بلوچستان: برساتی سیلاب کی تباہ کاری

13 جون سے 30 جون تک پری مون سون اور پھر 3 جولائی سے اب تک جاری مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں سیلابی ریلوں اور طوفانی ہواؤں کے باعث بلوچستان کے 20 سے زائد اضلاع شدید متاثر ہوئے ہیں۔ صوبے کے دارالحکومت کوئٹہ اور مضافات میں تباہی مچی، مکانات منہدم ہوئے، اموات ہوئیں۔ صوبے کے اندر 73 افراد جاں بحق ہوئے ہیں، جن میں 24 خواتین اور 27 بچے بھی شامل ہیں۔ ایک ہزار سے زائد مکانات تباہ ہوئے، نیز وبائیں پھیل گئیں۔ پیٹ اور آنتوں کے امراض کے سات ہزار کیس رپورٹ ہوئے۔ گیارہ اموات ہوچکی ہیں۔ حفاظتی پشتے، بند، ڈیم، کینال اور پل سیلاب میں بہہ گئے۔ کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں۔ صوبائی حکومت نے مختلف علاقوں میں ڈیمز اور کینالز کی غیر معیاری تعمیر کی تحقیقات اور تجاوزات کے خلاف کارروائی کا ارادہ کیا ہے۔ اللہ کرے کہ بیان اور ارادے میں سچے ثابت ہوں۔ پی ڈی ایم اے کی نااہلی کی انتہا ہے کہ نقصانات اور ہلاکتوں کی درست تعداد بھی معلوم نہیں۔ ہلاکتیں زیادہ ہوئی ہیں جو رپورٹس میں کم بتائی گئی ہیں۔ متاثرہ اضلاع کی انتظامیہ کا مرتب کردہ ریکارڈ بھی ان کے ڈیٹا کا حصہ نہیں جس کی وجہ سے مرنے والوں کے لواحقین معاوضے سے محروم رہیں گے، اور نقصانات کی حقیقی تصویر پوشیدہ رہے گی۔ دراصل پی ڈی ایم اے اور دوسرے متعلقہ محکموں میں ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی سرے سے اہلیت نہیں۔ 2005ء کے زلزلے کے بعد این ڈی ایم اے اور صوبائی سطح پر پی ڈی ایم اے بنائے گئے تاکہ قدرتی آفات کے دوران یا پیشگی اقدامات کرکے نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکے۔ پی ڈی ایم اے بلوچستان کے بارے میں آڈیٹر جنرل پاکستان نے اپنی 2019-20ء کی آڈٹ رپورٹ میں یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ ”پی ڈی ایم اے کے قیام کا مقصد وسائل کے موثر استعمال کو یقینی بناکر آفات کی روک تھام اور تباہی کے خطرات کو کم کرنا ہے۔ اس کے لیے پی ڈی ایم اے کو سالانہ بنیادوں پر منصوبے بنانے کی ذمے داری دی گئی ہے۔ مگر یہ دیکھا گیا ہے کہ پی ڈی ایم اے کی سرگرمیوں کا بڑا زور آفت کے بعد کی سرگرمیوں پر ہے۔“ آڈیٹر جنرل نے درست نشاندہی کی ہے، ہر بار کی طرح حالیہ بارشوں میں بھی دیکھا گیا کہ کئی علاقوں میں ریسکیو کا کام شروع ہونے سے پہلے ہی ریلیف یعنی خیموں اور راشن کی تقسیم کا کام شروع کیا گیا۔ پیشگی اقدامات اور منصوبہ بندی کے بجائے آفات کے دوران یا بعد میں ہنگامی طور پر فنڈز کا اجراء کیے جانے کا مقصد خلافِ ضابطہ، غیر معیاری اور مہنگے داموں خریداری اور اخراجات ہیں۔ یہ وارداتیں احتساب و محاسبہ کے اداروں کی ملی بھگت سے ہوتی ہیں۔ پی ڈی ایم اے خودمختار نہیں، وہ صوبائی وزیر داخلہ کے ماتحت ہے۔ وزیر ہی کی منشا و مرضی پر تعیناتیاں ہوتی ہیں۔ صوبے اور وفاق سے ملنے والے فنڈز وزیر کی ترجیحات کے تحت خرچ ہوتے ہیں۔ درحقیقت پی ڈی ایم اے پُرکشش محکمہ بن چکا ہے جہاں دوسرے محکموں کے افسران و ملازمین بڑی سفارشیں کراکے ڈپوٹیشن پر چلے جاتے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کو چلانے والے تین ڈائریکٹر ہیں۔ ان میں ایک محکمہ جنگلات کا گریڈ17کا افسر ہے جس نے خود کو خلافِ قانون محکمے میں ضم کرایا ہے۔ دوسرے ڈائریکٹر موصوف محکمہ تعلیم کے اندر گریڈ 17کے استاد ہیں۔ ان کی تعیناتی بھی قانون کو روندتے ہوئے عمل میں لائی گئی ہے۔ اور ایک ڈائریکٹر تحصیلدار ہے، جسے سینیٹر سرفراز بگٹی نے پی ڈی ایم اے میں لاکر بٹھایا جب وہ محکمہ داخلہ کے وزیر تھے۔ پی ڈی ایم اے میں محکمہ تعلیم کے دو معلم اس وقت ڈپوٹیشن پر تعینات ہیں۔ گویا یہ سارے مالی فوائد و مقاصد کی خاطر لپکے ہیں۔ وگرنہ ان کی قابلیت و اہلیت ہے اور نہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی الف ب سے واقف ہیں۔ ادارے کے پاس ڈیزاسٹر رسک ریڈیکشن کے شعبے سے وابستہ تجربہ کار افراد یا ماہرین نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ مون سون سے نمٹنے کے پیش نظر سالانہ منصوبہ بندی کرنے والا بھی نہیں ہے۔ نہ موسمیات کے ماہر ہیں۔ زلزلہ اور دیگر آفات سے نبرد آزمائی کے آلات ہیں، نہ اس نوع کے آلات استعمال کرنے کے لیے تربیت یافتہ عملہ ہے۔ چند ماہ قبل قلعہ سیف اللہ میں بچہ کنویں میں گر گیا تھا، اطلاع پر پی ڈی ایم اے کے دو افراد اس مقام پر پہنچے تھے۔ المیہ دیکھیے کہ درکار تکنیکی آلات تو کجا، ان کے پاس رسّی تک نہ تھی۔ افغان حکومت نے ماہر فرد دینے کی پیشکش کی تھی، شرط یہ تھی کہ اسے افغانستان سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے قلعہ سیف اللہ پہنچایا جائے۔ مگر انہوں نے کوئی ہل جُل نہ دکھائی۔ دفعتاً ایمرجنسی کا اعلان بھی دراصل فنڈز کے اجرا اور استعمال کے لیے ماحول پیدا کرنے کا حربہ ہے۔ نیت فنڈز کی غت ربود کی ہوتی ہے، چناں چہ حال میں صوبے کے 34 اضلاع میں سے 18کو مکمل اور جزوی طور پر آفت زدہ قرار دیا گیا ہے۔ 9اضلاع کو مکمل جبکہ باقی 9اضلاع کی45یونین کونسلوں اور دیہات کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے۔ اس عمل میں بھی سیاسی اثر رسوخ کا استعمال ہوا اور کئی ایسے اضلاع کو بھی مکمل آفت زدہ قرار دیا گیا جہاں تباہی کم ہوئی۔ بازار سے پکے پکائے کھانوں کی دیگوں کی خرید کو لوٹ مار کا ذریعہ بنادیا جاتا ہے۔ کورونا کی پہلی لہر کے دوران صرف23دنوں کے کھانے کابل 6کروڑ روپے بنا تھا۔ اس دوران ایک ارب 80کروڑ روپے کے اخراجات میں حیران کن بے ضابطگیاں دیکھنے کو ملی تھیں۔ لڈو، تاش اور بچوں کے کھلونوں کی خریداری کی مد میں لاکھوں روپے کے اخراجات ظاہر کیے گئے۔ اس بناء پر آڈیٹر جنرل نے آفات کے دوران ہنگامی خریداری کے طریقہ کار پر بھی ”آڈٹ پیراز‘‘ لگاتے ہوئے ذمے داران کے تعین کے لیے تحقیقات کی سفارش کی، مگر اس جانب کوئی جنبش نہ ہوئی۔ تب بلوچستان اسمبلی میں حزبِ اختلاف نے اخراجات کے بارے میں شور بلند کیا تھا۔ اب تو خیر حزبِ اختلاف حکومت کی ہوکر رہ گئی ہے۔ اب انہیں ہیر پھیر نظر نہیں آرہی ہے۔

گزشتہ کی مانند اِس بار سرکار اور متعلقہ محکموں کی کارکردگی اور اعمال مزید عیاں ہوئے ہیں۔ وزارت و محکمہ بلدیات عضوِ معطل ہیں۔ اس کا رونا جام کمال خان اپنی وزارتِ اعلیٰ میں روتے رہے۔ صالح بھوتانی سے قلمدان لے کر گہرام بگٹی کو سونپا گیا، حالت مگر وہی رہی۔ موجودہ حکومت نے یہ وزارت دوبارہ صالح بھوتانی کو سونپ دی ہے۔ گویا معاملہ ”میر بھی کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب، اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں‘‘ کے مصداق ہے۔ وزارتِ بلدیات، محکمہ بلدیات، میٹرو پولیٹن کارپوریشن ،ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کے دفاترہر لحاظ سے بدعنوانی کی آماج گاہ بنے ہوئے ہیں۔ یہاں ہر ایک، پیسہ بٹور کر شہر کوئٹہ کو ہر گزرتے دن کے ساتھ تباہی کے بھنور میں دھکیلنے میں جتا ہوا ہے۔ شہر کے رہائشی علاقے دھڑادھڑ کمرشل میں تبدیل ہونے دیے جارہے ہیں۔ بڑے بڑے کاروباری پلازے تعمیر ہورہے ہیں۔ نقشہ اور دیگر لوازمات میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے متعلقہ دفاتر، بعد ازاں کمشنر آفس کے بڑے چھوٹے سرکاری ملازم رشوت لے کر پورے کردیتے ہیں جس کی وجہ سے شہر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہے۔ ٹریفک پولیس لاکھ جتن کرے، بھلے شہر کے اندر دس ہزار اہلکار تعینات کرے ایسی صورت حال میں ٹریفک اور شہر میں بھیڑ کا حل نہیں نکالا جاسکتا۔ اس رشوت خوری کے باعث گلی محلّوں کی تیزی سے کاروباری و تجارتی پلازوں میں تبدیلی ہی دراصل جملہ مسائل کی بنیادی وجہ ہے۔ اس بربادی میں محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ اور واسا برابر ملوث ہیں۔ شہر اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے تجارتی پلازوں میں نجی ٹیوب ویل کی تنصیب ہوچکی ہے، اس طرح پانی کے موجودہ بحران میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ زیر زمین پانی کئی علاقوں میں ختم ہوچکا ہے۔ جہاں موجود ہے وہاں پانی کی سطح تیزی سے گررہی ہے۔ میٹرو پولیٹن کے اندر نقشہ نویس اور تجاوزات کے آفیسر ہوتے ہوئے اب وسطی شہر کی اکثر شاہراہیں تاجروں کے پارکنگ ایریا میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ کوئی مائی کا لال یہ شاہراہیں کھلوا نہیں سکتا۔ ساری کی ساری عمارتیں مروجہ بلڈنگ کوڈ کے برخلاف تعمیر ہورہی ہیں۔ تہہ خانہ ممنوع ہے مگر شاید ہی کوئی عمارت بغیر تہہ خانے کے ہو، بلکہ اب تو زیر زمین دو منزلہ تہہ خانے بھی بنائے جارہے ہیں۔ عمارتوں کے چھجے کئی کئی فٹ نکالے جاچکے ہیں۔ سیاسی جماعتیں شہری مسائل پر خاموش ہیں۔ احتساب اور انسدادِ رشوت ستانی کے ادارے جیسے اس دھندے میں شریک ہوں۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن شہر کے پارک اور کھیل کے میدان برباد کرچکی ہے۔ چناں چہ ضروری ہے کہ عدالتِ عالیہ بلوچستان اس بربادی کا نوٹس لے، عدالت کے جج خود شہر کا دورہ کریں۔ اس وقت بھی شہر کے رہائشی علاقوں میں بڑے بڑے تجارتی پلازوں کی تعمیر کا کام ہورہا ہے۔ ضروری ہے کہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے اندر حرام خوری ار رشوت بازاری پر فوری ہاتھ ڈالا جائے۔ اگر حالیہ بارشوں میں کوئٹہ کے اندر نقصانات کی وجہ برساتی نالوں پر تجاوزات کی تعمیر ہے تو یہی محکمے قصوروار ہیں۔ طرہ یہ کہ صوبائی حکومت نے تجاوزات ہٹانے اور نالوں کی صفائی وغیرہ کے لیے سات کروڑ روپے مختص کیے، اگر یہ رقم میٹرو پولیٹن کارپوریشن بروئے کار لاتی ہے تو یہ بلی سے گوشت کی رکھوالی کے مترادف ہے۔ دوئم، معمول سے زیادہ پری مون سون اور مون سون بارشوں کی پیشنگوئی کے پیش نظر وفاقی حکومت اور وفاقی وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی نے صوبائی حکومتوں کو ضروری پیشگی اقدامات کرنے کی ہدایت کی تھی، مگر پی ڈی ایم اے اور نہ ہی دیگر اداروں نے کوئی تیاری کی۔ یہ رقم تب نالوں کی صفائی اور تجاوزات ہٹانے پر لگائی جاتی۔ عالم یہ کہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن، محکمہ بلدیات اور وزارت کی جانب سے مسائل کے حل سے متعلق اقدامات محض اخبارات میں تصاویر اور بیانات تک محدود ہیں۔ دروغ گوئی سے کام چلایا جارہا ہے۔ اب تو ان کی کارکردگی کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ چکا ہے۔ مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں ڈیموں اور حفاظتی پشتوں کا بہہ جانا فی الحقیقت اراکین اسمبلی، محکمہ ایری گیشن، انجینئرز اور ٹھیکیداروں کی ملی بھگت، ناقص و غیر فنی تعمیر، بدعنوانی اور کمیشن خوری کی وجہ سے ہے۔ اس وقت توجہ کوئٹہ کے پہاڑوں میں موجود سیلابی پانی کی گزرگاہوں پر مرکوز ہونی چاہیے، جن پر تقریباً قبضہ ہوچکا ہے۔ قبضے واگزار کرکے آبی گزرگاہوں پر مزید ڈیلے ایکشن ڈیم تعمیر کیے جائیں۔ کوہ مردار کے دامن میں واقع پشتون درہ میں 1980ء بعد ازاں 1990ء کی دہائی میں بارش اور سیلابی پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بند تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ بہترین واٹر ری چارجنگ پوائنٹ ہے۔ 1986ء میں یہ ڈیم بھر جانے کے باعث ٹوٹ گیا تھا، جس کے بعد اس سے آگے بند تعمیر ہوا۔ یوں دونوں مقامات پر آبادیاں تعمیر ہوئی ہیں۔ ضروری ہے کہ حکومت 1980ء کی دہائی والے مقام پر کنکریٹ کا بند تعمیر کرے جس سے زیر زمین پانی کی سطح کی بلندی میں خاصی مدد ملے گی اور خوبصورت پہاڑی دروں پر مشتمل یہ اچھا تفریحی مقام بھی ہے۔