خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے وفد کا دورہ کابل

کابل میں کیمپس کھولنے کا اعلان
خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) پشاورنے افغان دارالحکومت کابل میں آف شور کیمپس کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کے ایم یو کو کابل میں کیمپس کھولنے کی دعوت نئی افغان حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد پشاور میں قائم افغان قونصلیٹ کے ایک نمائندہ وفد نے قاری نوراللہ کی قیادت میں چند ماہ پہلے خیبر پختون خوا کے مختلف طبی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم افغان طلبہ و طالبات کے مسائل کے حوالے سے کے ایم یوکے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق سے ہونے والی ملاقات کے موقع پر دی تھی۔گزشتہ دنوں کے ایم یوپشاور کے ایک نمائندہ وفد … جو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق، پرووائس چانسلراور ڈین کلینکل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر لعل محمد خٹک، ممتاز سرجن ڈاکٹر مشتاق احمد اورکزئی، اسسٹنٹ پروفیسر خیبر گرلز میڈیکل کالج پشاور ڈاکٹر وقار احمد، اور ڈپٹی ڈائریکٹر میڈیا اینڈ پروٹوکول کے ایم یو عالمگیر آفریدی پر مشتمل تھا… نے نہ صرف کابل کا دورہ کیا بلکہ اس وفد نے افغانستان کے وزیر صحت ڈاکٹر قلندر عباد، ڈپٹی وزیر ہائر ایجوکیشن مولوی حافظ محمد احمد حسیب، کابل میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فضل الرحمان رحمانی اور کابل میں پاکستان کے سفیر منصوراحمد خان کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں کرکے افغانستان میں ہیلتھ کیئر سروسز، میڈیکل ایجوکیشن اور اس سے متعلق مسائل پر تبادلہ خیال بھی کیا، جس کے دوران اعلیٰ افغان حکام نے کابل میں کے ایم یوکے کیمپس کے قیام کی تجویزمیں خصوصی دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے اس ضمن میں کے ایم یو کے ساتھ افغان حکومت کی جانب سے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

تفصیلات کے مطابق کے ایم یو یہ کیمپس ہائر ایجوکیشن کمیشن ( ایچ ای سی) اسلام آباد کی آف شور کیمپسز کے قیام کی پالیسی اور گائیڈ لائنز کی روشنی میں ایچ ای سی اور وزارتِ خارجہ کی منظوری سے قائم کرے گی جس کے لیے عمارت افغان حکومت کی جانب سے فراہم کی جائے گی، جب کہ تدریسی اور انتظامی لوازمات کے ایم یو فراہم کرے گی۔ ابتدائی معلومات کے مطابق کے ایم یو نے افغان حکومت کو مجوزہ کیمپس کے قیام کے لیے پہلے سے تعمیر شدہ عمارات جن میں کابل میں واقع امریکی یونیورسٹی جو امریکی انخلا اور ڈاکٹر اشرف غنی حکومت کے سقوط کے بعد سے خالی پڑی ہے، سابق وزیراعظم اور حزبِ اسلامی افغانستان کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمت یار کی جانب سے آفرشدہ ان کے کمپائونڈ میں واقع چار منزلہ عمارت، اور کابل میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے تعمیر شدہ محمد علی جناح ہسپتال کی خوبصورت اور کثیر منزلہ عمارت میں سے کسی ایک عمارت میں ابتدائی طور پر کے ایم یوکیمپس کے قیام کے لیے تین مرحلوں پر مشتمل منصوبہ پیش کیا ہے جس پر بتدریج عمل درآمد کیا جائے گا۔ اس منصوبے کے تحت پہلا مرحلہ بی ایس پروگرامات کی لانچنگ پر مشتمل ہوگا جس میں الائیڈ ہیلتھ سائنسز کے 12شعبے مثلاً سرجری، لیب ٹیکنالوجی، ڈینٹل ٹیکنالوجی،ہیلتھ ٹیکنالوجی،کارڈیک پرفیوژن، ایمرجنسی کیئر، ڈائیلاسز کے علاوہ نرسنگ، فزیو تھراپی،پبلک ہیلتھ، ویژن سائنسز، نیوٹریشن اور فارمیسی کے پروگرامات شامل ہوں گے۔ دوسرے مرحلے میں مختلف کلینکل مضامین میں ایم ایس، ایم ڈی اور ڈپلومہ کورسز کا آغاز کیا جائے گا، جب کہ تیسرا مرحلہ ایم بی بی ایس، بی ڈی ایس اور مختلف ڈپلومہ اور شارٹ کورسز کے پروگرامات پر مشتمل ہوگا۔

یاد رہے کہ کے ایم یو کابل کیمپس کے قیام کا مقصد افغان طلبہ وطالبات کو اُن کی دہلیز پر طب کے مختلف شعبوں میں بین الاقوامی معیار کے مطابق اعلیٰ تعلیم و تربیت کے مواقع فراہم کرنا ہے جس کی خواہش کا اظہار چند ماہ پہلے پشاورکے افغان قونصل جنرل کے نمائندے قاری نور اللہ اور ان کی ٹیم کی جانب سے وائس چانسلر کے ایم یو پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق کے ساتھ افغان طلبہ کے مسائل کے حوالے سے ہونے والی ایک ملاقات کے موقع پر کیا گیا تھا، اور اب اسی سلسلے میں کے ایم یو کے پانچ رکنی وفد نے پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق کی قیادت میں کابل کا پانچ روزہ دورہ کیا ہے۔

اس دورے کے دوران کے ایم یوکے وفد نے کابل میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فضل الرحمان رحمانی سے ان کے دفتر میں ملاقات کی، جب کہ اس موقع پرکابل میڈیکل یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر ڈاکٹر زبیدہ اور پرووائس چانسلر اکیڈمک اور ممتاز افغان سرجن ڈاکٹر نجیب اللہ بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر فضل الرحمان رحمانی نے کے ایم یو کے وفد کو بتایا کہ کابل میڈیکل یونیورسٹی افغانستان کا 90 سال پرانا طبی تعلیمی ادارہ ہے۔ یہ پہلے میڈیکل فیکلٹی تھی، بعد میں انسٹی ٹیوٹ بنا اور پچھلے دس سال سے اسے یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہے، جہاں اس وقت چھ فیکلٹی قائم ہیں جن میں میڈیکل، ڈینٹل، نرسنگ، مڈوائفری اور الائیڈ ہیلتھ سائنسز کے شعبے قائم ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کابل میڈیکل یونیورسٹی کے ساتھ چھ تدریسی ہسپتالوں کا نیٹ ورک منسلک ہے جب کہ یہاں ہزاروں طلبہ و طالبات طب کے مختلف شعبوں کی تعلیم وتربیت حاصل کررہے ہیں۔ یہاں 45 مختلف شعبہ جات میں لگ بھگ 300 فیکلٹی ممبر کام کررہے ہیں۔ ڈاکٹر فضل الرحمان رحمانی نے کہا کہ یہ ایک خوشگوار اتفاق ہے کہ کابل میڈیکل یونیورسٹی اور خیبر میڈیکل یونیورسٹی دونوں کو کے ایم یو کہا جاتا ہے، لہٰذا ان دونوں تاریخی اداروں کے درمیان اشتراکِ عمل سے دونوں اداروں کو فائدہ پہنچے گا اور ہمیں مل کر ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنے کے مواقع میسر ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کے ایم یو کے ساتھ کئی پروگراموں میں اشتراکِ عمل چاہتے ہیں جس کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں۔

پروفیسرڈاکٹر نجیب اللہ نے اس موقع پر کہا کہ دونوں قریبی پڑوسی اداروں کے درمیان مشترکہ پروگرامات شروع کرنے کے وسیع امکانات ہیں۔ ہمارا اشتراک بہت محدود پیمانے پر رہا ہے، لیکن اب ضرورت ہے کہ ہم آگے بڑھ کر صحت اور اعلیٰ تعلیم کے شعبوں میں مشترکہ پروگراموں کو عملی جامہ پہنائیں۔ پروفیسر ڈاکٹر زبیدہ نے کہا کہ پچھلی چار دہائیوں کی جنگ نے ہمارا سارا انفرااسٹرکچر تباہ کردیا ہے جس میں سب سے زیادہ نقصان صحت اور تعلیم کے شعبوں کا ہوا ہے جس سے ہمارے صحت اور تعلیم کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے ہاں اعلیٰ تربیت یافتہ ہیومن ریسورس کی شدید کمی ہے جس پر قابو پانے میں کے ایم یو جیسے مستند اور مایہ ناز ادارے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

وائس چانسلر کے ایم یو پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق نے اس موقع پر کہا کہ ہمارے ہاں میڈیکل، ڈینٹل، پبلک ہیلتھ، بیسک میڈیکل سائنسز، نرسنگ، فزیو تھراپی اور الائیڈ ہیلتھ سائنسز میں سیکڑوں افغان طلبہ زیر تعلیم ہیں جنہیں پاکستانی طلبہ کے برابر مراعات حاصل ہیں، بلکہ بعض امور میں افغان طلبہ کو پاکستانی طلبہ پر فوقیت حاصل ہے جس کی نمایاں مثال افغان طلبہ کے لیے علامہ اقبال اسکالر شپ ہے، جس کے تحت ہزاروں افغان طلبہ کو مفت تعلیم و تربیت کے علاوہ مفت رہائشی سہولیات حتیٰ کہ جیب خرچ تک دیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کے ایم یو فوری طور پر جہاں کابل میں ایک کیمپس کھول کر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ کے ایم یو کے مختلف ڈگری پروگرامات شروع کرسکتی ہے وہیں کے ایم یوکے زیر اہتمام جاری ہیلتھ پروفیشن ایجوکیشن، ہیلتھ ریسرچ اور بیسک لائف سپورٹ پروگرام کے شارٹ کورسزکاآغاز بھی جلد ہی کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح فیکلٹی ایکسچینج پروگرام کے تحت کے ایم یو افغان ڈاکٹروں اور دیگر متعلقہ شعبوں کے ماہرین کی تربیت کے لیے اپنی فیکلٹی کابل بھی بھیج سکتی ہے۔

کے ایم یو کے نمائندہ وفد نے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق کی قیادت میں افغانستان کے ہائر ایجوکیشن کے ڈپٹی وزیر مولوی حافظ محمد احمد حسیب سے بھی اُن کے دفتر میں ملاقات کی، جس کے دوران ہائر ایجوکیشن سے متعلق مختلف امور پر تفصیل کے ساتھ گفتگو کی گئی۔ مولوی حافظ محمد احمد حسیب نے بتایا کہ وزیر ہائر ایجوکیشن شیخ عبدالباقی حقانی کی شبانہ روز محنت سے یہ محکمہ تمام محکوں میں سب سے فعال کردار ادا کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کی حکومت قائم ہونے کے ایک ہفتے کے اندر اندر تمام جامعات کھل گئی تھیں۔ مخلوط تعلیم کے نقصانات اور قباحتیں بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان خواتین کی تعلیم کے ہرگز خلاف نہیں ہیں البتہ ہم کوشش کررہے ہیں کہ محدود وسائل کے باوجود طالبات کو الگ باپردہ ماحول میں تعلیم دینے کا متبادل بندوبست کیا جائے، بعض مقامات پر ایک دن طلبہ اور ایک دن طالبات کے لیے وقف ہے، بعض مقامات پر پردے اور الگ الگ کیمپس کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں مسائل کا ادراک ہے لیکن یہاں وسائل کی کمی ہے، ہم چالیس سال سے جنگ زدہ حالات کا مقابلہ کررہے ہیں، ہمیں بیرونی تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان اور خاص کر خیبر پختون خوا سے ہماری توقعات بہت زیادہ ہیں، کے ایم یو یہاں پر جو اقدامات کرنا چاہتی ہے ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں اور اس میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کراتے ہیں۔
کے ایم یو کے نمائندہ وفد نے افغان وزیر صحت ڈاکٹر قلندر عباد جنہوں نے پمز اسلام آباد سے یورالوجی میں اسپیشلائزیشن کی ہے، سے بھی ان کے دفتر میں ملاقات کی، جب کہ اس موقع پر محکمہ صحت کے دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر قلندر عباد نے وفد کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ کے ایم یو جیسے مایہ ناز ادارے کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہمیں بہت خوشی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کے ایم یو ایک ماہ سے لے کر ایک سال تک شارٹ کورسز کی شکل میں ہماری خاصی مدد کرسکتی ہے جس سے افغان ڈاکٹروں اور افغان عوام کو بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی ایس، ایم ایس اور ایم ڈی پروگرامات کے حوالے سے کے ایم یو اورافغان وزارتِ صحت اور وزارتِ اعلیٰ تعلیم کے درمیان ایم او یوز ہونے چاہئیں۔ ڈاکٹر قلندر عباد نے تجویز دی کہ تینوں اسٹیک ہولڈرز کی ایک ٹیکنیکل کمیٹی بناکر باہمی مشاورت سے کئی مشترکہ پروگرام شروع کیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ اِن شاء اللہ اس حالیہ دورے کے فالواَپ کے طور پر افغان وزارتِ صحت کا ایک نمائندہ وفد عنقریب پشاور اور کے ایم یوکا دورہ کرے گا۔

کے ایم یو کے وفد نے کابل میں پاکستان کے تعاون سے بنائے جانے والے محمد علیجناح ہسپتال کے مختلف شعبوں کا دورہ بھی کیا۔ اس موقع پرہسپتال کے ڈائریکٹر نرسنگ خلیل شمال نوری نے وفد کو بتایا کہ35 جریب پر مشتمل یہ عمارت چار سال پہلے مکمل ہوئی ہے لیکن اب تک یہ ہسپتال باضابطہ طور پر فنکشنل نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہاںتمام طبی شعبے موجود ہیں جن میں ضروری طبی آلات بھی دستیاب ہیں۔ یہاں او پی ڈی میں روزانہ مریضوں کی تعداد سو سے ڈیڑھ سو کے درمیان ہوتی ہے، ایمرجنسی میں روزانہ 40۔50 مریض لائے جاتے ہیں، یہاں عملے کی کُل تعداد 206 ہے جن میں25 ڈاکٹر،14 ایڈمن اسٹاف، 53 نرسیں، 2 فارماسسٹ،20 الائیڈاور74 سپورٹ اسٹاف شامل ہے۔ شمال نوری کا کہنا تھا کہ انہوں نے خود بھی نرسنگ کی تعلیم پاکستان سے حاصل کی ہے اور ہمارے ہاں کئی ایسے تربیت یافتہ لوگ ہیں جن کی ٹریننگ پاکستان کے مختلف طبی تعلیمی اداروں میں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جناح ہسپتال بنیادی طور پر 200 بستروں پر مشتمل ہے، البتہ اس میں مزید سو بستروں کے فوری اضافے کی گنجائش موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہسپتال کے ملازمین کو تنخواہ وزارتِ صحت افغانستان دیتی ہے، اگر یہاں تربیت یافتہ عملہ اور دیگر ضروری سہولیات فراہم کی جائیں تو افغانوں کو بڑی تعداد میں اپنے علاج معالجے کی خاطر پاکستان کا دوردراز کا سفر نہیں کرنا پڑے گا جس سے ایک طرف وسائل کی بچت ہوگی اور دوسری جانب لوگوں کا وقت بھی بچ جائے گا اور انہیں پاسپورٹ، ویزے اور بارڈر کی مشکلات سے بھی چھٹکارا مل جائے گا۔

کے ایم یو کے وفد نے افغانستان میں صحت کے شعبے میں کام کرنے والے سب سے بڑے نیٹ ورک کی حامل غیر سرکاری فلاحی تنظیم ہیلتھ نیٹ کے دفتر کا بھی دورہ کیا جہاں ہیلتھ نیٹ کے کنٹری ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد نسیم نے ڈاکٹر عبدالرحمان شہاب کے ہمراہ وفد کا خیرمقدم کیا۔ ملاقات کے دوران انہوں نے بتایا کہ ہیلتھ نیٹ پانچ ہزار ملازمین پر مشتمل افغانستان میں کام کرنے والا سب سے بڑا فلاحی اور رفاہی ادارہ ہے جو افغانستان میں 1994ء سے صحت کے نظام اور کمیونٹیز کی مدد کررہا ہے۔ ہم افغانستان میں چار شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ ہم صحت کے نظام کے بنیادی ڈھانچے کی بہتری اور مضبوطی، نیز سب کے لیے صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کے مختلف منصوبوں پر عمل پیرا ہیں۔ افغانستان میں رہنے والے لوگ کئی دہائیوں سے تنازعات، نقل مکانی، خشک سالی، غربت اور صحت کی دیکھ بھال سمیت بنیادی خدمات میں کمزور سرمایہ کاری سمیت متعدد بحرانوں کا سامنا کررہے ہیں۔ 18.4 ملین افراد جوکہ افغانستان کی کُل آبادی کا تقریباً نصف ہے، کووڈ-19، بڑھتے ہوئے عدم تحفظ اور قدرتی آفات کے نتیجے میں فوری امداد کے منتظر ہیں۔

ڈاکٹر محمد نسیم نے کہا کہ صحت ایک بنیادی انسانی حق ہے، اس لیے ہیلتھ نیٹ اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ ہر ایک کو معیاری صحت کی دیکھ بھال تک رسائی حاصل ہو۔ خاص طور پر وہ لوگ جو تنازعات سے متاثرہ ماحول میں رہ رہے ہیں جہاں صحت کی بنیادی سہولیات تک رسائی یا دستیابی کا فقدان ہے۔ افغانستان میں ہماری ٹیم 600 سے زیادہ بستروں والے علاقائی اور صوبائی ہسپتالوں سے لے کر 100 سے زیادہ صحت کی مختلف سہولیات اور 600 سے زیادہ صحت کی پوسٹوں کے ذریعے صحت کے ڈھانچے اور خدمات کو بہتر بنانے کا فریضہ انجام دے رہی ہے۔ ہسپتال کی خدمات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ، ہم امیونائزیشن کے ذریعے زچگی، نوزائیدہ، شیرخوار بچوں کی اموات کو کم کرنے پر بھی توجہ مرکوز کرتے ہیں اور علاج کے ضمنی خوراک پروگرام (TSFP) کی سرگرمیوں کے ساتھ بچوں کی صحت کو بہتر اور غذائی قلت کو کم کرتے ہیں۔ پولیو، ملیریا اور ٹی بی سمیت متعدی بیماریاں افغانستان کے کئی حصوں کے لیے ایک مسلسل مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔ ہمارا پروجیکٹ سب سے زیادہ کمزور لوگوں کے ساتھ کام کرتا ہے تاکہ بیماریوں کی روک تھام اور علاج معالجے کی سہولیات کو بہتر بنایا جا سکے۔ بچوں میں معمول کے حفاظتی ٹیکوں کو بڑھاکر ہم ان علاقوں میں پولیو کے خاتمے میں مدد کررہے ہیں جہاں اس کی شرح زیادہ ہے۔ ہم ویکسی نیٹرز کے لیے تربیت کے علاوہ ویکسین کی فراہمی اور ذخیرے کو بہتر بنانے میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں۔ ہیلتھ نیٹ دی فریڈہالووز فائونڈیشن کے تعاون سے افغانستان کے 9 صوبوں میں بچوں، بڑوں اور بصری طور پرکمزور لوگوں کے لیے آنکھوں کی دیکھ بال اور علاج معالجے کی سہولیات فراہم کررہا ہے۔ اسی طرح ہر شخص کو ذہنی صحت اور نفسیاتی مدد کی خدمات تک رسائی خاص طور پر تنازعات اور تشدد سے متاثرہ علاقوں میں ذہنی اور نفسیاتی امراض کا شکار افراد کو علاج فراہم کرنے میں بھی ہرممکن مدد فراہم کی جارہی ہے۔ ہیلتھ نیٹ نے 260 سے زیادہ ڈاکٹروں، 265 دائیوں اور نرسوں کو بنیادی ذہنی صحت کی معاونت پر تربیت دی ہے جب کہ دماغی صحت کے 56 فوکل پوائنٹس کاقیام ان سہولیات کے علاوہ ہے۔

کے ایم یو کے وفد نے کابل میں قائم آغا خان ہسپتال کا دورہ بھی کیا جہاں ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عزیز احمد جا ن نے وفدکا استقبال کیا اور انہیں ہسپتال کے مختلف شعبوں کا دورہ کروایا اورکے ایم یو کے ساتھ مستقبل میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔کے ایم یو کے وفد نے افغانستان کے سابق وزیراعظم اور حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمت یار کے ساتھ بھی ان کے دفتر میں ملاقات کی۔ یہ ملاقات انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی جہاں انجینئر گلبدین حکمت یار نے کے ایم یو کے وفدکا پُرتپاک استقبال کرتے ہوئے سوویت یونین کے خلاف جہاد کے دوران افغان مہاجرین کی بہترین دیکھ بھال پر پاکستان کی خدمات کا اعتراف کیا اور پاکستانی عوام کو زبردست الفاظ میںخراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے طب اور تعلیم کے شعبوں میں پاکستان سے تعاون کی اپیل کرتے ہوئے کے ایم یو کے کابل میں مجوزہ کیمپس کے لیے اپنی طرف سے چالیس پچاس کمروں پرمشتمل ایک چار منزلہ عمارت کے علاوہ اس عمارت کے قریب واقع سو بستروں پر مشتمل ہسپتال دینے کی فراخ دلانہ پیشکش بھی کی۔ انھوں نے کہا کہ اگر حکومتی عمارت ملنے میں مشکلات ہوں تو وہ حزبِ اسلامی کی طرف سے افغان طلبہ کے وسیع تر مفاد میں کے ایم یوکے ساتھ ہر ممکن تعاون کے لیے تیار ہیں، جس پر وائس چانسلر نے اُن کا شکریہ ادا کیا اور متذکرہ عمارت کا دورہ کیا اور کہا کہ یہاں پر کے ایم یو کیمپس کھولنے کی تمام ضروریات پوری ہوسکتی ہیں جس پر وہ متعلقہ افغان حکام سے بات کریں گے۔

کے ایم یو کے وفد نے کابل میں متعین پاکستان کے سفیر منصور احمد خان سے بھی اُن کے دفتر میں ملاقات کی۔ وفد کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق نے انہیں اپنے دورے کے اغراض ومقاصد سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ نرسنگ، میڈیکل اور الائیڈ ہیلتھ سائنسز کے تعلیمی اداروں کی کابل میں شدید ضرورت ہے اور اسی مقصد کے تحت انہوں نے کابل کا دورہ کرکے افغان حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق نے پاکستان اور بالخصوص خیبر پختون خوا میں افغان طلبہ کو دستیاب تعلیم کے مواقع اور میڈیکل کالجوں کے افغان طلبہ کی فیسوں کو آٹھ لاکھ روپے سالانہ سے کم کرتے ہوئے اسے پچاس ہزار روپے کرنے کے بارے میں بھی پاکستان کے سفیر کوآگاہ کیا۔ سفیرِ پاکستان نے کے ایم یو کے وفد کے دورے کاخیرمقدم کرتے ہوئے اسے درست وقت پر درست سمت میں ایک بروقت قدم قراردیتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ وہ جلدہی افغانستان کے وزیر اعظم، وزیر ہائر ایجوکیشن اور دیگر حکومتی افراد سے ملاقات کرکے امریکن انٹر نیشنل یونیورسٹی کی خالی عمارت میںکے ایم یوکا کیمپس کھولنے کے حوالے سے بات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ضروری ہوا تو وہ اس ضمن میں امریکی حکام سے بھی رابطہ کریں گے۔