ایک اہم اور غیر متوقع خبر یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان میں کسی بھی حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔ یہ خبر اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ آئی ایم ایف اس سے قبل پاکستان میں کسی نگران حکومت سے بات چیت سے انکار کرچکا تھا، اور یہی وجہ تھی کہ وفاق میں اتحادی حکومت سے کہا گیا کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کرے، لیکن اب آئی ایم ایف کے رویّے میں تبدیلی کم از کم یہ اطلاع دے رہی ہے کہ شہبازشریف حکومت کے لیے ابھی معاشی مشکلات کم نہیں ہوئیں بلکہ بڑھ جانے کا امکان ہے، ہوسکتا ہے آئی ایم ایف اگست میں قسط کی ادائی سے قبل کوئی نئی شرط عائد کردے۔
ہمارا معاشی نقشہ اور منظرنامہ یہ ہے کہ اِس سال پاکستان کا بجٹ خسارہ ساڑھے پانچ ہزار ارب ہوگا۔ سال 2018ء میں ملک کو ادائیگیوں کے لیے 20 ارب ڈالر درکار تھے، جبکہ اِس سال 37 ارب ڈالر درکار ہیں، جو آئی ایم ایف کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔ جبکہ اس سے ترقی کی شرح میں بھی تین فیصد اضافہ ہوسکے گا۔
مسلم لیگ(ن) کا دعویٰ ہے کہ اس نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچاکر معاشی استحکام کی راہ پر گامزن کردیا ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول پہ معاہدہ ہوگیا ہے، لہٰذا اگست میں قسط مل جائے گی۔ لیکن اس دعوے کے باوجود آثار بدلے بدلے معلوم ہورہے ہیں۔ اگر اس کے باعث ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھا تو پھر ملکی معیشت کی بھی خیر نہیں ہوگی۔ ایک جانب ملکی معیشت کا یہ نقشہ ہے اور دوسری جانب عمران خان پاکستان کے سری لنکا بننے کی بری خبر دے رہے ہیں۔ ان کی حکومت کے چار سال بھی کسی حد تک اس کے ذمہ دار تصور کیے جائیں گے۔
ملک کا سیاسی منظرنامہ یہ ہے کہ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی نے ملکی سیاست کا رخ ایک بار پھر بدل دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو توقع تھی کہ ضمنی انتخابات میں اسے اتنی سیٹیں ضرور مل جائیں گی کہ حمزہ شہباز کی حکومت چلتی رہے۔ تاہم مسلم لیگ(ن) مطمئن ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں یہ تمام سیٹیں پی ٹی آئی نے جیتی تھیں جن میں سے چار اس نے چھین لی ہیں۔ عمران خان نے بھی ان نتائج کے بعد قابلِ اعتماد نئے الیکشن کمیشن کے تحت اگلے انتخابات کا مطالبہ دہرایا ہے، حالانکہ ضمنی انتخابات میں انہیں 15 نشستیں واپس ملی ہیں۔ پنجاب میں حالیہ انتخابی نتائج کے بعد اتحادی حکومت مشکل میں آگئی ہے اور ملک میں عام انتخابات کا مطالبہ اب زور پکڑے گا۔ ملک جس طرح کے معاشی حالات سے گزر رہا ہے انتخابات کے بعد جو بھی حکومت آئے گی معاشی بحران اُس کا منتظر ہوگا جو اسے سنبھلنے نہیں دے گا۔ مہنگائی اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اندرونی بدنظمی اور عالمی حالات کی وجہ سے اس میں کمی نہیں آئے گی۔ برسراقتدار حکومت اس کی ذمہ داری پچھلی حکومت پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کرے گی جس کی روایت عمران خان نے ڈال دی ہے، اور اتحادی حکومت نے بھی اسے اپنا رکھا ہے۔ یہ صورتِ حال متقاضی ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے رویّے میں تبدیل لائیںاور اقتدار ہر قیمت پر حاصل کرنے کے بجائے ملک کی فکر کریں، سیاسی اختلافات اس قدر نہ بڑھائیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنا بھی مشکل ہوجائے۔
تحریک انصاف پنجاب میں اپنی بیس نشستوں میں سے پندرہ واپس لینے میں کامیاب ہوگئی ہے، جب کہ اسے الیکشن کمیشن سے فارن فنڈنگ کیس کا بھی سامنا ہے، یہ کیس قومی سیاست کا رخ موڑ سکتا ہے۔ اتحادی حکومت ڈپٹی اسپیکر، اسپیکر، وزیراعظم اور صدر کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کے دوران آئین و قانون کی پامالی کے جرم میں آئین سے غداری کا مقدمہ (آرٹیکل6) قائم کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دے چکی ہے، تاہم تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر یہ انتہائی قدم اٹھایا گیا تو اس کے دوررس نتائج نکلیں گے، اگر ایک دوسرے کو غدار قرار دے کر آرٹیکل 6 کا اطلاق ہوا تو سیاست بچے گی نہ آئینی حکمرانی۔ سیاست دانوں کی ناکامی کہیں پاکستان کو بدقسمتی سے ناکام ریاست میں نہ بدل دے۔ لہٰذا ملک کے دیرپا اور پائیدار جمہوری و معاشی مستقبل کے لیے قومی اتفاقِ رائے سے رولز آف گیم بنائے جائیں جس میں اقتدار کے تمام ستونوں، سول ملٹری تعلقات، وفاق اور صوبوں میں آئین کی مکمل عمل داری اور آئینی و جمہوری تسلسل ہو۔ معیشت کے بنیادی تقاضوں پہ اتفاقِ رائے ہو، شراکتی اور پائیدار ترقی ہو، خواص کے قبضے کا خاتمہ ہو،پُرامن اور علاقائی تعاون پر مبنی سلامتی و خارجہ پالیسی بنائی جائے…یہ سب ممکن ہے اگر سیاسی جماعتیںاپنے اپنے مفادات کی خاطر وطنِ عزیز کو دائو پر لگانے سے اجتناب کریں۔ بلاشبہ پی ٹی آئی کی سابق حکومت کی پونے چار سالہ ناقص کارکردگی کے باعث ملک کو مسائل کا سامنا رہا، عمران خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرکے اس کو توڑا۔ اب حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ بجٹ خسارہ کم کرکے دکھائے گی۔ عمران حکومت کے دور میں پونے چار سال میں 20 ہزار ارب روپے سے زائد کا قرض لیا گیا، محصولات بھی کم ہوئے اور پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی سے ماہانہ 120 ارب روپے کا بوجھ معیشت پر ڈالا گیا جس کے باعث عمران خان کے آخری سال بجٹ خسارہ 550 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا، اور گورننس بدترین شکل اختیار کرچکی ہے۔ اب کوئی شک نہیں رہا کہ سابق وزیراعظم کی مقبولیت میں اقتدار ختم ہونے کے بعد قدرے اضافہ ہوا ہے، جب کہ حکومت کے چوتھے سال میں ان کی مقبولیت بدترین سطح پر تھی۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ مہنگائی کے باعث پی ڈی ایم حکومت سے عوام سخت نالاں ہیں۔
ملک میں معاشی و سیاسی بحران کا جائزہ لیں تو ہماری داخلی سیاست کا بڑا خسارہ واضح ہوجاتا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران ملکی تجارتی خسارے میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور 57 فیصد اضافے سے 48.66 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔مالی سال 2022-23ء میں تجارتی خسارے کو کنٹرول میں رکھنا حکومت کے لیے سب سے بڑا معاشی چیلنج ہے، جس کو قابو کیے بغیر ملک ڈیفالٹ کے مستقل خطرے سے دوچار رہے گا اورزرِمبادلہ کے ذخائر بھی اطمینان بخش سطح تک نہیں بڑھ پائیں گے۔ مالی سال2021-22ء میں نظرثانی شدہ اعداد و شمار کے مطابق تجارتی خسارہ 48.66 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جو کہ اوسطاً 4 ارب ڈالر ماہانہ سے بھی زیادہ بنتا ہے، جبکہ پچھلے سال یعنی2020-21ء میں یہ 30.96 ارب ڈالر تھا۔ اگرچہ گزشتہ سال برآمدات 31.8 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں لیکن پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے برآمدات برقرار نہیں رہ پائیں گی۔ اخراجات میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے ایکسپورٹ مارکیٹوں میں مقابلہ کیسے ہوگا؟ معیشت کی بہتری کے لیے مسلم لیگ(ن) کا دعویٰ ایک جانب، حقائق یہ ہیں کہ قرض لیا جائے گا تو کرنٹ اکائونٹ خسارہ بڑھے گا، اور رواں سال حکومت کو 4 ہزار ارب روپے سود اور قرض کی مد میں ادا کرنے ہیں۔
سنگین معاشی بحران میں جکڑے ملک کو درپیش آئینی بحران کا بڑھنا خطرے سے کم نہیں۔ لیکن خطے کی سیاست اور پاکستان کی سیاسی، اقتصادی وجغرافیائی پوزیشن کے باعث عالمی اور علاقائی سیاست میں اسلام آباد کا تیزی سے بڑھتا کردار مثبت نتائج دے سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ سفارتی اہداف طے کیے جائیں جن کے ذریعے پرامن عالمی و علاقائی اقتصادی خوشحالی کا پھل ہماری جھولی میں آئے۔ ماضی میں ہر بڑے ملک نے پاکستان کو اپنے مفادات کے لیے انگیج رکھا، یہی وجہ تھی کہ ہماری خارجہ پالیسی میں نئی اپروچ نہیں آسکی۔ برادر اسلامی ممالک بھی کشمیر کے معاملے میں اسلام آباد کی وہ مدد نہیں کرپائے جو ہمیں درکار تھی۔ اب ہمارے لیے ایک بڑا امتحان آرہا ہے کہ مستقبل قریب میں بھارت مقبوضہ کشمیر میں جی 20 گروپ کی کانفرنس منعقد کرنے جارہا ہے جس میںعرب ملک بھی شریک ہوں گے۔ یہ کانفرنس ہماری خارجہ پالیسی کا بہت بڑا امتحان ثابت ہوگی۔ یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ آج جن معاشی حالات کا سامنا ہے پاکستان کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہم ایک ایسے شیطانی چکر میں پھنس گئے ہیں جس کا کوئی اختتام دکھائی نہیں دیتا۔ ابھی ہم بمشکل ایک ضرورت پوری کرتے ہیں تو دوسری سراٹھا لیتی ہے۔ اسے پورا کرنے کے لیے بھی ویسے ہی ناگہانی اقدامات درکار ہوتے ہیں جتنے پہلی کے لیے، جیسا کہ آئی ایم ایف کی قسط کے اجراء پر کسی بھی بحث سے پہلے سب سے پریشان کن شرط پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی بلند سبسڈی کا خاتمہ تھا۔ شروع میں حکومت سبسڈی ختم کرنے سے گریزاں تھی لیکن آخرکار ایسا کیا گیا، اور یہ عوام کے لیے یقینا انتہائی پریشان کن تھا۔ بجٹ 2022-23ء آئی ایم ایف کے مطالبات سے مطابقت نہیں رکھتا تھا لیکن اسمبلی سے اس کی منظوری سے قبل تمام مطلوبہ ترامیم کری گئیں جن میں ٹیکس کو ایک ٹریلین روپے (یعنی جی ڈی پی کے 1.3 فیصد تک) بڑھانے کی غیر معمولی کوشش بھی شامل تھی، بجٹ کے بعد پیٹرولیم لیوی (پی او ایل مصنوعات کی قیمتوں میں دو ہفتوں کے اندر اندر خوفناک ایڈجسٹمنٹ کرنے کے باوجود) نافذ کرنے کا عمل بھی شروع ہوگیا اور آخر میں مانیٹری پالیسی پر بھی کارروائی کی گئی جس میں پالیسی ریٹ میں 1.25 فیصد اضافہ کیا گیا جو اسے 15 فیصد تک لے گیا جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں سب سے زیادہ ہے، تاہم اس کوشش کو آئی ایم ایف کی طرف سے نہ سراہا گیا، اسٹاف کی سطح پر معاہدہ تو درکنار، اس کی تائید میں ایک لفظ تک سننے میں نہ آیا۔ اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ آئی ایم ایف کو ذمہ دار ٹھیرائیں یا نہیں؟ اورسب سے اہم سوال یہ کہ کیا معاہدہ طے پانے کے راستے میں کوئی اور بھاری پتھر ہٹانا باقی ہے؟ شاید ایسا ہی ہے۔ بجلی اور گیس کے نرخوں میں کیا جانے والا یہ متوقع ردوبدل ہے جس کا اعلان کیا جانا باقی تھا، اگرچہ پیٹرولیم مصنوعات کے ساتھ ان پر سے بھی سبسڈی ختم کردی گئی تھی، کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اس کی منظوری دے دی تھی، لیکن کابینہ نے بجلی پر کارروائی کو روک دیا تھا کہ ضمنی انتخابات گزر جائیں۔ گیس کی قیمتوں میں ایڈجسٹمنٹ کا اعلان بھی ہوچکا، لیکن عمل درآمد نہیں ہوا کہ حکومت نے ان فیصلوں کے اعلان کو پنجاب میں ضمنی انتخابات کے انعقاد تک مؤخر کردیا تھا۔ یہ سیاسی مصلحت تھی جو حکومت کے کام نہیں آئی۔ کیا یہ حربے آئی ایم ایف معاہدے میں تاخیر کا باعث بن سکتے ہیں؟ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ فنڈ اس تعلق کو کیسے دیکھتا ہے۔ مارچ میں پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی پر فنڈ کے ردعمل کو نظرانداز کیا گیا جس کے باعث اعتماد کی سطح کم ہوئی۔ کسی بھی سنجیدہ مذاکرات سے پہلے آئی ایم ایف نے ان سبسڈیز کو ختم کرنے کا کہا تھا، اور اب اسٹاف کی سطح پر معاہدے کا اعلان کرنے سے پہلے وہ تمام کارروائیوں کو مکمل کرنے کے لیے کہہ سکتا ہے جس کے بعد مزید سخت فیصلے کرنے پڑیں گے تبھی آئی ایم ایف منظوری دے گا۔ لیکن اس وقت امید کے بجائے مایوسی زیادہ ہے، اطلاعات ہیں کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرضے کے قسط پاکستان کے انسدادِ بدعنوانی قوانین پر نظرثانی کی وجہ سے روک لی گئی ہے۔ وزیر خزانہ اس کی تردید کرچکے ہیں مگر حقائق یہی ہیں۔