”کیا ضروری ہے کہ جیسا آپ کہہ رہے ہیں ویسا ہی ہو؟ ہوسکتا ہے بچہ بالکل ٹھیک ہوجائے دواؤں سے۔“
میرے سامنے بیٹھے والدین حد درجہ حیران اور پریشان تھے، یہ کیسے ممکن ہے کہ بچے میں قدرتی طور پر ایسی خرابی ہو جو پوری زندگی کے لیے ہو!
دراصل میرے پاس ایسے بچے کے والدین بیٹھے ہوئے تھے جو ”ڈائون سنڈروم“ کے مرض میں مبتلا تھا۔
چلیں دوبارہ سمجھتے ہیں اس بات کو۔ میں نے گفتگو دوبارہ شروع کی:
”یہ کروموسوم کا مسئلہ ہے۔ قدرتی طور پر ماں اور باپ دونوں سے 22/22 کروموسوم اور XY کروموسوم بچے میں منتقل ہوتے ہیں۔ اگر ماں باپ XX دیں تو لڑکی پیدا ہوتی ہے، اور اگر والد Y دے تو ماں کا X مل کر لڑکا پیدا ہوتا ہے۔
باقی 22/22 کروموسوم ہماری زندگی کا مکمل نقشہ بناتے ہیں۔ ان 22 کروموسوم میں سے اگر 21 نمبر کے کروموسوم میں تقسیم کے عمل میں کسی وجہ سے خرابی آجائے جس کی وجہ سے وہاں 21 نمبر پر 2 کے بجائے 3 کروموسوم بن جائیں تو یہ بیماری یا کنڈیشن ہوتی ہے جس کو ”ڈاؤن سنڈروم“ کہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے، اس کے بارے میں سائنس دانوں کی کئی رائے ہیں مگر حتمی کوئی رائے نہیں۔ 1866ء میں انگلش ڈاکٹرجان لینگڈن ڈاؤن نے اس کا ذکر کیا اور 100 سال بعد فرنچ ڈاکٹر جیروم لیجیوں نے کروموسوم سے اس کی شناخت کی۔
بہرحال یہ سنڈروم دنیا میں بچوں میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔ میڈیکل کیئر اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے اب ان افراد کی زندگی کا دورانیہ اور اوسط عمر پچاس سال سے بھی زائد دیکھی جارہی ہے۔
بنیادی طور پر ان بچوں میں کئی مسائل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی ذہنی و جسمانی ساخت اور صلاحیت میں عام بچوں کی نسبت بہت فرق ہوتا ہے، یعنی یہ لوگ جسمانی طور پر کمزور اور ذہنی پسماندگی کا شکار ہوتے ہیں۔
ان کے مختلف مسائل کو اگر سمجھیں تو وہ اس طرح ہیں:
ان بچوں کے پٹھے/ عضلات کمزور اور جوڑ زیادہ Flexible ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی گردن دیر سے ٹھیرتی ہے اور بیٹھنے اور چلنے میں خاصی تاخیر ہوتی ہے۔ ڈھیلا سا انداز اسی وجہ سے ہوتا ہے۔
ذہنی طور پر پسماندگی کی وجہ سے… جو کہ ہلکی پھلکی سے درمیانے درجے (Mild to Moderate) کی ہوتی ہے… سیکھنے اور سمجھنے کے عمل میں خاصی دقت ہوتی ہے، ایسے بچے بولنا بھی بہت دیر سے شروع کرتے ہیں اور زبان بھی خاصی دیر بعد اس قابل ہوتی ہے کہ کوئی بامعنی اظہار کرسکیں، اور اس میں بھی ذہن کی رو زیادہ تر بچکانہ ہی ہوتی ہے۔
دل کے مسائل AVSD (Atrioventricular septum defect) اور VSD (Ventricular septum defect)خاصے ہوتے ہیں، اس کے علاوہ دل کے دیگر مسائل بھی ایسے بچوں میں ہوتے ہیں،جس کی بنیاد پر ماہرین کی رائے ہےکہ ہر ایسے بچے کا جس پر ڈاؤن سنڈروم کا شبہ ہو، ایکو کارڈیو گرام ضرور ہونا چاہیے، تاکہ بروقت علاج سے زندگی کو بہتر بنایا جاسکے۔
اس قسم کے بچے خون کے امراض میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں اور شروع میں ان کے خون کے ٹیسٹ میں سفید ذرات زیادہ ملتے ہیں، اور اس کی وجہ بعض اوقات اینٹی بایوٹک ادویہ کا بلا وجہ استعمال ہوتا ہے، اور ڈاؤن سنڈروم بچوں میں خون کا کینسر دیگر بچوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔
آنتوں کے مسائل بھی خاصی بڑی تعداد میں ہوتے ہیںجیسے کہ بڑی آنت میں اعصاب کے مسائل (Hirschsprung Disease) ،چھوٹی آنت میں رکاوٹ وغیرہ۔
اس کے علاوہ بھی غدود کے مسائل.. ناک، کان، حلق کے مسائل.. آنکھوں کے مسائل.. ہڈیوں کے بھربھرے پن کے مسائل۔
غرض 21 نمبر کروموسوم 3 ہونے کی وجہ سے جب قدرتی نظام کا توازن برقرار نہیں رہتا تو جسم کے ہر حصے، فعل، اور پہلو میں مسائل ہوتے ہیں۔
یہ ساری باتیں اپنی جگہ…ہم معلوم کیسے کرتے ہیں کہ اس بچے میں یہ مسئلہ ہے؟
پیدائش سے پہلے الٹراسائونڈ کے ذریعے کچھ معلومات حاصل ہوتی ہیں، جیسے بچے کی گردن کی جلد کی موٹائی، ماں کے جسم سے حاصل خون میں ایسٹروجن کی مخصوص مقدار، AFP، اور جدید سائنس میں ماں کے پیٹ سے حاصل شدہ مواد کا جینیاتی معائنہ وغیرہ۔
اس سے ہٹ کر بچے کی پیدائش کے بعد پہلا چیک اَپ جو کہ بہت تفصیلی اور نوزائیدہ بچوں کے ماہر کی زیر نگرانی ہوتا ہے، اس میں وہ مخصوص علامات جو کہ اس ڈاؤن سنڈروم کے ساتھ عموماً ہوتی ہیں، مثلاً ہاتھ میں ایک سیدھی لکیر (Simon Crease)، گردن کی جلد کی موٹائی، آنکھیں بادامی اور اوپر کی طرف کنارے (Upslanted)، ناک کی ہڈی دبی ہوئی، کانوں کی لو آنکھوں کے کناروں سے نیچے، پاؤں کے انگوٹھے اور پہلی انگلی میں زیادہ فاصلہ، ڈھیلا لجلجا سا بچہ، یعنی اس کے عضلات میں ڈھیلا پن، گول چہرہ، زبان باہر نکلی ہوئی۔
اچھا، ان میں سے بہت ساری علامات دیگر بیماریوں میں بھی نظر آتی ہیں اس لیے کوئی ایک علامت اس ڈاؤن سنڈروم کی مخصوص علامت نہیں، اور اس کا واحد ٹیسٹ جس کے ذریعے اس کی تشخیص کی جاتی ہے وہ صرف اور صرف کروموسوم کا معائنہ ہے جس کو Karyotyping کہا جاتا ہے۔ اس سے ہٹ کر سب شبہات ہیں۔ کنفرم صرف جینیاتی معائنے سے ہوتا ہے۔
فی الحال اس کا مستقل یا شافی علاج کوئی نہیں۔ مختلف ماہرین کی خدمات حاصل کرکے ٹیم پریکٹس کے ذریعے ان بچوں کی زندگیوں کو بہتر اور انہیں ٹریننگ دے کر معاشرے کا مفید شہری بنایا جاسکتا ہے۔