یہ کیا راز ہے کہ کوئی صحرا میں عظیم بن رہا ہے، کوئی پہاڑوں پر عظیم ہورہا ہے، کوئی فتوحات میں اور کچھ لوگ شکست میں عظیم ہوگئے۔ یونان نے روم کو فتح کرلیا اور رومیوں کی صلاحیتوں سے متاثر ہوکر فاتح یونانی اُن کے شاگرد ہوگئے، اُن سے سیکھنے لگ گئے۔ فاتح ہونے کے بعد اُن کے غلام ہوگئے۔ یزید فاتح ہوا لیکن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باعث ِ ندامت۔
بہرحال عظیم لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو پیدا ہوتے ہی عظیم ہوتے ہیں۔ ان کی پیدائش پر فطرت کی طرف سے نشانیاں نازل ہوتی ہیں، چرند پرند کو باخبر کیا جاتا ہے کہ آگیا وہ جسے بھیجا گیا عظمت کا تاج پہننے کے لیے۔ چھوٹے دل والے لوگ اس میں حسد نہ کریں، یہ اس سماج کی بہت عزت ہے جس میں منتخب اور مقدس نفوس کو بھیجا جائے۔ چھوٹا آدمی جھگڑتا ہے، لڑتا ہے کہ اسے عظیم ہونا تھا، وہ پروں کے بغیر پرواز کرنا چاہتا ہے، وہ صلاحیتوں کے بغیر مرتبہ چاہتا ہے، وہ حق کے بغیر حصہ لینا چاہتا ہے، اس کے نصیب میں محرومی لکھی جاچکی ہے۔ فطرت کے کام دیکھتے جائو، اس نے کوا بنایا اور مور بنایا۔ یہ بظاہر فرق ہے لیکن دونوں ایک ہی جلوے کے حصے ہیں۔ رات دن کا حصہ ہے، دن رات کا حصہ ہے۔ زندگی موت کا حصہ ہے، موت زندگی کا حصہ ہے۔ اس میں جھگڑے کی کوئی بات نہیں۔
دوسری قسم کے عظیم لوگ وہ ہیں جو محنت کو کرامت بناتے ہیں۔ وہ اپنے عمل میں تواتر قائم کرتے ہیں، اپنی لگن میں استقامت قائم کرتے ہیں، اپنے سفر میں یکسوئی حاصل کرتے ہیں، اور چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ چل کر آخر ایک دن وقت کی بلند چوٹیاں سر کرلیتے ہیں۔ یہ کام بھی ہر ایک کے بس کا نہیں ہے۔ چھوٹے ظرف کے لوگ اگر یہ عزم کرلیں کہ کسی درخت کے پتّے گن کر دم لیں گے تو آدھا کام کرنے کے بعد وہ بالعموم یہ کہیں گے ’’چھوڑو یہ کیا کام ہے، ہم کوئی اور بڑا کام کریں گے‘‘۔ اور اس طرح مقاصد بدلتے بدلتے بے مقصدیت پیدا کرکے گمنامیوں کی وادیوں میں چلے جاتے ہیں۔
تیسری قسم کے عظیم لوگ وہ انسان ہیں جنہیں کوئی لمحہ، خوش نصیب لمحہ، کوئی انسان، کوئی نصیب ساز انسان، کوئی واقعہ، کوئی خوش گوار واقعہ اچانک ان کے پاس سے گزرتا ہوا انہیں عظیم بنا جاتا ہے۔ ایسے کتنے لوگ ہیں جو رات کو گمنامی کی نیند سوئے اور صبح ناموری کی روشنی میں بیدار ہوئے۔ یہ تو عام فہم بات ہے۔ کسی خاموش شاعر کا کلام چھپنے سے پہلے عظیم نہیں ہوتا، اور کلام چھپ جائے تو ناموری عطا ہوجاتی ہے۔ ایک انسان اپنے شب و روز میں میانہ زندگی گزار رہا ہے۔ اس کے سامنے ایک چیلنج آتا ہے، وہ اس چیلنج کو قبول کرتا ہے اور ایک خوش بخت عمل کر گزرتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ وہ عظیم غازی علم الدین شہید بن جاتا ہے۔ اس طرح بے شمار مثالیں ہیں ان لوگوں کی، جنہیں واقعات نے عظیم بنایا۔
یہاں تک تو بات واضح ہے کہ عظیم لوگ آتے رہتے ہیں، اپنی عظمتوں کو فیض بناتے ہیں اور کبھی کبھی اپنی عظمتوں کو ایک جھنڈا بناکر کسی سرزمین پر گاڑ جاتے ہیں۔ آنے والی نسلیں انہیں دعائیں دیتی ہیں۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ مذہب کے حوالے سے عظیم لوگوں کے ساتھ وابستگی اُس وقت تک خطرناک ہوسکتی ہے جب تک وہ عظیم لوگ ایک مذہبی زندگی نہ گزار رہے ہوں۔ ہم تھوڑی دیر کے لیے عظیم لوگوں کو باعثِ عزت سمجھتے ہوئے اپنے لیے اولی الامر مان لیں تو اولی الامر کا اللہ اور اللہ کے رسولؐ کا تابع بننا ضروری ہے ورنہ اُس کی اطاعت کے بجائے اُس کے خلاف جہاد لازمی ہے۔ یہ بات ہمارا ذہن قبول نہیں کرسکے گا۔ ہم کسی ایک صفت میں حاصل ہونے والی عظمت کے نتیجے میں بننے والے عظیم آدمی کو باعث ِ تقلید مان لیتے ہیں اور یہاں سے خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔
ایک عظیم وکیل ضروری نہیں کہ عظیم امام مسجد ہو۔ بس عظیم کو اسی شعبے تک عظیم سمجھنا چاہیے جس میں اس نے عظمت حاصل کی۔ اس شعبے میں اُس کی تقلید بھی جائز ہے۔ لیکن اُس کو اُس کے شعبے سے نکال کر دوسرے شعبے میں باعثِ عظمت ثابت کرنا دھوکا ہے۔ مثلاً لارڈ رسل کا فلسفہ صحیح ہے، خوب صورت ہے، لیکن اُس کی زندگی کی تقلید کرنا ہمارے لیے جائز نہیں ہے۔ اُس کا فلسفہ سند لیکن اُس کی زندگی مومن کے لیے غیر مستند ہے۔
اپنے ہاں بھی جو لوگ عظیم ہیں، اُن کی زندگی کا بغور مطالعہ کیا جائے۔ جس شعبے میں اور جس مقام پر وہ عظیم ہیں اُن کو سلام پیش کیا جائے، اور جہاں اُن کی زندگی معذرت سے گزر رہی ہے وہاں سے گریز کیا جائے۔
(واصف علی واصف۔ ”حرف حرف حقیقت“)
مجلس اقبال
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی
علامہ بسااوقات غفلت اور بے عملی میں ڈوبی ہوئی اپنی قوم کو جگانے کے لیے غصے اور جلال کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں تو اگلے لمحے یہ بتا دیتے ہیں کہ میرے کلام کی تلخی دراصل اُس کڑوی دوا کی طرح ہوتی ہے جس کے نتیجے میں مریض کو شفا نصیب ہوتی ہے، اور اسی طرح بعض اوقات کسی مہلک زہر کا مقابلہ بھی ایسے اجزا پر مشتمل دوا سے کیا جاتا ہے جو زہر کو کاٹ کر بے اثر کر دیتی ہے اور اسے تریاق کہا جاتا ہے۔