حیدرآباد واقعہ:پولیس خاموش تماشائی، حکومتی اداروں کی بے حسی

ہفتۂ رفتہ حیدرآباد سندھ میں ایک نوجوان کے قتل اور اس کے تین ساتھیوں کے زخمی ہونے کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا اور اس کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اور اسے قطعی غلط رنگ دے کر جس طرح سے مخصوص ذہنیت کے معدودے چند فتنہ پرست، موقع پرست اور شرپسند عناصر نے ردعمل کے طور پر سندھ بھر میں بے خوف و خطر ہنگامہ آرائی کی کوشش کی، ایک خاص زبان بولنے والی برادری کے افراد کو بلاسبب ہی قانون کو ہاتھوں میں لے کر ان کی دکانوں، ہوٹلوں وغیرہ پر جاکر ہراساں اور تنگ کیا، ان کے کاروبار کو بند کراکے آئندہ اسے کھولنے کی صورت میں اس کے مالکان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں، اور اس سارے مکروہ عمل کی وڈیو کلپس بناکر انہیں بذریعہ سوشل میڈیا پروائرل کیا، اور پھر اس کے ردعمل کے طور پر جس طرح سے دیہی سندھ سے ژوب بلوچستان، سہراب گوٹھ کراچی اور سپرہائی وے کے مقامات پر متاثرہ برادری کے شرپسند حامیوں نے ٹرانسپورٹ کو روک کر عام بے گناہ مسافروں کو گاڑیوں سے اتارکر انہیں بلاوجہ ہی خوف زدہ اور ہراساں کیا، اس پر جتنا بھی اظہارِ مذمت اور افسوس کیا جائے، کم ہے۔ اور اس سے بھی کہیں زیادہ دکھ، افسوس اور بے حد تشویش کی بات یہ ہے کہ اس سارے عرصے میں حکومتِ سندھ، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بالکل غیر فعال، غیر متحرک دکھائی دیئے۔ بظاہر یہ لگ رہا تھا کہ بدامنی اور انتشار پھیلانے کے لیے باقاعدہ کوئی پلاننگ کی گئی ہے اور مخصوص مقاصد کے حصول تک شرپسندوں کو فتنہ کرنے اور ہنگامہ آرائی کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے، لیکن جب عوامی سطح پر اس لاقانونیت اور ہنگامی آرائی کے عمل کے خلاف احتجاج اور سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر حکومتی اداروں کی بے حسی اور خاموش تماشائی بننے پر سخت تنقید کا سلسلہ شروع ہوا تو حکومتِ سندھ، پولیس اور سیکورٹی فورسز کو چاروناچار متحرک ہونا پڑا، اور انہوں نے دونوں جانب کے شرپسند عناصر کی ہنگامہ آرائی اور فتنہ پردازی کو روکنے کے لیے کارروائی کرنا شروع کردی۔

ہوا کچھ یوں کہ پیر اور منگل کی درمیانی شب کو حیدرآباد نیو سعید آباد کا رہائشی نوجوان بلاول کاکا اپنے تین ساتھیوں کے ہمراہ وادھوواہ حیدرآباد میں واقع نیو سپر سلاطین ہوٹل میں کھانا کھانے کی غرض سے آیا۔ کھانا کھانے کے دوران اس نوجوان اور ہوٹل مالک کے مابین کسی بات پر تلخ کلامی ہوگئی، بات بڑھتی چلی گئی جس کے نتیجے میں پہلے دونوں فریق کے مابین ہاتھاپائی شروع ہوئی، جس کے بعد انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف لاٹھیوں اور آہنی سریوں کا استعمال شروع کیا، جس کی وجہ سے سر میں شدید چوٹ لگنے سے بلاول کاکا نامی نوجوان ہلاک اور اس کے تین دوست شدید زخمی ہوگئے۔ ہوٹل کا مالک اور اس کے ساتھی بھی مجروح ہوئے۔ مبینہ طور پر دونوں جانب سے ایک دوسرے پر آتشیں ہتھیاروں سے فائرنگ بھی کی گئی۔ مطلب یہ ہے کہ ہوٹل اور اس کے اردگرد کا علاقہ ایک طرح سے میدانِ جنگ بن گیا، لیکن ہوٹل کے بالکل قریب ہی کھڑی بھٹائی نگر اور نسیم نگر تھانوں کی دو پولیس موبائلوں میں موجود پولیس افسران اور اہلکار یہ ساری خونیں لڑائی خاموش تماشائی کی حیثیت سے دیکھتے رہے، ٹہلتے رہے، سگریٹ پھونکتے رہے، لیکن انہوں نے اس خوں ریزی کو رکوانے کے لیے کسی قسم کی کوئی مداخلت کرنا گوارا نہیں کیا۔ پولیس کی اس ساری بے حسی پر مبنی عمل کی ویڈیو بھی وائرل ہوکر اس کے لیے شدید تنقید کا باعث بنی ہوئی ہے۔ بہرکیف مقتول نوجوان کے رشتے دار بھی موقع پر پہنچ گئے اور انہوں نے قریبی شاہراہ کو بند کرکے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے کئی گھنٹے تک دھرنا دیا، جس کے بعد پولیس نے ہوٹل کے مالک شاہ سوار پٹھان، ماجد پٹھان اور اس کے تین ساتھیوں کو گرفتار کرکے 10 دیگر افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔ ہوٹل مالک کے مبینہ بیان کے مطابق کھانا کھانے کے بعد بل کی رقم کی عدم ادائی پر اس کی مقتول نوجوان اور اس کے ساتھیوں سے پہلے تلخ کلامی اور پھر لڑائی شروع ہوگئی جس کی وجہ سے نوجوان ہلاک اور اس کے تین ساتھی مضروب ہوگئے۔ بہرحال یہ افسوس ناک واقعہ ہمارے معاشرے میں رائج ہوجانے والے افسوس ناک عدم برداشت کے رویّے کا ایک واضح مظہر ہے۔ کھانے کے بل کی رقم کی ادائی پر اختلاف کا یہ مطلب بھلا کس طرح سے ہوگیاکہ ہوٹل مالک نے ایک نوجوان کی بے دردی سے جان لے لی؟ دوسرا بے حد قابلِ تشویش امر ملک اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور اس پر حکومت اور اُس کے متعلقہ اداروں کی ظالمانہ حد تک بے حسی ہے، ورنہ اگر مذکورہ تنازعے کے موقع پر قریب کھڑی پولیس موبائلوں میں موجود ایک درجن اہلکار بروقت مداخلت کرتے تو شاید اس سانحے کو باآسانی ٹالا جاسکتا تھا جو پولیس کی عدم مداخلت اور خاموش تماشائی بننے کے باعث خوں ریزی پر منتج ہوا، جس کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے تنگ نظر معدودے چند شرپسند عناصر نے اسے لسانی رنگ دینے کی مذموم سعی کی، اور قطعی ذاتی نوعیت کے ایک جھگڑے کو لسانی جھگڑا باور کراکے دوسرے روز سندھ بھر میں فتنہ و انتشار پھیلانے اور ہنگامہ آرائی کرنے کی بھرپور سعی کی، لیکن اہلِ سندھ کی اکثریت اس عمل سے لاتعلق رہی۔

بات یہ ہے کہ سندھ کا معاشرہ مجموعی طور پر اس گئے گزرے اور مادیت پسندی کے دور میں بھی تاحال مہمان نواز، وضع دار، وسیع القلب اور وسیع النظر ہے، جسے مانے بغیر چارہ نہیں۔ ثبوت اس کا یہ ہے کہ آج بھی سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں ہی میں نہیں، قصبات اور دیہات تک میں بیرونِ صوبہ سے آنے والے افراد نہ صرف بے خوف و خطر رہتے ہیں بلکہ وہ بڑی آزادی کے ساتھ کاروبار بھی کرتے ہیں اور سرکاری یا پرائیویٹ نوکریاں بھی۔ لسانی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قوم پرست عناصر کو یہ بات بالکل پسند نہیں ہے اور وہ کسی معمولی ذاتی جھگڑے کو بھی لسانی رنگ دے کر اپنے دیرینہ مخصوص عزائم کی تکمیل کے لیے سرگرم عمل ہوجاتے ہیں اور ہنگامہ آرائی سمیت تمام حربے آزمانے لگ جاتے ہیں۔ اہلِ سندھ کی اکثریت اس سوچ کی حامل ہے کہ وطنِ عزیز کے ہر علاقے سے آنے والوں کو یہاں پر رہنے، کاروبار یا ملازمت کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن سرکاری، نجی اداروں یا صنعتی اداروں میں ترجیح یہاں کے قدیم افراد کو ہی دی جائے۔ دوسرے ممالک سے سندھ میں آکر رہنے والوں پر پابندی عائد کی جائے کیوں کہ اس وجہ سے مقامی افراد کی جہاں ہر شعبے میں حق تلفی ہوتی ہے وہیں قدیم باشندوں کی آبادی کا توازن بگڑ سکتا ہے جس کی وجہ سے اکثریت پر مبنی آبادی اقلیت میں بدل سکتی ہے۔ اس لیے اہلِ سندھ کا یہ مطالبہ بالکل بجا ہے کہ مذکورہ لاحق خدشات، تحفظات اور خطرات کے ازالے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں مؤثر اور ٹھوس قانونی اقدامات کریں۔