آج میر ابچہ ڈوبا ہے کل کسی اور کا ڈوبے گامظلوم باپ کا سوال
پاکستان کا سب سے بڑا اور روشنیوں کا شہر کراچی دیکھتے ہی دیکھتے ایک بار پھر موت کا شہر بن گیا ہے، اور اس کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر سفر کرو تو لگتا ہے کہ موہن جو دڑو کے کھنڈرات دیکھنے آئے ہیں۔ شہر اس وقت بدترین حالت میں ہے۔ حال ہی میں کراچی کے علاقے شادمان ٹاؤن میں موٹرسائیکل سوار فیملی ڈوبنے کے دلخراش واقعے نے ہر صاحبِ دل کو خون کے آنسو رلادیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق نارتھ ناظم آباد شادمان ٹاون میں رات گئے سیلابی ریلے میں موٹر سائیکل سوار بیوی اور بیٹی سمیت نالے میں جاگرا۔ اس دلخراش واقعے کے بعد علاقہ مکینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بائیک سوار کو نالے سے نکال لیا، تاہم اس کی بیوی اور دونوں بچے پانی کے تیز بہاو میں بہہ گئے۔ شہریوں کا کہنا تھا کہ خراب سڑک اور اندھیرے کے باعث موٹرسائیکل بے قابو ہوکر نالے میں گری۔ شادمان سیکٹر چودہ اے کا یہ نالہ ہر بارش میں حادثات کا سبب بنتا ہے۔ میں نے خود اس واقعے کی تفصیل کے لیے اپنے جاننے والے محمود صاحب کو فون کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ پچھلے سال میں خود اس نالے میں موٹر سائیکل سمیت گرچکا ہوں اور میرا صرف ایک ہاتھ باہر تھا، اور اگر وہ دوسرا موٹر سائیکل سوار نہیں دیکھتا تو آج میں آپ سے بات نہیں کررہا ہوتا۔ یہ صرف شادمان کے علاقے کی بات نہیں ہے، پورا شہر ہی اس وقت اس صورت حال سے دوچار ہے۔ شہر کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نعمت اللہ خان کے دورِ نظامت کے بعد گزشتہ 17برسوں میں کراچی بہت پیچھے چلا گیا ہے، شہر میں کوئی بڑا منصوبہ مکمل نہیں کیا گیا، پانی کا K-4منصوبہ، سرکلر ریلوے اور ماس ٹرانزٹ سمیت بہت سے منصوبے جو انہوں نے شروع کیے تھے، آنے والی حکومتوں نے مکمل نہیں کیے۔ یہاں تک کہ اس شہر کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں، ملک کے سب سے بڑے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی بندوبست نہیں، کراچی کے نوجوان روزگار اور تعلیم سے محروم ہیں، عوام کو صحت اور صفائی ستھرائی کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ شادمان نالے پر ہونے والے واقعے کا ذمہ دار کون ہے؟ کراچی کی موجودہ بدحالی کا ذمہ دار کون ہے؟ کراچی ہمیشہ سے تو ایسا نہیں رہا… یہ تو صاف ستھرا منظم شہر تھا۔ جس وقت پاکستان قائم ہوا تب کراچی شہر کو جنوبی ایشیا کا سب سے صاف ستھرا شہر تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ آہستہ آہستہ اپنوں اور غیروں نے مل کر کھلواڑ کیا۔ کہتے ہیں فوجی آمر ایوب خان نے اس کھلواڑ کا آغاز کیا اور راتوں رات دارالحکومت اٹھا کر اسلام آباد کے جنگلوں میں بسا دیا، اور کراچی کے لوگ تماشا دیکھتے رہے، پھر پیپلز پارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو نے پہلے اردو کو سندھ سے رخصت کیا، پھر 10سال کے لیے نوکریوں پر کوٹا سسٹم نافذ کردیا۔ پھر جب دوسرا مارشل لا لگا تو ضیاء الحق نے اس کوٹہ سسٹم کو ختم کرنے کے بجائے مزید 10سال کے لیے اور بڑھا دیا جو آج تک جاری ہے۔ نوکریوں کی ایسی بندش پاکستان کے کسی صوبے میں نہیں ہے، اس کے باوجود کہ تین جمہوری حکومتوں کے صدور کا تعلق کراچی سے ہے۔ پھر ایک دور میں کراچی ملکی اور غیر ملکی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں ایم کیو ایم کے پاس رہا، جو اس شہر کی بادشاہ بنی رہی۔ وقت کا ڈی جی رینجرز نائن زیرو میں حاضری لگاتا تھا۔ لیکن ایم کیو ایم نے اس شہر کو قتل و غارت گری اور تباہی کے سوا کچھ نہیں دیا اور ایک پوری نسل کو برباد کردیا، جس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔ اچھے بھلے گھرانوں کے بچے اس لہر میں تباہی کا شکار ہوگئے اور کانے، لولے اور کن کٹے کے نام سے پکارے جانے لگے اور یہی ان کی شناخت بن گئی۔ پھر آج پیپلز پارٹی 14سال سے مسلسل اقتدار میں ہے، اُس نے کیا دیا وہ ہمارے سامنے ہے اور کراچی کا ہر شہری دیکھ رہا ہے۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے تو مل کر بھی کئی بار اس شہر کو لوٹا ہے۔ پیپلز پارٹی نے خصوصی طور پر متحدہ کے سابقہ دور میں کراچی کے اہم ادارے کے ڈی اے کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا نام دے کر ختم کردیا، کراچی روڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کو سندھ روڈ اتھارٹی، کے ایم سی کو سندھ بلدیات کے ماتحت کرکے اس کے میئر کو مفلوج کردیا ہے۔ اس شہر کے ساتھ ان لوگوں نے کیا کیا ہے؟ کراچی کیسے برباد ہوا؟ اس پر اگر کتاب لکھی جائے تو پانچ ہزار صفحات بھی کم پڑجائیں۔ کراچی کے لوگوں نے ایم کیو ایم اور اسٹیبلشمنٹ سے ناراضی کے بعد عمران خان کا ساتھ دیا اور پہلی مرتبہ بھاری اکثریت سے کراچی میں 14قومی اور 22سیٹیں صوبائی اسمبلی کی دلوائیں،پھر خواتین کی اضافی 9نشستیں بھی ملیں۔حتیٰ کہ صدرِ پاکستان،گورنر سندھ، صدر کراچی پیکیج،اقلیتی اضافی سیٹ،چیئر مین ایف بی آر سب کاتعلق کراچی سے رہا اور ایم کیو ایم جو آج پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے وہ ان کے ساتھ رہی، لیکن عمران خان بھی بدقسمتی سے کراچی کو بہت دعووں کے باوجود کچھ نہیں دے سکے، اور اس شہر کی بدنصیبی کا سفر جاری ہے۔
ظاہر میں تو لگتا ہے کہ کراچی کے عوام ان سب جماعتوں سے بیزار اور مایوس ہوچکے ہیں۔ اب دو دن بعد 24جولائی کو بلدیاتی انتخابات ہیں، شہر کے لوگوں کے پاس ایک بار پھر موقع ہے کہ وہ کراچی کو بدلنے کے لیے ٹھیک اور درست لوگوں کا انتخاب کریں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اب کراچی کے لیے واحد آپشن جماعت اسلامی ہے، کراچی کے عوام جماعت اسلامی پر اعتماد کریں، جماعت اسلامی کے بلدیاتی نمائندے عوام کو کبھی مایوس نہیں کریں گے۔ کراچی میں جماعت اسلامی کا میئر کامیاب ہوا تو تعمیر و ترقی کی نئی مثالیں قائم کرے گا۔ پورے شہر کی بلا امتیاز خدمت کرے گا، اپنی اہلیت، ایمان داری اور دیانت داری ثابت کرے گا۔
اب اس میں کیا شبہ ہے کہ امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن اور ان کے کارکنان سالوں سے اس شہر کے حق کی جنگ لڑرہے ہیں، انہوں نے اپنا تن من دھن شہر کے لوگوں کے لیے لگادیا ہے۔
شادمان نالے میں ایک خاندان ڈوبنے کی خبر پر اپنی تمام انتخابی سرگرمیاں چھوڑ کر امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم جائے حادثہ پر پہنچ گئے اور امدادی کاموں کی بذاتِ خود نگرانی کی، اس موقع پر میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کی نااہلی کے باعث یہ افسوس ناک حادثہ پیش آیا، بارش سے نالہ اوورفلو ہوا تھا، جس کے نتیجے میں فیملی موٹر سائیکل سمیت نالے میں ڈوب گئی، جماعت اسلامی کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ شادمان نالے کو فوری طور پر تعمیر کرایا جائے، تاہم کوئی شنوائی نہ ہوسکی اور آج یہ افسوس ناک واقعہ رونما ہوگیا، ایک خاص منصوبے کے تحت شہرِ قائد کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے،سندھ حکومت اور سیاسی ایڈمنسٹریٹر کی نااہلی کی وجہ سے قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے،شادمان نالے کی تباہی کی اصل ذمہ دار ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی ہیں، شادمان نالے کو غلط جگہ سے موڑا گیا جو آج تک تباہی کا باعث بنا ہواہے۔ یہ وہی نالہ ہے جس کے بارے میں ماضی میں جماعت اسلامی نے مطالبہ کیا تھا کہ اسے فوری طور پر بند کیا جائے اوراس کی ازسرِ نوتعمیر کی جائے۔شادمان نالے کی تعمیر کے حوالے سے کبھی ٹینڈر پاس کیا جاتاہے اور کبھی کچھ کیا جاتا ہے، لیکن عملاً کچھ نہیں کیاجاتا۔کیونکہ امیر جماعت اسلامی کراچی، کراچی میں رہتے ہیں اور کراچی کو سمجھتے ہیں اور ہمیشہ دبنگ اور بھرپور انداز میں اپنا مؤقف پیش کرتے ہیں۔
اس موقع پر جب ایک باپ نے حافظ نعیم الرحمٰن سے کہا کہ ”یہ نالے بند کروا دیں خدا کے لیے۔ آج میرا بچہ ڈوبا ہے، کل کسی اور کا ڈوبے گا“، تو شہری کی فریاد سن کر حافظ نعیم الرحمٰن جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور درست سوال اپنے آنسوؤں کے ساتھ سوال کیا کہ حکمران بتائیں شادمان نالے پر ہونے والے واقعے کا ذمہ دار کون ہے؟پیپلز پارٹی کے سیاسی ایڈمنسٹریٹر کیا عوام کے تحفظ کے لیے نالے کے اردگرد حفاظتی اقدامات نہیں کرسکتے تھے؟ ندی نالوں کی صفائی کے لیے اربوں روپے کا بجٹ تو مختص کیا جاتا ہے لیکن عملاً کوئی کام نہیں ہوتا، شہر میں 30 ہزار سے زائد ایسی عمارتیں ہیں جو ٹائم بم بنی ہوئی ہیں، ایس بی سی اے کا ادارہ صرف چند پیسوں کے لیے عوام کی جانوں سے کھیل رہا ہے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے پریس کانفرنس میں پانی میں بہہ جانے والے بچے کے والد کا جملہ دہرایا جو انہوں نے حافظ نعیم الرحمٰن سے کہا تھا کہ ”میرا بیٹا تو ڈوب گیا خدارا اوروں کے بیٹوں کو بچانے کے لیے انتظامات کیے جائیں“۔ اس پس منظر میں ان کی کراچی کے شہریوں سے یہ اپیل تو بنتی ہے اور وہ اور ان کی جماعت ہی اس شہر میں یہ کہنے کے حق دار ہیں کہ ”24جولائی کے دن لوگ گھروں سے نکلیں اور انتخابی نشان ترازو پر مہر لگاکر جماعت اسلامی کا میئر لائیں، جماعت اسلامی اگلے چار سال تک عوام کے حقوق کے حصول کے لیے جنگ لڑے گی اور حکمرانوں سے کراچی کے ادھورے منصوبے مکمل کروائے گی“۔ جماعت اسلامی کراچی شہر کے لیے امید اور حق کی آواز ہے۔ یہ پورے سماج کا قرض ہے جو جماعت اسلامی اور اس کے پُرعزم کارکنان ادا کررہے ہیں، اور یہ سب کچھ اس شہر کی حالتِ زار کو درست کرنے، اس کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بنانے اور اس کے مستقبل کو محفوظ رکھنے کے لیے کررہے ہیں۔ جماعت اسلامی نے اپنی اب تک کی جدوجہد سے ثابت کیا ہے کہ وہی اس شہر کو اس کا حق دلانے میں سنجیدہ ہے، اور شہر کو ”اون“ کرتی ہے۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ حافظ نعیم الرحمٰن اگر کراچی کے میئر بن گئے تو شہریوں کے حقوق کے حصول کے لیے چین سے نہیں بیٹھیں گے، وفاقی و صوبائی حکومتوں سے اہلِ کراچی کا حق چھین کر لیں گے۔ کراچی کے عوام کے ساتھ کھڑے ہوں گے جیسے ہمیشہ کھڑے رہتے ہیں۔
جماعت اسلامی نے ماضی میں شہر کو گرین اور کلین کیا تھا، وہ ایک بار پھر شہر کو آباد کرسکتی ہے، اور رہنے کے قابل بنا سکتی ہے۔
ابھی زیادہ پرانی بات نہیں، میں نے امیر جماعت اسلامی کراچی سے ایک انٹرویو میں پوچھا تھا کہ ”موجودہ حالات میں کراچی کے عوام سے کیا توقع رکھتے ہیں اور انہیں کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟“ تو اس پر حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ”کراچی کے عوام کو ہمارا پیغام یہ ہے کہ اپنے آپ کو تنہا کردینا، دنیا سے، امت سے، پاکستان سے کٹ جانا… اس نے ہمیں فائدہ نہیں پہنچایا بلکہ نقصان پہنچایا ہے۔ بند گلی کی سیاست نے ہمیں برباد کردیا ہے۔ کراچی کے عوام اس سوچ کو تبدیل کریں، اس سے باہر نکلیں اور سیاسی، سماجی اور تہذیبی اعتبار سے اُن لوگوں کا ساتھ دیں اور اُن لوگوں کو مضبوط کریں جو آپ میں وسعت پیدا کرتے ہیں۔
اس سے بڑی تبدیلی آئے گی۔ میں(حافظ نعیم الرحمٰن )جماعت اسلامی کے کارکن اور ذمے دار کی حیثیت سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ ہم کراچی کے لوگوں کو تنہا نہیں ہونے دیں گے۔ اگر کراچی کے لوگوں نے ہم پر اعتماد کیا اور جتنا بھی کیا تو اِن شاء اللہ تعالیٰ ہم ان کی آواز بنیں گے اور ان کا کھویا ہوا مقام واپس دلائیں گے۔ ہم دل سے اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کراچی نے اپنا بہت نقصان کرلیا ہے۔ ہم کراچی کی آواز ہیں اور بننا چاہتے ہیں۔ ہم نے اس شہر کی خدمت کی ہے۔ ہم یہ بات ہوائوں میں نہیں کررہے، میدان میں رہتے ہوئے یہ بات کررہے ہیں۔ میں یہ ضرور کہوں گا کہ لوگوں کو بھی اپنے رویوں کو بدلنا چاہیے، انہیں بھی سوچنا ہوگا کہ 33 سال کے اس سارے عمل میں کیا کھویا، یا کیا پایا؟“
انہوں نے اس انٹرویو میں اپنے کارکنان سے بھی کہا تھا کہ ”اپنی 30 سال کی جدوجہد کے جو مراحل تھے اس کے تقاضے پورے کیے ہیں اور اس پر ہم اللہ کاشکر ادا کرتے ہیں، اب جو تقاضے ہیں وہ اس سے آگے کے ہیں اور وہ تقاضے یہ ہیں کہ ہم اپنے دلوں کو وسیع کریں، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر چلیں، ہمارے تنظیمی دفتر عوامی دفتر ہونے چاہئیں۔ تنظیمی اجتماعات میں عوامی ایجنڈے ہونے چاہئیں، ساتھ ساتھ نظریاتی ایجنڈا بھی ہونا چاہیے۔ ہم اول تا آخر نظریاتی تحریک ہیں، کارکنوں کو نظریاتی طور پر اپنی بنیادوں کے ساتھ جڑنا ہوگا۔“
اب کراچی کے مستقبل کا فیصلہ کراچی کے لوگوں کے اپنے ہاتھ میں ہے، 24جولائی کو انہیں فیصلہ کرنا ہے کہ آج جو شہر ایک مرتبہ پھر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور حسرت کی علامت بن گیا ہے، اس کو پھر تعمیر کرنا ہے اور روشنیوں کا ایسا شہر بنانا ہے کہ جس میں پھر کبھی اندھیرا نہ ہو۔