جس طرح ہم بدلتے موسم میں نزلہ زکام سے بچنے کے لیے اسپرین لیتے ہیں اسی طرح ماہرین نے پودوں کو موسمیاتی شدت سے بچانے کے لیے قدرتی اسپرین دریافت کی ہے جسے سیلی سائیکلِک ایسڈ کا نام دیا گیا ہے۔ سیلی سائیکلک ایسڈ پودوں میں قدرتی طور پر پایا جاتا ہے۔ یہ ایک نامیاتی مرکب ہے جو اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب پودے حرارت یا خشک سالی سے گزرتے ہیں۔ اب ماہرین کا اصرار ہے کہ عین اسی عمل سے بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت میں پودوں کو تندرست و توانا رکھا جاسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیلی سائیکلک ایسڈ سے ہی اسپرین تشکیل پاتی ہے، اور ایک عرصے سے اسے دردکُش دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے، یہاں تک کہ قدیم مصری بھی اسے دیسی دوا کے طور پر استعمال کرتے آرہے ہیں اور وہ ایسے پودوں کے پتوں کو پیس کر جوشاندہ بناتے تھے۔
جامعہ کیلیفورنیا، ریورسائیڈ کے سائنس دانوں نے سیلی سائیکلک ایسڈ بننے کا عمل بغور دیکھا ہے۔ پہلے ری ایکٹو آکسیجن اسپیشیز (آر او ایس) کا مطالعہ کیا جو تمام پودوں میں موجود ہوتے ہیں اور ماحولیاتی دباؤ کے وقت خارج ہوتے ہیں اور یہ عمل انسانوں میں بھی ہوتا ہے۔
آر او ایس پودے کی ہنگامی حالت کی پکار ہوتے ہیں اور اس کے بعد وہ سیلی سائیکلِک ایسڈ بنانے لگتے ہیں۔ پھر ماہرین نے دیکھا کہ عربی ڈوپسِس نامی پودا جب جب حرارت، دھوپ اور خشک سالی سے گزرتا ہے تو ایک سالمہ (مالیکیول) بناتا ہے جس سے سیلی سائیکلِک ایسڈ بننے لگتا ہے۔ سیلی سائیکلِک ایسڈ اپنی تشکیل کے بعد فوٹوسنتھے سز میں اہم کردار ادا کرنے والے کلوروپلاسٹ کی حفاظت بھی کرتا ہے۔
امید ہے کہ سیلی سائیکلِک ایسڈ بننے کے عمل کو سمجھ کر اس سے موسمیاتی شدت اور گلوبل وارمنگ کے شکار پودوں، فصلوں اور درختوں کو بچانا ممکن ہوگا۔ آب و ہوا کے تغیر سے پودوں اور درختوں پر بہت دباؤ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس ضمن میں سیلی سائیکلک ایسڈ کی اہمیت مزید واضح ہوجاتی ہے۔ اگر ہم کسی طرح پودوں کو حسبِ ضرورت یہ ایسڈ بنانے کے قابل بناتے ہیں تو اس سے عالمی زراعت کا بہت بڑا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔