شمس الرحمٰن فاروقی دنیائے ادب کی ایسی عہد ساز شخصیت ہیں جن کے تخلیقی کام اور امتیازات کا ہر سطح پر اعتراف کیا گیا۔ ہندوستانی حکومت کی جانب سے انہیں ’’پدم شری‘‘ اور حکومت پاکستان کی طرف سے ’’ستارہ امتیاز‘‘ جیسا بڑا ایوارڈ دیا گیا۔ وہ نہ صرف خوبصورت شاعر، نقاد، دانشور اور ’شب خون‘ جیسے رجحان ساز رسالے کے مدیر تھے بلکہ سب سے بڑھ کر ایسے ناول نگار تھے جنہوں نے اپنے فن پارے کو تہذیبی مرقع بناکر اس صنف پر امکانات کے نئے افق کھول دیے۔ شمس الرحمٰن فاروقی ۱۵ جنوری ۱۹۳۶ء کو پرتاب گڑھ، یوپی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ علم و فضل کی قدیم روایت اپنے بزرگوں سے وراثت میں پائی۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے ۱۹۵۳ء میں انگریزی میں ایم اے کیا۔ مقابلے کا امتحان پاس کرکے اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز رہے۔ ادبی رسالہ ’’شب خون‘‘ نکالا اور کئی نسلوں کے ادیبوں کی تربیت کی۔ شمس الرحمٰن فاروقی ’’گنج سوختہ‘‘، ’’سبز اندر سبز‘‘، ’’چار سمت کا دریا‘‘، ’’آسماں محراب‘‘، ’’سوار اور دوسرے افسانے‘‘، ’’افسانے کی حمایت میں‘‘، ’’لفظ و معنی‘‘، شعر شور انگیز‘‘، ’’عروض، آہنگ اور بیان‘‘، ’’اردو غزل کے اہم موڑ‘‘، ’’ہمارے لیے منٹو صاحب‘‘، ’’قبض زماں‘‘ اور زیر نظر شاہکار ناول ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ کے مصنف تھے جو ۲۵ دسمبر ۲۰۲۰ء کو اس دارِفانی سے کوچ کرگئے۔
معروف نقاد، ادیب اور معیاری ادبی کتابوں کے ناشر اور اشاعت گھر ’’بک کارنر‘‘ (Book Corner) کے روحِ رواں اور مہتمم اعلیٰ جناب شاہد حمید، شمس الرحمٰن فاروقی کے اس نادر، بے مثل ناول ’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ کے پانچویں اور چھٹے ایڈیشن کے ناشر اور پاکستان میں محترم شمس الرحمٰن فاروقی کے زیرتبصرہ ناول کے اشاعتی حقوق کے مالک ہیں۔ آپ کا اشاعتی ادارہ ’’بک کارنر‘‘ پاکستان کے چند معیاری اشاعت گھروں میں سے ایک ہے اور ناشر گگن شاہد اور امر شاہد ہیں۔
وہ زیرنظر کتاب کے ابتدائیہ ’’اس طرح اچھلتا ہے لہو ساتوں رنگ‘‘ میں محترم شمس الرحمٰن فاروقی کے تعارفی کلمات میں رقم طراز ہیں کہ ’’اردو ادب کی عہد ساز شخصیتوں میں انتہائی محترم، سب سے الگ اور نمایاں مقام رکھنے والی شخصیت شمس الرحمٰن فاروقی کی ہے۔ تحقیق و تنقید، شاعری، افسانوی ادب اور فکشن میں بے مثل کام کرنے والے اور عہد رواں میں اردو ادب کی کئی جہتوں پر اپنے دستخط ثبت کرنے والے فاروقی صاحب دورِ حاضر کے یکتا اور منفرد ادیب، شاعر، نقاد اور محقق ہیں۔ اگرچہ اردو فکشن کی بہترین کتابوں میں امرائو جان ادا کا اپنا ایک منفرد مقام ہے۔ بقول ڈاکٹر اسلم فرخی کے، فاروقی صاحب کا ناول ’کئی چاند تھے سر آسماں‘ اکیسویں صدی ہی کی نہیں بلکہ اردو فکشن کی بھی بہترین کتاب ہے‘‘۔
ناول ’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ کا پس منظر اور تلخیص
یہ ناول انیسویں صدی میں ہند کی اسلامی دنیا اور خصوصاً دلی کی دنیا کا ثقافتی، تاریخی اور وجودی بیانیہ ہے جس نے اس ناول کو ایک یادگار شاہکار ناول بنادیا ہے۔ یہ ناول قاری کو گزرے ہوئے اجداد کے زمانے میں پہنچا دیتا ہے۔ عہد مغلیہ کے اواخر کے ہندوستان کی لفظی تصویر ہے۔ یہ صرف یوسف سادہ کار کی تیسری بیٹی اور نواب مرزا داغ دہلوی کی والدہ وزیر بیگم کی داستانِ حیات ہی نہیں ہے بلکہ اس ناول میں اس عہد کی پوری تہذیب کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔ ناول کی سحر آفریں زبان اور جزئیات نگاری سے قاری اس دنیا میں پہنچ جاتا ہے جس سے وہ باہر نہیں آپاتا اور خودبخود آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس ضخیم ناول کو ختم کیے بغیر نہیں چھوڑتا۔
وزیر بیگم عرف چھوٹی بیگم کا نسب نامہ
یحییٰ کشمیری۔ بشیر النسا
یعقوب ۔ جمیلہ
دائود ۔ حبیبہ
یوسف ۔ اصغری بیگم
انوری بیگم عرف بڑی بیگم
عمدہ بیگم عرف سنبھلی بیگم
وزیر بیگم عرف چھوٹی بیگم
نواب مرزا داغؔ دہلوی
وزیر بیگم کی زندگی میں چار مرد آئے۔ انگریز کیپٹن مارسٹن بلیک، نواب شمس الدین خاں لوہارو فیروزپور جھرکہ، رامپور کے رئیس آغا مرزا تراب علی اور فتح الملک بہادر نواب مرزا سلطان شاہ عرف مرزا فخرو بہادر۔
پہلا ایک بلوے میں مارا گیا۔ دوسرا جذبہ رقابت کی وجہ سے اپنے رقیب انگریز کو قتل کرنے پر پھانسی چڑھ گیا۔ تیسرے کو ایک سفر کے دوران ٹھگوں نے مار کر زمین میں دبا دیا۔ چوتھا ہیضے کا شکار ہوگیا۔ مرزا فخرو بہادر کی موت کے بعد بادشاہ کی ملکہ زینت محل نے اسے محل سے نکال باہر کیا۔ چاروں مردوں نے اسے خوش رکھنے کی بھرپور کوشش کی اور بہت کچھ دیا مگر ان سب کی جدائی کے بعد وہ ہمیشہ پہلے کی طرح خالی رہ جاتی تھی اور آخری شوہر مرزا فخرو بہادر کی موت کے بعد تو کچھ بھی باقی نہ رہا تھا اور وہ قلعہ مبارک کے لاہوری دروازے سے اپنے جذبات سے عاری وجود کے ساتھ رخصت ہوگئی۔ وزیر بیگم اور ان کے شوہر فتح الملک بہادر اور نواب مرزا سلطان شاہ عرف مرزا فخرو بہادر کے اکلوتے صاحبزادے مرزا داغؔ دہلوی کو ملکہ زینت محل نے شاہی محل میں رہنے کی اجازت دیتے ہوئے رکنے کو کہا تھا مگر وہ اپنی والدہ وزیر بیگم کے ہمراہ محل چھوڑ گئے۔
ایک عمدہ ادبی اور تاریخی دستاویز اور بہترین اردو فکشن
شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے جس چابک دستی اور ادیبانہ مہارت سے راجپوتانے سے کشمیر اور سونپور تک کے واقعات، مختلف مزاج کے کرداروں، فنون، عادتوں اور رویوں کو اس کہانی میں سمویا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، اور وزیر بیگم کی کہانی کو ایک عظیم ناول بنادیا ہے جس میں تاریخی، تحقیقی، اسلامی تہذیبی ماضی کو آپس میں جوڑ دیا ہے وہ ان ہی کا حصہ ہے جس کی وجہ سے یہ عظیم ناول عہدِ حاضر میں تکمیل پاکر داد و تحسین حاصل کرتا ہے۔ ناول کے شروع کے تین ابواب میں انہوں نے ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی کی یادداشتوں کے بارے میں تحقیقی مواد حاصل کرکے اپنا بیانیہ پیش کیا ہے۔ چوتھے باب میں ان تحریروں پر مبنی ناول کا متن مرتب کرتے ہیں جو ڈاکٹر وسیم جعفر کے وکیل نے مرنے کے بعد لندن سے بھیجی تھیں اور پھر اگلے باب میں مصنف نے یوسف سادہ کار (وزیر بیگم کے والد) کو اپنا راوی بنالیا۔ سارے قصے کو ہمیں راوی کی نظر سے دکھایا اور سمجھایا ہے اور کمال صبر اور ٹھیرائو کے ساتھ بیانیے کی اپنی جمالیات کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ ایک الگ مزاج کا محض ناول نہیں ہے بلکہ تہذیبی، ثقافتی تاریخ کی ایک عمدہ ادبی دستاویز ہے۔
فاروقی صاحب کا یہ شاہکار ناول سب سے پہلے پاکستان میں شہرزاد کراچی کے مہتمم اور معروف افسانہ نگار آصف فرخی مرحوم نے جنوری ۲۰۰۶ء میں کراچی سے شائع کیا تھا۔ ہندوستان میں اس کا پہلا ایڈیشن جولائی ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا جو پینگوئن گروپ آف انڈیا (Penguin Group of India) نے شائع کیا۔ پاکستان میں دوسرا ایڈیشن بھی آصف فرخی کے ادارے شہرزاد نے ۲۰۱۱ء، تیسرا ایڈیشن ۲۰۱۵ء اور چوتھا ایڈیشن ۲۰۱۸ء میں شائع کیا۔
پانچواں اور چھٹا ایڈیشن بالترتیب اگست ۲۰۲۰ء اور جنوری ۲۰۲۱ء میں شائع ہوئے۔ اس مقبول ناول کا پہلا انگریزی ترجمہ بھی پینگوئن گروپ نے نئی دلی سے ۲۰۱۳ء میں شائع کیا۔
غیرمعمولی تنقیدی صلاحیتوں کے مالک، رواں زمانے میں کئی جہتوں پر عبور حاصل کرکے انتہائی محترم، سب سے الگ اور نمایاں شخصیت شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے اپنے ناول ’’کئی چاند تھے سرآسماں‘‘ کے لیے جو تخلیقی قرینہ چُنا وہ ناول کے بنے بنائے سانچے سے کہیں زیادہ اہم ہوگیا بلکہ اتنا زیادہ اہم کہ یہ محض ناول نہیں رہا بلکہ ایک تہذیبی، ثقافتی اور ادبی دستاویز جیسی عظمت حاصل کرگیا۔ اس ناول کے سب ہی کردار حقیقی، یا فاروقی صاحب کے زرخیز اور ہرے بھرے تخیل کے تراشے ہوئے فکشن کے کردار سب تاریخی واقعات کی صحت کے ساتھ کہانی کا حصہ بنے۔ شمس الرحمٰن فاروقی صاحب اس تخلیقی کاوش کے بارے میں کتاب کے آخر میں اظہار تشکر کے ضمن میں لکھتے ہیں:
’’یہ بات واضح کردوں کہ اگرچہ میں نے اس کتاب میں مندرج تمام اہم تاریخی واقعات کی صحت کا حتی الامکان مکمل اہتمام کیا ہے لیکن یہ تاریخی ناول نہیں ہے۔ اسے اٹھارہویں، انیسویں صدی کی ہند اسلامی تہذیب اور انسانی اور تہذیبی و ادبی سروکاروں کا مرقع سمجھ کر پڑھا جائے تو بہتر ہوگا‘‘۔
معروف نقاد اور ادیب انتظار حسین کتاب پر بڑی خوبصورتی سے تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’مدتوں بعد اردو میں ایک ایسا ناول آیا ہے جس نے ہندوپاک کی ادبی فضا میں ہلچل مچادی ہے۔ معروف و مستند نقاد اور محقق شمس الرحمٰن فاروقی نے بطور ناول نگار خود کو منکشف کیا ہے اور استثنائی صورت میں تحقیق، تنقید اور تخلیق کو یکجا کیا ہے۔ یہاں ہم تاریخ کو تخلیقی طور پر فکشن کے روپ میں ڈھلتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ”کئی چاند تھے سرآسماں“ ایک الگ طرح کا ناول ہے۔ ہم اسے زوال آمادہ مغلیہ سلطنت کے آخری برسوں کی دستاویز کہہ سکتے ہیں۔ جزئیات پر مکمل مہارت رکھتے ہوئے شمس الرحمٰن فاروقی نے وزیر خانم کی زندگی کو اس درجہ لطافت، نزاکت اور تمام باریک جزئیات کے ساتھ پیش کیا ہے کہ ہمارے سامنے پوری پہلی مسلم تہذیب کے آخری دنوں کی چمک دمک اور برگ و بار کا پورا نقشہ آجاتا ہے اور وزیرخانم کا کردار تنہا اپنی ذات میں اس تہذیب کا مجسم وجود معلوم ہوتا ہے‘‘۔
بالی ووڈ کے معروف اداکار اور پروڈیوسر عرفان خان کو یہ ناول اس قدر بھایا تھا کہ انہوں نے محترم شمس الرحمٰن فاروقی کو خط لکھ کر اس پر فلم بنانے کی اجازت طلب کی تھی اور بعد میں ملاقات بھی کی تھی۔ انہوں نے ایک خط محترم شمس الرحمٰن فاروقی کو لکھا تھا جس میں وہ رقم طراز تھے:
’’میں نے حال ہی میں آپ کی کتاب پڑھی ہے اور مسحور ہوں۔ آپ کے جادو بھرے بیانیے، چمکیلے مگر زوال پذیر دور کی اندرونی و بیرونی داستان نے مجھے گنگ کردیا ہے۔ میری خواہش ہے کہ اسے سنیما اور ٹیلی وژن کے ناظر سے سانجھا کردوں۔ آپ کی کتاب کی خوبصورتی اور روح کو بنائے رکھوں گا۔ میں اس کے لیے آپ کی اجازت چاہتا ہوں‘‘۔
لیکن شومیِ قسمت، عرفان خان کی مختصر زندگی سب کو داغِ مفارقت دے گئی اور عرفان خان کا یہ خواب شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکا۔