امریکی صدر جوبائیڈن اسرائیل، مشرقی بیت المقدس اور سعودی عرب کے چار روزہ دورے سے واپس آگئے۔ اس علاقے میں وہ امریکی صدر کی حیثیت سے پہلی بار تشریف لائے۔ کئی ماہ سے اس سفر کی منصوبہ ہورہی تھی لیکن سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر 2020ء کی انتخابی مہم کے دوران امریکی صدر نے جو مؤقف اختیار کیا تھا اس پر ولی عہد محمد بن سلمان المعروفMBS اس قدر ناراض تھے کہ جناب بائیڈن کو اپنے ملک مدعو کرنا تو دور کی بات، وہ امریکی صدر کا فون بھی نہیں اٹھا رہے تھے۔ واشنگٹن کے سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ کے آخر میں صدر بائیڈن کی جانب سے مبہم سی معذرت پر MBS کا غصہ کچھ کم ہوا اور انھوں نے امریکی صدر کو دورے کے لیے دعوت نامہ بھیج دیا۔
سعودی شہری جمال خاشقجی، معروف امریکی جریدے ”واشنگٹن پوسٹ“ کے کالم نگار تھے۔ 59 سالہ جمال خاشقجی ماضی میں سعودی شاہی خاندان کے بہت قریب تھے۔ سعودی حکومت کے ترجمان ”سعودی گزٹ“ کی ادارت کے علاوہ وہ روزنامہ ”عکاظ“ کے سینئر کالم نگار تھے۔ افغانستان پر روسی حملے کے دوران جمال خاشقجی سعودی خفیہ ایجنسی سے وابستہ تھے۔ انگریزی اور عربی اخبارات کے علاوہ انھوں نے سوشل میڈیا پر بھی صحافت کے جوہر دکھائے۔ یمن پر خلیجی اتحاد کے حملے کے جمال خاشقجی سخت مخالف تھے جس کا اظہار انھوں نے سوشل میڈیا پر کھل کر کیا۔ توقع کے عین مطابق یہ جراتِ رندانہ مزاجِ شاہی پر گراں گزری۔ خشمگیں نگاہوں کی تاب نہ لاکر جمال امریکہ منتقل ہوگئے اور واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھنے لگے۔ عرب دنیا کے ایک بہت ہی مقبول آن لائن رسالے “MIDDLE EAST EYE”میں بھی ان کے کالم شایع ہوتے تھے۔اسی دوران انھوں نے ایک ترک خاتون خدیجہ چنگیزی سے منگنی کرلی جو استنبول کی رہائشی ہیں۔ جمال اور خدیجہ شادی کرنا چاہتے تھے جس کے لیے کچھ دستاویزات کی سفارتی تصدیق ضروری تھی۔ چنانچہ وہ 2 اکتوبر 2018ء کو اپنی منگیتر کے ہمراہ استنبول کے سعودی قونصل خانے آئے۔ جب ان کا نمبر پکارا گیا تو وہ اندر چلے گئے اور خدیجہ صاحبہ وہیں انتظار گاہ میں بیٹھی رہیں۔ جب دفتر بند ہونے کے وقت تک جمال باہر نہ نکلے تو خدیجہ نے استقبالیہ سے ان کے بارے میں پوچھا، جس پر انھیں بتایا گیا کہ خاشقجی صاحب تو خاصی دیر پہلے عقبی دروازے سے جاچکے ہیں۔
واقعے کی سعودی تحقیق کے مطابق جمال خاشقجی کا دفتر کے اندر کچھ اہلکاروں سے جھگڑا ہوگیا جنھوں نے انھیں قتل کرکے لاش ٹھکانے لگادی۔ سعودی عدالت نے قتل کے پانچ مجرموں کو سزائے موت اور کچھ کو عمر قید کی سزا سنائی۔ جمال خاشقجی کے بچوں نے سزائے موت پانے والے مجرموں کو معاف کردیا، لہٰذا انھیں سزا نہیں ہوئی۔ نومبر 2018ء میں امریکی سی آئی اے نے تحقیقات کے بعد جو رپورٹ مرتب کی اس کے مطابق یہ قتل MBSکے حکم پر ہوا جس پر عمل درآمد کے لیے سعودی خفیہ ایجنسی کے اہلکار ریاض سے استنبول بھیجے گئے تھے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران جوبائیڈن نے جمال خاشقجی کے قتل پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر خاشقجی قتل کی تحقیق شفاف نہ ہوئی تو وہ سعودی عرب سے Pariah (اچھوت) کا سا سلوک کریں گے۔
ترکی میں سعودی قونصل خانے میں ہونے والے اس ناخوشگوار واقعے کے ساتھ دو ماہ پہلے فلسطینی علاقے جنین میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ماری جانے والی خاتون صحافی شیریں ابوعاقلہ کے معاملے پر بھی امریکی حکومت کو ”تشویش“ تھی۔ شیریں صاحبہ چونکہ امریکی شہری تھیں اس لیے جوبائیڈن نے اس واقعے کو سرکاری طور پر اسرائیلی حکومت کے سامنے اٹھایا اور شفاف تحقیقات پر زور دیا۔ امریکی اور اسرائیلی ماہرین نے پوسٹ مارٹم کے دوران شیریں کے سر میں لگنے والی اس گولی کا معائنہ کیا اور مشترکہ تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ گولی کسی اسرائیلی فوجی نے چلائی تھی۔
دورے سے پہلے صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ سعودی ولی عہد سے جمال خاشقجی کے قتل اور اسرائیلی قیادت کے سامنے شیریں ابوعاقلہ کا معاملہ اٹھائیں گے۔ روانگی سے چند دن پہلے جب کسی صحافی نے امرہکی صدر سے پوچھا کہ کیا ان دو نکات پر آپ کے مؤقف میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟ تو انھوں نے کہا ”ہرگز نہیں، لیکن میں تعلقات توڑنے کے بجائے اسے مثبت سمت موڑنے پر یقین رکھتا ہوں۔“
صدر بائیڈن کے اس دورے کے بڑے اہداف کچھ اس طرح تھے:
٭عزمِ ابراہیم (Abraham Accord)کی روشنی میں سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی ترغیب۔ اس منصوبے کے خالق سابق دامادِ اول جیری کشنر تھے جن کی کوششوں سے متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے ساتھ یورپ کے مسلم اکثریتی ملک کوسووا نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے۔
٭ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف خلیجی ممالک کے دبائو میں اضافہ اور اسرائیل کو یقین دہانی کہ اگر بات چیت سے معاملہ حل نہ ہوا تو تہران کے خلاف طاقت کے استعمال سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔
٭توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے سعودی عرب، عراق اور متحدہ عرب امارات کو تیل کی پیداوار میں اضافے پر آمادہ کرنا۔
اسی کے ساتھ فلسطینیوں کی اشک شوئی کے لیے دو ریاستی فارمولے کا ذکر، اور اقتصادی ترقی کے لیے مالی مدد کی پیشکش بھی صدارتی ایجنڈے کا حصہ تھی۔ امریکی ایوانِ صدر سے اس دورے کی جو تفصیل جاری ہوئی اس میں بہت صراحت سے کہا گیا تھا کہ صدر بائیڈن اسرائیل اور دریائے اردن کے مغربی کنارے کا دورہ کریں گے۔ گویا امریکہ نے مقبوضہ عرب علاقوں کو اسرائیل سے الگ ایک اکائی تسلیم کیا۔
دورے کے آغاز پر صدر بائیڈن تل ابیب پہنچے، جہاں ان کا پُرتپاک خیرمقدم کیا گیا۔ اسرائیلی صدر، وزیراعظم اور کنیسہ (پارلیمان) کے اسپیکر ان کے استقبال کو ائرپورٹ پر موجود تھے۔ رہنمائوں سے ملاقات کے دوران بائیٖڈن نے انتہائی گرم جوشی سے اسرائیل کے تحفظ اور ریاست کی خوشی اور خوشحالی کے لیے امریکی عزم کا اعادہ کیا۔ اس ضمن میں 3 ارب 80 کروڑ ڈالر سالانہ فوجی امداد جاری رکھنے کا وعدہ ہوا۔ پہلے امریکی کانگریس یہ رقم ہر سال منظور کرتی تھی لیکن 2015ء میں سابق صدر اومابا نے کانگریس سے توثیق کے بعد دس سال کے لیے 38 ارب ڈالر کی منظوری دی تھی۔ امریکی صدر نے یقین دلایا کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے ہر قیمت پر روکا جائے گا چاہے اس کے لیے جنگ ہی کیوں نہ چھیڑنی پڑے۔ انھوں نے ایران کے جوہری پروگرام اور علاقے کو لاحق دوسرے خطرات سے نبٹنے کے لیے 3Dحکمت عملی کا اعلان کیا جو دشمن کو مرعوب کرنے کی صلاحیت (Deterrence)، سفارت کاری (Diplomacy) اور تنائو میں کمی (De-escalation) پر مشتمل ہے۔ صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ اگر تیاری، تدبر اور احتیاط سے 3D پر عمل کیا جائے تو طاقت کے استعمال کے بغیر ان خطرات سے نبٹا جاسکتا ہے۔
شیریں ابوعاقلہ کے قتل پر ملاقات کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر جوبائیڈن نے کہا کہ امریکہ، شیریں ابوعاقلہ کی موت کی شفاف تحقیقات اور قتل کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے پُرعزم ہے۔ شیریں ابوعاقلہ امریکی شہری اور فخرِ فلسطین تھیں۔ سچ پر مبنی ان کی جرات مندانہ صحافت ساری دنیا کے صحافیوں اور حق پرستوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ تاہم تحقیقات کے لیے ”پُرعزم” بائیڈن اتنے محتاط تھے کہ ڈبڈبائی آنکھوں اور شدتِ جذبات سے کپکپاتی آواز میں اس بھیانک قتل کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے اپنے لبوں پر اسرائیل کا نام تک نہ آنے دیا۔
اپنے دورہ اسرائیل میں صدر بائیڈن نے اُن دو بوڑھی خواتین سے خصوصی ملاقات کی جنھوں نے نازی بیگار کیمپ کا عذاب سہا ہے۔ انھیں دیکھ کر امریکی صدر کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں اور وہ بے اختیار ان خواتین کے قدموں میں بیٹھ گئے۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا ”میری پیاری بہنو! خدا تم سے محبت کرتا ہے“۔ بلاشبہ نازی دور میں یورپ کے یہودیوں پر جو ظلم توڑے گئے وہ انسانیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہے۔ اس وحشیانہ واردات کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے، اور اس وحشت کے متاثرین ساری انسانیت کی جانب سے ہمدردی کے مستحق ہیں۔ لیکن ایسی ہی نسل کُشی کا اہلِ غزہ کو سامنا ہے۔ سیو دی چلڈرن (Save the Children) نے چند ہفتے پہلے ایک رپورٹ شایع کی ہے جس کے مطابق مسلسل ناکہ بندی اور گھیرائو نے غزہ کے 80 فیصد بچوں کو نفسیاتی مریض بنادیا ہے۔ کاش امریکی صدر یروشلم سے صرف 60 میل کے فاصلے پر دنیا میں کھلی چھت کے سب سے بڑے بیگار کیمپ کا بھی دورہ فرماتے۔
اسی دن شام کو انھوں نے مشرقی بیت المقدس کے علاقے بیت اللحم جاکر مقتدرہ فلسطین (PA) کے صدر محمود عباس سے ملاقات کی۔ پہلے خیال تھاکہ یہ ملاقات مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں ہوگی، لیکن فلسطینیوں کے اصرار پر ملاقات کا مقام تبدیل کیا گیا۔ بیت اللحم دو وجوہات کی بنا پر فلسطینیوں کی ترجیح بنا۔ ایک تو اس سے فلسطینیوں کے اس مؤقف کو تقویت ملی کہ مشرقی بیت المقدس فلسطین کا دارالحکومت ہے، دوسری طرف حضرت عیسیٰؑ کی جائے پیدائش ہونے کی وجہ سے بیت اللحم مسلمانوں کے ساتھ مسیحیوں کے لیے بھی قابلِ احترام ہے۔ صدر بائیڈن، صدر کینیڈی کے بعد امریکی تاریخ کے دوسرے کیتھولک صدر اور ایک راسخ العقیدہ مسیحی ہیں، چنانچہ ان کی جذباتی وابستگی بھی بیت اللحم سے ہے۔
مسودے میں اختلاف کی وجہ سے مشترکہ اعلامیہ جاری نہ ہوا۔ مسودوں میں اختلاف کی تفصیل:
فلسطینی مسودہ: East Jerusalem would be the Capital of Palestine یعنی ”مشرقی یروشلم آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہوگا“۔
امریکی مسودہ: Capital of Palestinian state would be in East Jerusalem یعنی ”فلسطینی ریاست کا دارالحکومت مشرقی یروشلم میں ہوگا“۔
صدر عباس سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ ہاہمی رضامندی سے ردوبدل (Mutual land swap) کے ساتھ 1967ء سے پہلے کی حد بندیوں پر دو ریاستوں کے قیام سے فلسطینی اور اسرائیلی دونوں تحفظ، خوشحالی اور جمہوریت کو یقینی بناسکتے ہیں۔ یہ اس تنازعے کا بہترین حل ہے۔ فلسطینی آزاد، پائیدار، مستحکم اور خودمختار ریاست کا حق رکھتے ہیں، لیکن اس معاملے پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا یہ مناسب وقت نہیں۔
امریکی صدر نے یہ نہیں بتایا کہ بات چیت کے لیے یہ وقت کیوں مناسب نہیں اور درست وقت کب اور کیسے آئے گا؟یہ وضاحت بھی نہیں کی گئی کہ ”باہم رضامندی سے ردوبدل“ کا نکتہ کب اور کیسے آیا؟ سلامتی کونسل کی منظور کردہ قرارداد میں اسرائیل کو غیر مشروط طور پر 1967ء سے پہلے کی سرحدوں پر واپس جانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ وہاں کسی mutual land swap کا ذکر نہیں۔ امریکی صدر نے جس فارمولے کو بہترین حل قرار دیا ہے وہ دراصل سلامتی کونسل کی 1967ء میں منظور کی جانے والی قرارداد ہے جس کا ذکر 1993ء کے اوسلو امن معاہدے میں بھی ہے، جس پر امریکی صدر بل کلنٹن نے بطور ضامن دستخط کیے ہیں۔ ستم ظریفی کہ صدر محمود عباس نے بھی اس نکتے پر اعتراض نہیں کیا۔ وہ صدر بائیڈن کی جانب سے 30 کروڑ ڈالر کی امداد پر ہی بہت خوش تھے۔ جناب عباس کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایک ایسی مملکت کی حیثیت سے اپنی کارروائیاں جاری نہیں رکھ سکتا جو قانون سے بالاتر ہو۔ پھرصدر بائیڈن کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا ”امید ہے کہ امریکہ ایک منصفانہ حل کے لیے کوششیں جاری رکھے گا“۔ میر بھی کیا سادہ ہیں…..
جمعہ (15جولائی) کو صدر بائیڈن تل ابیب سے براہِ راست جدہ پہنچے۔ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی امریکی صدر یا وزیر، اسرائیل سے براہِ راست سعودی عرب آیاہو۔
امریکی خبر رسآں ایجنسی رائٹرز کے مطابق جدہ پہنچنے پر امریکی صدر کا استقبال مکہ کے گورنر شہزادہ خالد بن فیصل اور امریکہ میں سعودی عرب کی سفیر محترمہ ریما بنتِ بندر آل سعود نے کیا۔ شاہ اور ولی عہد تو دور کی بات، کوئی نائب وزیر بھی وہاں امریکی صدر کے استقبال کو موجود نہ تھا۔ سعودی حکام کا کہنا ہے کہ کورونا کے حالیہ پھیلائو کے تناظر میں معزز مہمان کے تحفظ کے لیے اُن کا استقبال مٖحدود کیا گیا۔ لیکن یہ وضاحت سفارتی حلقوں کے لیے ناقابلِ قبول ہے، کہ حال ہی میں ترک صدر کا استقبال شہزادہِ مکرم نے بہ نفسِ نفیس خود کیا تھا۔
شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے استقبالیہ ملاقات کے بعد جناب MBS کے سرکاری وفد سے مذاکرات ہوئے۔ بات چیت سے قبل کیمرہ سیشن کے دوران صدر بائیدن کو چبھتے ہوئے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک خاتون صحافی نے پوچھا: کیا MBS اب بھی اچھوت و کم ذات یا Pariah ہیں؟ ایک اور صحافی نے جمال خاشقجی کی منگیتر کا ٹوئٹ پڑھ کر سنایا جس میں خدیجہ نے کہا ہے کہ (اگر MBSکو چھوڑ دیا گیا تو) مستقبل میں جمال جیسے دوسرے مقتولین کا خون امریکی صدر کی آستین سے ٹپکے گا۔ صدر بائیڈن سے سوالات کے دوران سعودی ولی عہد اطمینان سے مسکراتے رہے۔
رسمی مذاکرات کے بعد اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ انہوں نے انسانی حقوق کے معاملے پر خاموشی اختیار نہیں کی ہے۔ ”میں نے محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات میں جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے پر گفتگو کی ہے کیونکہ امریکی صدر کی حیثیت سے انسانی حقوق کے معاملے پر خاموش رہنا ہماری اقدار کے خلاف ہے“۔ انھوں نے بتایا کہ گفتگو کے آغاز پر سب سے پہلے اسی معاملے پر بات کی گئی۔
اسی دن شام کو فاکس ٹیلی ویژن کے نمائندے ایلکس ہوگن (Alex Hogan)سے باتیں کرتے ہوئے سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور جناب عدل الجبیر نے کہا کہ محمد بن سلمان کے بارے میں وہ جملہ انھوں نے جناب بائیڈن سے نہیں سنا۔ اتوار کی صبح صدر بائیڈن کی واشنگٹن واپسی پر جب صحافیوں نے ان سے پوچھا کہ کیا سعودی وزیر سچ کہہ رہے ہیں؟ تو امریکی صدرNo کہہ کر آگے بڑھ گئے۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
امریکی صدر نے اس بات کی تصدیق کی کہ سعودی عرب اسرائیل سے آنے اور جانے والی تمام شہری پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود کھولنے اور یمن میں جنگ بندی میں توسیع پر بھی رضامند ہوگیا ہے۔ صدر نے اس اقدام کو سعودی عرب اور اسرایئل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی جانب ایک اہم پیش رفت قرار دیا۔ لیکن فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور شیخ عدل الجبیر نے کہا کہ فضائی حدود کھولنے کا مطلب اسرائیل کو تسلیم کرنا نہیں۔ جب تک دو ریاستی فارمولے پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں ہوجاتا، سعودی عرب اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم نہیں کرے گا۔
امریکی صدر نے کہا کہ یوکرین جنگ کے نتیجے میں دنیا کو توانائی کے جس شدید بحران کا سامنا ہے، سعودی عرب اس سے راحت فراہم کرنے کے لیے اپنا قائدانہ کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ امریکی صدر نے بتایا کہ دونوں ملکوں کے درمیان مواصلاتی نظام اور ماحول دوست توانائی و ٹیکنالوجی کے مشترکہ منصوبوں پر اصولی اتفاق ہوگیا ہے۔ امریکی صدر نے ایک دن پہلے محمود عباس سے ملاقات کے بعد غزہ اور مغربی کنارے پر موبائل ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے کے لیے سرمایہ کاری کی پیشکش کی تھی۔
ہفتے کی صبح خلیجی تعاون کونسل (GCC) کا سربراہی اجلاس منعقد ہوا جس میں مصر، اردن اور عراقی قیادت کو بھی مدعو کیا گیا تھا، چنانچہ اس بیٹھک کو GCC+3 تحفظ و ترقی سربراہی اجلاس یا Security& Development Summitکا نام دیا گیا۔ اس نشست کا محرک خلیجی و عرب ممالک کو ایران کا خوف دلاکر اسرائیل سے تعلقات کی حوصلہ افزائی اور امریکی و اسرائیلی اسلحہ سازوں کے لیے فروخت کے نئے مواقع پیدا کرنا تھا۔ اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے MBSنے ایران پر زور دیا کہ وہ جوہری اسلحے کی ”فضول و بے سود“ کوششوں سے کنارہ کش ہوکر اپنے عوام کی خوشحالی و قومی ترقی کے لیے GCC کے شانہ بشانہ کھڑا ہوجائے۔ سعودی ولی عہد کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے امریکی صدر نے 3Dحکمت عملی کے تحت سفارت کاری کے ذریعے جوہری تنازع حل کرنے کی تجویز پیش کی اور تمام امور پر اسرائیل کو ساتھ لے کر چلنے کی تلقین کی۔ اپنے خطاب میں امیرِ قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے کہا کہ عرب سرزمین پر اسرائیل کا قبضہ برقرار رہنے تک علاقہ عدم استحکام کا شکار رہے گا۔
اس اجلاس میں سعودی ولی عہد نے کہاکہ ان کا ملک تیل کی یومیہ پیداوار کو ایک کروڑ 30لاکھ بیرل کے نشان تک لےجاسکتا ہے۔ شہزادے صاحب نے یہ بھی گوش گزار کردیا کہ ہم سے اس سے زیادہ کی توقع نہ رکھی جائے۔ اس وقت سعودی عرب کی پیداوار ایک کروڑ 4 لاکھ 60 ہزار بیرل روزانہ ہے اور مملکت اپنی پیداوار میں 25لاکھ 40ہزار بیرل یومیہ کا اضافہ کرسکتی ہے۔ دیکھنا ہے کہ اوپیک کے دوسرے ممالک خاص طور سے عراق، لیبیا اور متحدہ عرب امارات اپنی پیداوار میں کیا اضافہ تجویز کرتے ہیں؟ اوپیک کی مجموعی اضافی پیداوار کا فیصلہ آئندہ اجلاس میں کیا جائے گا جواگلے ماہ کے آغاز میں متوقع ہے۔ روس کی جانب سے کٹوتی کی مخالفت متوقع ہے۔
تیل کی سیاست کے باب میں ایک گرماگرم خبر یہ ہے کہ توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمت کو لگام دینے کے لیے صدر بائیڈن کے حکم پر امریکی خام تیل کے تزویراتی ذخیرے Strategic Petroleum Reserve(SPR) سے حال ہی میں 50 لاکھ بیرل تیل جاری ہوا، اس کا ایک تہائی حجم چین کی تیل کمپنیSinopec کو فروخت کیا گیا۔سائینوپیک میں امریکی صدر کے صاحبزادے ہنٹر بائیڈن صاحب نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
ہمارے خیال میں تیل کی پیداوار میں اضافے پر MBSکی آمادگی ہی چار دن تک جاری رہنے والی سفارتی بھاگ دوڑ اور ”صحافتی ورزش“ کا حاصلِ کلام ہے، ورنہ مشرقِ وسطیٰ امن منصوبہ، فلسطینی ریاست اور نسل کُشی کا شکار اہلِ غزہ کی دستگیری پون صدی سے جاری ڈرامے کی شرطیہ نئی کاپی تھی۔ خوف زدہ امریکی صدر شیریں ابوعاقلہ اور جمال خاشقجی کے قاتلوں کا نام تک نہ لے سکے۔ ایسے لاچارو بے بس ”صفر“ بائیڈن بامقصد مذاکرات کیا کرتے! جو کچھ ہوا وہ قائدینِ عالم کے لیے سرکاری خرچ پر خوش گپیوں کا ایک موقع تھا جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے بھی ایک کالم لکھ مارا۔ اور ہاں آپ کی برداشت و مروت کو سلام جو اس خشک و بے جان تحریر کو یہاں تک پڑھ گئے۔
………………
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹوئٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔