!ضمنی انتخابات کے بعد،سیاسی سفر نئے بحران کی طرف

پنجاب کے 20 صوبائی حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج وہی رہے جو دیوار پر لکھے ہوئے تھے۔ غیر جانب دار تجزیہ نگار بھی یہی توقع کررہے تھے، البتہ مفادات کے اسیر دانشور اور تجزیہ نگار اپنا رزق حلال کرنے کے لیے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تاویلیں لا رہے تھے، ورنہ خود مسلم لیگ (ن) اور پی ڈی ایم کے جہاندیدہ اسی خدشے کا اظہار کررہے تھے جو اب کھل کر سامنے آرہا ہے۔ پیپلزپارٹی کے مصطفی نواز کھوکھر اور مسلم لیگ (ن) کے جاوید لطیف کھل کر سامنے آچکے ہیں، باقی جلد اپنے ضمیر کا بوجھ اتار دیں گے۔ عمران خان کا بیانیہ سر چڑھ کر بولا ہے۔ ووٹرز نے لوٹوں کو پہلی بار اس طرح مسترد کیا ہے۔ 1970ء میں کنونشن مسلم لیگی امیدوار تو عوام میں مسترد ہوگئے تھے لیکن جو ہوشیار لیگی پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے تھے وہ لوٹے ہونے کے باوجود اسمبلیوں میں پہنچ گئے تھے۔ عمران خان کے جلسوں میں لوگوں کی تعداد اور جوش و خروش نے 17 جولائی کے نتائج کی کھلی پیشن گوئی کردی تھی۔ چھوٹے سے صوبائی حلقے میں جہاں بسوں کے ذریعے سپورٹرز کو نہیں لایا جاتا، اتنی تعداد میں لوگ آرہے تھے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں آئے۔ عمران خان اس طاقت کے ذریعے حکومتی مشینری اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کو دبائو میں لے آئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) سو فیصد لوٹوں کے ساتھ میدان میں اتری تھی اور پی ڈی ایم کی باقی جماعتیں عملاً تماشائی تھیں۔ مہنگائی اور قیمتوں میں اضافے کے چرکوں کو عمران خان نے دوآتشہ کردیا تھا اور ووٹرز اپنی سابقہ روایات کے مطابق عمران خان کے دور کی مہنگائی کو بھلا بیٹھے تھے۔

20 میں سے 15 نشستوں پر تحریک انصاف کی کامیابی نے تناسب کے اعتبار سے تحریک انصاف کو دو تہائی اکثریت کا نمائندہ بنادیا ہے اور یہی ہمارے اگلے بحران کا سرنامہ ہے۔ ان نتائج کے بعد ملک ایک نئے بحران میں داخل ہوگیا ہے۔ اکثریت کھو دینے کے باوجود وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شریف کا مستعفی نہ ہونا کسی نئے سازشی بحران کی چغلی کھا رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی یہ زخم کھانے کے بعد آرام سے بیٹھنے والی نہیں ہے کہ فواد چودھری کے بقول ان کے منہ کو سیاست (اقتدار) کا لہو لگ چکا ہے۔ دوسری طرف عمران خان یہ انتخاب جیتنے کے باوجود چیف الیکشن کمشنر سے استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں جو ایک اور بحران ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں عمران خان کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہوگا اور ہمیں آہستہ آہستہ نئے انتخابات کی طرف جانا ہوگا۔ اگر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ یہ بات نہیں مانتیں تو مزاحمتی تحریک زیادہ تیز ہوجائے گی، اور اگر نئے انتخابات کا راستہ نکالنے کے لیے تحریک انصاف کو آن بورڈ لیا جاتا ہے یا ایسا کیے بغیر نئے انتخابات کرانا پڑتے ہیں تو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے اعتراض کے باوجود موجودہ چیف الیکشن کمشنر راجا سکندر سلطان کو اس عہدے پر برقرار رکھنابے حد مشکل ہوجائے گا۔ اگر راجا سکندر سلطان سے استعفیٰ لے لیا جاتا ہے تو آئین کے مطابق قائد حزبِ اختلاف اور قائد حزب اقتدار کو مل کر الیکشن کمشنر کے لیے کسی نام پر اتفاق کرنا ہوگا، کیا موجودہ قائد حزبِ اختلاف راجا ریاض سے یہ مشاورت ہوگیِ؟ اور کیا اسے قوم اور تحریک انصاف مان لے گی؟ لامحالہ تحریک انصاف کے مشورے ہی سے اگلا چیف الیکشن کمشنر آئے گا اور یہ اتفاق اتنا آسان نہیں ہوگا، اور عمران خان سے مشاورت موجودہ حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگی۔ لہٰذا یہ ایک بڑا بحران ہوگا جسے حل کیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ ایک بحران یہ بھی ہوگا کہ کیا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دبائو کے باوجود نئے انتخابات پر نیک دلی سے تیار ہوجائیں گی یا لیت و لعل سے کام چلانے کی کوشش کریں گی؟ ایک بحران یہ بھی ہوگا کہ باہر کی دنیا کا موجودہ حکومت پر بھروسہ ان نتائج کے بعد مزید کم ہو جائے گا۔

فرائیڈے اسپیشل کے قارئین کو یاد ہوگا کہ اس عاجز بندے نے قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے پر لکھا تھا کہ تحریک کامیاب ہو یا ناکام… ہر صورت میں ملک زیادہ بڑے بحرانوں کی زد میں آجائے گا۔ یہی تاثر اس احقر کا 13 جماعتی اتحاد کی حکومت بننے پر تھا، اور اب اللہ سے ڈرتے ہوئے پھر لکھ رہا ہوں کہ یہ حکومت رہے یا ختم ہوجائے، ملک کا انتظام اصل قوتیں خود سنبھال لیں‘ اپنے کسی اور مہرے کو آزما لیں یا کسی منت سماجت اور معافی ترلے کے بعد عمران خان ہی دوبارہ اقتدار میں آجائیں‘ یہ بحران ٹلیں گے نہیں، بلکہ نئے بحران سر اٹھائیں گے، عام آدمی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا‘ اداروںکی ساکھ مزید تباہ ہوگی اور سیاسی جماعتیں زیادہ بے وقعت اور بے توقیر ہوجائیں گی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بحران خاصے شدید ہیں‘ دوسرے ہماری عمومی قیادت کی ذہنی سطح یا ویژن ہی یہ ہے کہ وہ بحرانوں کا عارضی یا ڈنگ ٹپائو حل پیش کردیتے ہیں، اس کی تعریف و توصیف میں اپنے تنخواہ دار دانشوروں اور لکھاریوں کو زمین آسمان کے قلابے ملانے پر لگا دیتے ہیں، اور یہ ناپائیدر اور نامکمل حل اس کرپٹ بیورو کریسی کے حوالے کردیتے ہیں جو نیم دلی کے ساتھ اسے نافذ کرنے میں ظاہری طور پر لگ جاتی ہے۔ اس سارے عمل کے نتیجے میں سابقہ بحران ختم ہونے کے بجائے کچھ نئے بحران سر نکال لیتے ہیں اور پہلے سے موجود بحران مزید مضبوط اور گمبھیر ہوجاتے ہیں۔

موجودہ صورت حال آپ کے سامنے ہے۔ تیرہ جماعتی اتحاد پی ڈی ایم نے مسائل اور ذمہ داریوں کی گھنٹی تو مسلم لیگ (ن) کے گلے میں باندھ دی ہے اور خود وزارتوں کے مزے لے رہے ہیں۔ اتحادی جماعتیں الگ بلیک میل کررہی ہیں، اور اقتدار کی کرسی پر بٹھانے والی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ پائوں تو ہیں ہی کڑاہی میں۔ اس وقت پنجاب میں پیپلزپارٹی کے پاس کُل سات ایم پی ایز ہیں مگر وہ گورنر‘ اسپیکر‘ ڈپٹی اسپیکر‘ 5 وزارتیں‘ 2 مشیر اور 2 معاونینِ خصوصی کے علاوہ قومی اسمبلی کے 20 حلقوںمیں فری ہینڈ مانگ رہی ہے، یعنی یہاں اتحادی جماعتوں کا کوئی امیدوار نہ ہو، نیز ان اضلاع کی ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن اور پولیس بھی ان کی مرضی سے لگے۔ سندھ میں ایم کیو ایم پیپلزپارٹی کے خلاف اپنے مزاج کے مطابق کسی بھی حد تک جاسکتی ہے، لاڑکانہ میں جمعیت علمائے اسلام کا بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی کے خلاف احتجاج اپنا آپ دکھا کر رہے گا، کہ اگر جے یو آئی عام انتخابات میں لاڑکانہ کی نشست نکال لیتی ہے تو یہ زرداری صاحب پر جے یو آئی کا بہت بھاری پائوں ثابت ہوگا جو مستقبل کی سیاست میں جے یو آئی کے لیے لیور کا کام دے سکتا ہے۔

اس وقت ایک طرف معاشی بحران اپنے عروج پر ہے جس پر صرف مسلم لیگ (ن) کے پسینے چھوٹے ہوئے ہیں، باقی اتحادی جماعتیں تو اس موضوع پر کوئی بات ہی نہیں کررہیں جیسے یہ اُن کا مسئلہ ہی نہ ہو۔ دو وزرائے خزانہ کا بیانیہ ایسے ہی نہیں ہے اور اس کے اثرات ظاہر ہورہے ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے اور عالمی طاقتیں مفتاح اسماعیل کو کوئی وقعت نہیں دے رہیں، وہ خود بھی کنفیوز ہیں اور نواز‘ شہباز اور اسحاق ڈار کی ہدایات کے پابند بھی۔ پیٹرول اور بجلی کے نرخ ابھی مزید بڑھیں گے‘ کاروباری طبقے پر ٹیکس کا دبائو بھی آئے گا‘ اس طرح مسلم لیگ (ن) کا بنیادی انتخابی حلقہ (کاروباری طبقہ) اس کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ عوام پر بڑھتا ہوا معاشی دبائو اور اس پر عمران خان کی مقبولیت مزید مسائل پیدا کرے گی۔ بیورو کریسی کو یہ یقین ہی نہیں کہ یہ کتنے دن کے مہمان ہیں، وہ ان کے ساتھ صرف وقت گزار رہی ہے، جب کہ عدلیہ کسی اور جانب دیکھتی ہے۔ ایسے میں اسٹیبلشمنٹ بھی پریشان ہے۔ عمران خان کو لاکر اس نے جو غلطی کی تھی انہیں ہٹا کر اس سے بڑا بلینڈر کردیا ہے جس کا اسے بھی احساس ہے۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ کے عمران خان کے ساتھ معاملات چل رہے ہیں۔ خود عمران خان بھی یہی چاہتے ہیں۔ اگر فوری انتخاب ہوجائے تو عمران کی کامیابی کے زیادہ امکانات ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ عمران کے ساتھ انتخاب سے قبل معاملات اپنی شرائط پر طے کرلیے جائیں، جس کے لیے عمران راضی ہوسکتے ہیں۔ اگر وہ اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرتے ہوئے الیکشن جیت جاتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ بہت کمزور وکٹ پر ہوگی، اور اگر دھاندلی کی کوشش ہوئی تو شاید شدید عوامی مزاحمت سے پورا کھیل ہی تبدیل ہوجائے۔ البتہ قارئین یہ بھی یاد رکھیں کہ اگر عمران خان اقتدار میں آتے ہیں تو بھی ہمارے بحران حل نہیں ہوسکیں گے‘ یہ ان کے بس کی بات نہیں۔ ان کا ویژن اور ہوم ورک اب بھی نہیں ہے۔ وہ تصادم کی سیاست کرسکتے ہیں جس سے ملک میں انارکی بڑھے گی اور اسٹیبلشمنٹ اور پی ڈی ایم کی جماعتیں پھر اکٹھی ہوسکتی ہیں۔ اگر عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی مرضی پر چلتے ہیں تو عوامی حمایت کھو کر مزید فرسٹریٹ ہوجائیں گے۔ اس لیے ہم کسی بھی صورت بحرانوں سے نکلتے ہوئے نظر نہیں آرہے۔ اگر فوج خود اقتدار سنبھال لے تو معاملات اور بھی ہوں گے۔