور خدمات کے اعتراف میں لکھی گئی کتب میں ’’کتابِ سپاس‘‘ سارہ عنبر، ’’سید روح الامین… گنجینۂ زبان و ادب‘‘ عشرت لقمان، ’’سید روح الامین… لسانی و ادبی تناظر‘‘ ثمینہ رشید، ’’روحِ اردو… سید روح الامین‘‘ چودھری رفاقت علی، ’’فرزندِ اردو سید روح الامین‘‘ ڈاکٹر شبیر احمد قادری (زیر نظر کتاب) شامل ہیں۔
سید روح الامین خوش قسمت ہیں کہ ان کی جدوجہد کے قدردان ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر سید معین الدین، ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر رشید امجد، پروفیسر فتح محمد ملک اور ان جیسے سیکڑوں اہلِ علم و ادب ہیں جنہوں نے ان کی توصیف و تحسین کی ہے۔
یہاں ہم ڈاکٹر جمیل جالبی مرحوم کی گراں قدر رائے اور تجزیہ درج کرتے ہیں جو انہوں نے ’’اردو بطور ذریعہ تعلیم‘‘ پر تحریر کیا، جو کتاب کا حصہ ہے:
’’سید روح الامین پاکستان کے ادبی و تہذیبی مسائل سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور اسی لیے اپنی ہر نئی کتاب تالیف یا مرتب کرتے ہوئے ایسے ہی مسائل پر توجہ دیتے ہیں جن سے پاکستان میں اپنے مسائل کو سمجھنے کا شعور پیدا ہو۔ اس ضمن میں سید روح الامین کی دو کتابیں ’’اردو ہے جس کا نام‘‘ اور ’’اردو، ایک نام محبت کا‘‘ شائع ہوئی ہیں، جنہیں خاصی مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ اب سید روح الامین ’’اردو بطور ذریعۂ تعلیم‘‘ کے حوالے سے اپنی تالیف لے کر اقلیم ادب میں وارد ہوئے ہیں۔ پاکستان میں ذریعۂ تعلیم ایک بنیادی مسئلہ ہے جس پر انہوں نے سلیقے سے مرتب کی ہوئی زیر نظر کتاب میں توجہ دی ہے۔
وہ قومیں جو تعلیم کے لیے کسی بیرونی زبان کو بطور ذریعۂ تعلیم استعمال کرتی ہیں ہیشہ گھاٹے میں رہتی ہیں۔ آپ ساری دنیا کے کسی ایک ملک کا نام نہیں لے سکتے جہاں ذریعۂ تعلیم کوئی غیر زبان ہو اور وہاں شرح خواندگی سو فیصد ہو۔ اس طرح آپ کسی ایک ملک کا نام بھی نہیں بتاسکتے جہاں ذریعۂ تعلیم کوئی غیر زبان ہو اور وہ ملک حقیقی معنوں میں ترقی کرکے دنیا کے صفِ اوّل کے ممالک میں شامل ہوگیا ہو۔
ذریعۂ تعلیم کے معنی یہ ہیں کہ آپ بچے یا طالب علم کو ایک ایسی زبان کے ذریعے تعلیم دیں کہ وہ بغیر کسی الجھن کے اسے سمجھ لے اور اس طور پر سمجھ لے کہ نہ صرف اس میں علم کا شوق پیدا ہو بلکہ اس کی تخلیقی صلاحیتیں بھی بیدار ہوجائیں۔ وہ قومیں جن کے ہاں اُن کی اپنی زبانیں بطور ذریعہء تعلیم استعمال ہوتی ہیں وہاں جماعت میں بچے بے دھڑک ہوکر استاد سے طرح طرح کے سوالات پوچھتے ہیں، لیکن جہاں کوئی غیر زبان ذریعۂ تعلیم کے طور پر استعمال ہوتی ہے وہاں طلبہ زبان کی اجنبیت کی وجہ سے اپنی بات کو بیان کرنے میں جھجھک محسوس کرتے ہیں، اس لیے اُس علم کے بنیادی تصورات بھی اُن کے ذہن میں صاف نہیں ہوتے جو وہ حاصل کررہے ہیں، اور وہ عام طور پر رٹ کر اپنا کام چلالیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور پر ہمارے طلبہ کی ذہانت پروان چڑھنے کے بجائے ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔ دنیا کے ماہرین متفقہ طور پر جس نتیجے پر پہنچے ہیں وہ یہی ہے کہ کسی قوم کا ذریعۂ تعلیم صرف اور صرف وہاں کی اپنی زبان یا زبانیں ہونی چاہئیں۔ ہمارے ہاں صورتِ حال اس کے برعکس ہے اور اسی وجہ سے جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، ہماری تعلیم کی حالت دگرگوں ہے۔ جس قوم کی تعلیم زبوں حالی کا شکار ہو اُس کی ترقی بھی مشکوک و معدوم ہوجاتی ہے۔ دراصل ذریعۂ تعلیم کا مسئلہ ہمارے ہاں طبقاتی کشمکش کا مسئلہ بن گیا ہے۔ ہمارا طبقۂ خواص جو مجموعی آبادی کا ایک یا زیادہ سے زیادہ دو فیصد ہے، نہیں چاہتا کہ عوام تعلیم یافتہ ہوکر اس کی جگہ لے لیں۔ اس لیے اُس نے ہمیشہ تعلیم کو انگریزی زبان کے ’’ذریعے‘‘ دینے پر زور دیا ہے۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے اور اب پھر کہتا ہوں کہ ہر پاکستانی کو ایک بیرونی زبان آنی چاہیے اور خوب اچھی طرح آنی چاہیے، لیکن اس زبان کو ذریعۂ تعلیم بناکر ہم نہ تعلیم کی شرح بڑھا سکتے ہیں اور نہ تعلیم سے وہ مطلوبہ نتائج حاصل کرسکتے ہیں جن کی ہم خواہش کرتے ہیں۔ مجھے صرف اسی بات پر زور دینا ہے کہ انگریزی زبان کو آپ بطور ایک زبان کے پڑھایئے اور ضرور پڑھایئے لیکن اسے ذریعۂ تعلیم ہرگز نہ بنایئے۔ گزشتہ ساٹھ سال کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ انگریزی کو ذریعۂ تعلیم بناکر ہم نے کسی شعبۂ زندگی میں ایک بھی ’’بڑا آدمی‘‘ پیدا نہیں کیا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اب ہم نصابات بھی وہی پڑھا رہے ہیں جو امریکہ اور برطانیہ کے طلبہ کے لیے لکھے گئے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ تعلیم کے ذریعے ہم روز بروز اپنے معاشرے میں ’’اجنبیوں‘‘ کا اضافہ کررہے ہیں۔ وہ اجنبی جن کا تعلق اپنے معاشرے، اپنی تاریخ اور اپنی ثقافت سے نہایت کمزور ہوگیا ہے اور جو اس معاشرے کو چھوڑ کر امریکہ و برطانیہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ عمل بذاتِ خود ایک خطرناک منزل کی طرف ہمیں لے جارہا ہے۔
میں اس اہم موضوع پر ایک مفید کتاب مرتب کرنے پر سید روح الامین کو دلی مبارک باد دیتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ اس سلسلے کو جاری رکھ کر ملک و قوم کی اسی طرح بیش بہا خدمت انجام دیتے رہیں گے‘‘۔
پروفیسر ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار صاحب لکھتے ہیں:
’’کسی ملک نے بھی کسی غیر ملکی زبان کو اپنے اعصاب پر سوار نہیں کیا ہوا۔ کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ انگریزی کے بغیر ہمارا ملک چل ہی نہیں سکتا۔ یہ انگریز کے سامراجی دور کا فیضان ہے کہ اُس کے اقتدار کا آفتاب تو گہنا گیا مگر اُس نے اپنی قومی زبان اور کلچر کی حفاظت کے لیے جہاں جہاں پیش بندیاں کیں وہ اُس کے کام آرہی ہیں، اور اس کی حفاظت کے لیے ہمارے ہاں ایک ہراول دستہ انگریزی کا پرچم اٹھائے انگریز سے زیادہ انگریزی سے وفا کا عہد باندھے ہوئے ہے۔ غیر ممالک والے شک کی نظروں سے ہمیں دیکھتے ہیں کہ ہم کس کے وفادار ہیں۔ اس انگریزی نواز طبقے کی پیدا کردہ مصنوعی رکاوٹوں کے باوجود اردو ترقی کررہی ہے کیونکہ یہ ایک فطری زبان ہے۔ اس کی جڑیں اس ملک میں، اس خطے میں اور اس کے عوام میں ہیں۔ اردو کے ادبی و علمی سرمائے میں اضافہ ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا، ہم اس سے فائدہ نہیں اٹھا رہے تو یہ ہماری کوتاہی ہے۔ اردو کو ہمارے سہارے کی اتنی ضرورت نہیں جتنی ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ دستور اسی ضرورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے بنایا جاتا ہے، اگر اسے نافذ نہ کیا جائے تو پھر فتنے جنم لیتے ہیں۔ آج ہمیں سب سے زیادہ ضرورت قومی یک جہتی کی ہے اور اس کی کلید قومی زبان ہے‘‘۔
ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی تحریر فرماتے ہیں:
’’جو قومیں اپنی زبان سے ناآشنا ہوتی ہیں وہ کبھی ایسا کارنامہ علمی، ذہنی یا فطری پیش نہیں کرسکتیں جن پر انہیں فخر ہو۔ نقل کرنے والوں میں کبھی عقل پیدا نہیں ہوتی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عقل پر زور ہی نہیں پڑتا… تمام ایسے ممالک جہاں اپنی زبان کو صحیح استعمال نہیں کیا جاتا، وہاں خیالات کی ایسی پستی پائی جاتی ہے کہ دماغ کبھی ترقی نہیں کرتے بلکہ دماغوں کی ترقی بند ہوجاتی ہے۔ وہ ایسے درختوںکی طرح ہوتے ہیں کہ جنہیں نہ دھوپ ملے نہ ہوا۔ جو ٹھٹھر کر مر جاتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری رقم طراز ہیں:
’’ملک کے تمام سائنس دانوں اور علمی و ادبی کام کرنے والوں کی رائے بالعموم یہی ہے کہ تعلیم کے سارے مدارج میں ملک کی مقبول ترین اور قومی زبان اردو کو ذریعہ تعلیم ہونا چاہیے۔ جب تک ایسا نہ ہوگا ہماری قوم میں نہ علمی نقطہ نظر پیدا ہوگا اور نہ وہ سائنسی علوم سے حقیقی دلچسپی کا اظہار کرسکے گی‘‘۔
جناب سید روح الامین فرماتے ہیں:
’’تاریخ شاہد ہے کہ خود انگلستان میں ترقی کی ابتدا اُس دن سے ہوئی جس دن سے انجیل کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا۔ اگر چھوٹی سی کتاب کے ترجمے سے اتنی روشنی پھیل گئی تو اندازہ لگایئے کہ اگر پورے علوم اپنی قومی زبان اردو میں منتقل ہوجائیں تو اس سے کتنے مفید نتائج برآمد ہوں گے۔ اگر ہم اپنی ثقافت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اور دنیا کی زندہ اور باشعور قوموں کی صف میں اپنا نام رقم کروانا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی زندگی کے ہر شعبے میں دنیا کی دوسری باشعور قوموں کی طرح اپنی قومی زبان اردو کو عملی طور پر نافذ کرنا ہوگا، اور یقین جانیے کہ ہماری بقا اور ہم آہنگی کا راز اسی میں مضمر ہے۔ یہ تھے وہ بنیادی محرکات جو ’’اردو ہے جس کا نام‘‘ کی ترتیب و تدوین کا باعث بنے‘‘۔
کتاب مجلّد ہے۔ سفید عمدہ کاغذ پر خوب صورت طبع ہوئی ہے۔ سادہ رنگین سرورق سے آراستہ ہے۔