پنجاب کے ضمنی انتخابات میں عمران خان یا تحریک انصاف کی جیت حیران کن ہے۔ اگرچہ اس نکتے پر سب کا اتفاق تھا کہ عمران خان سیاسی مقبولیت میں سب سے آگے ہیں اور اُن کے بیانیے کو عوامی سطح پر خاصی پذیرائی حاصل ہے۔ لیکن اس بات سے بہت سے لوگ متفق نہیں تھے کہ ان کی یہ مقبولیت انتخابی میدان میں انہیں کوئی بڑی کامیابی دے سکے گی۔ پنجاب بنیادی طور پر مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی سیاسی طاقت کا مرکز ہے۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب کو اپنی سیاسی طاقت کا گڑھ سمجھتی ہے اور اسی بنیاد پر اُس کی سیاست بھی طاقت ور حلقوں سمیت انتخابی عمل میں اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن تحریک انصاف اور عمران خان نے مسلم لیگ(ن) کو پنجاب کی سیاست میں نہ صرف چیلنج کیا بلکہ اپنی بڑی سیاسی ساکھ بھی قائم کی ہے۔ 20 نشستوں پر ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج نے مسلم لیگ(ن) کو عملی طور پر تنہا کردیا ہے۔ بہت سے سیاسی پنڈتوں نے پندرہ کے قریب نشستیں مسلم لیگ(ن) کو پہلے ہی سے دے رکھی تھیں، مگر نتائج نے ان تمام کو بری طرح شکست دی جو عمران خان کے بیانیے کو کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہ تھے۔
پنجاب میں بیس نشستوں میں سے پندرہ پر عمران خان کی کامیابی نے جہاں مسلم لیگ (ن) کے پنجاب کے اقتدار کا بوریا بستر گول کیا ہے وہیں مستقبل کی سیاست میں اپنے لیے ایک بڑا راستہ ہموار کیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) اس شکست اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے داخلی مسائل سے آسانی سے باہر نہیں نکل سکے گی، کیونکہ ان ضمنی انتخابات کے نتائج نے ان سیاسی فریقوں کو بھی لاجواب کردیا جو سمجھتے تھے کہ پنجاب کا مستقبل مسلم لیگ (ن) سے ہی جڑا رہے گا۔ اس لیے انتخاب لڑنے والے جو کردار ہیں، یا جن کو ہم طاقت ور انتخابی امیدوار یا خاندان سمجھتے ہیں انہیں بھی واضح پیغام چلا گیا ہے کہ پنجاب میں اب عمران خان کی سیاسی برتری کو ختم کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ بنیادی طور پر ان ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی شکست کے کئی محرکات ہوسکتے ہیں مگر بنیادی نکتہ یہ ہے کہ لوگوں نے رجیم چینج یا سیاسی مہم جوئی کے نام پر عمران خان کی حکومت کی تبدیلی کو قبول نہیں کیا۔ جو عوامی ردعمل عمران خان کی جیت کی صورت میں آیا ہے وہ اس امر کی ہر سطح پر نشاندہی کرتا ہے کہ رجیم چینج سے جڑے تمام سیاسی یا غیر سیاسی کرداروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
عمران خان نے واقعی جو بیانیہ جائز یا ناجائز بنایا وہی سیاسی پذیرائی حاصل کرسکا، اس کے مقابلے میں 13 جماعتی حکومتی اتحاد… جس میں قابلِ ذکر شریف خاندان، زرداری خاندان اور مولانا فضل الرحمٰن ہیں… عمران خان کی مخالفت میں کوئی قابل ذکرِ بیانیہ نہیں بناسکا۔ یہ سارے تجربہ کار، اہم اور بڑے عمران خان مخالف سیاست دانوں کی ناکامی ہے کہ وہ مل کر بھی تنہا عمران خان کا مقابلہ نہیں کرسکے۔ لاہور مسلم لیگ (ن) کا سیاسی گڑھ سمجھا جاتا تھا اور برے دور میں بھی اسے یہاں سے کوئی شکست نہیں دے سکا، مگر اِن ضمنی انتخابات میں لاہور میں چار میں سے تین نشستوں پر ناکامی نے تختِ پنجاب کے ساتھ ساتھ تختِ لاہور پر بھی شریف خاندان کی گرفت پر سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ بنیادی طور پر مسئلہ پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت کا خاتمہ ہی نہیں، بلکہ ان انتخابات کے نتائج نے جو نیاسیاسی منظرنامہ بنایا ہے وہ مسلم لیگ (ن) کے لیے خاصا تکلیف دہ ہوگا۔
اسی طرح جنوبی پنجاب میں یہ جو کہا جارہا تھا کہ مسلم لیگ(ن) مریم نواز کی مقبولیت کی وجہ سے بڑی طاقت بنی ہے، یا یہاں دوبارہ سے پیپلزپارٹی طاقت پکڑ رہی ہے، یہ سبھی تجزیے غلط ثابت ہوئے۔ مسلم لیگ(ن) میں ایک طبقہ جو خاموشی سے یہ تجویز پیش کرتا رہا تھا کہ ہمیں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا حصہ نہیں بننا چاہیے اور عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد اپنی حکومت بنانے کے بجائے نئے انتخابات کا ہی راستہ اختیار کرنا چاہیے، ان کی بات خاصی درست ثابت ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) اس پورے کھیل میں پیپلزپارٹی کے ہاتھوں سیاسی طور پر ٹریپ ہوئی، اورخود شہبازشریف کی ہر صورت میں وزیراعظم بننے کی خواہش نے مسلم لیگ(ن) کو تنہا کردیا۔ اب پنجاب میں حکومت کے خاتمے کے بعد مرکز میں وزیراعظم شہبازشریف کی سیاسی حیثیت خاصی کمزور ہوگئی ہے اور شہبازشریف پاکستان سے زیادہ اسلام آباد کے وزیراعظم تک محدود ہوگئے ہیں۔ اسی طرح عمران خان کے بیانیے نے اُن تمام سیاسی پنڈتوں کو بھی شکست دی جو یہ کہتے تھے کہ عمران خان کی سیاسی حیثیت محض اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے ہے، اور وہ اسٹیبلشمنٹ کے بغیر کچھ بھی جیت نہیں سکتے اوریہ کہنا کہ وہ سیاست دان نہیں یا اُن کو سیاست کا تجربہ نہیں، محض خام خیالی ہے۔ان تمام بڑی سیاسی جماعتوں اوربڑے بڑے سیاسی قائدین کے مقابلے میں اپنی سیاسی حیثیت کو تسلیم کروانا ہی عمران خان کی بڑی کامیابی ہے۔
ان ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کی شکست کی جو چند بڑی وجوہات ہیں ان میں اُن کا عمران خان کی سیاسی حیثیت کو کمزور سمجھنا، عمران خان کے سیاسی بیانیے کی مقبولیت، عمران خان کی جانب سے جوابی حکمت عملی کے تحت انتخابات کے نتائج سے پہلے ہی انتخابی دھاندلی کو بنیاد بناکر تمام اداروں پر دبائو بڑھانا، ووٹرز ٹرن آئوٹ میں حیرت انگیز اضافہ، مہنگائی یا موجودہ حکومت کی ناکامی، اتحادی جماعتوں کا مسلم لیگ(ن) کو تنہا چھوڑنا، مریم نواز کی انتخابی مہم میں جوابی بیانیے کی عدم موجودگی، پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کو پارٹی ٹکٹ جاری کرنا جیسے امور شامل ہیں۔ مسلم لیگ(ن) یا اس کے حمایتی میڈیا کی یہ منطق کہ یہ نشستیں تو تحریک انصاف ہی کی تھیں اور اب اگر وہ جیت گئے ہیں تو اس میں کون سی بڑی بات ہے! پہلی بات تو یہ ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں جنوبی پنجاب سے بیشتر ارکان آزاد حیثیت سے جیتے تھے جو بعد میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ ان منتخب افراد نے مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی دونوں کو شکست دی تھی، مگر اب براہِ راست پی ٹی آئی نے اپنے ٹکٹس پر انتخاب جیتا ہے جو اہمیت رکھتا ہے۔ دوسری بات، عمران خان کے مخالفین کا دعویٰ تھا کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے جنوبی پنجاب سمیت دیگر حلقوں میں جتوایا گیا تھا، وہ خود نہیں جیت سکتے تھے۔ مگر عمران خان نے ان تمام سیاسی پنڈتوں کو بھی ناکام کردیا جو ان کی سیاسی حقیقت کو قبول نہیں کرتے تھے۔
ان ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے یہ بھی ثابت کیا کہ اب اُس نے ماضی کے تجربات سے الیکشن ڈے والی مینجمنٹ بھی سیکھ لی ہے۔ صبح سے لے کر شام اور پھر رات گئے تک پولنگ اسٹیشنوں کی نگرانی اور اُس کی وکلا ٹیم کی براہِ راست پولنگ اسٹیشنوں پر موجودگی، نوجوانوں اور عورتوں کا ووٹروں کو موبلائز کرنا اوران کو ووٹ ڈلوانے کے لیے پولنگ اسٹیشن لانا بھی اس کی جیت کا سبب بنا ہے۔
ان ضمنی انتخابات کے بعد پنجاب میں شریف خاندان کے اقتدار کا سورج غروب ہوا،اوران کا بڑا چیلنج پنجاب کی سیاست میں دوبارہ واپسی ہوگا، اوریہ عمل اب روایتی طو رطریقوں سے نہیں ہوگا۔لیکن اب بڑا اور فوری چیلنج یہ ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف مرکز میں کیا حکمت عملی اختیا رکرتے ہیں، کیا وہ اقتدار کے ساتھ ہی رہنا پسند کریں گے یا خود ہی باہر نکل کر نئے انتخابات کا راستہ ہموار کریں گے۔ اس وقت حکومتی اتحادی ایم کیو ایم میں بھی مایوسی بڑھ رہی ہے اور وہ بہت دیر تک شہباز حکومت کا ساتھ نہیں دے سکے گی، کیونکہ اسے بھی لگتا ہے کہ شہباز حکومت کے ساتھ رہنا اس کے لیے سیاسی بوجھ سے کم نہیں ہوگا۔ عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین کو مجبور کردیا ہے کہ وہ پہلے سے موجود صف بندی سے باہر نکلیں اور اپنے لیے کچھ نیا کرنے کی کوشش کریں۔
ان ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ دونوں میں تعلقاتِ کار میں بھی بہتری کی امید پیدا ہوگی، اور پہلے ہی عمران خان کہہ چکے ہیں کہ ہم اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو کی پالیسی کے خلاف ہیں۔ ان کے بقول وہ فوری طور پر ملک میں نئے انتخابات چاہتے ہیں اورحکومت نئے انتخابات کا اعلان کرے تو وہ الیکشن کمیشن اورانتخابی اصلاحات پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ لیکن کیا حکومت ایسا کرے گی؟ اس کا فیصلہ چند دنوں میں سامنے آسکے گا،کیونکہ فی الحال حکومت اور بالخصوص پیپلزپارٹی یہ چاہتی ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے۔ ان کے بقول ہمیں عمران خان کے دبائو میں آنے کے بجائے ڈٹ کر حکومت کرنی چاہیے اور حالات کا مقابلہ کرکے عام انتخابات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ دیکھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں کون کس پر سیاسی برتری حاصل کرتا ہے۔