پنجاب کے ضمنی انتخابات میں نئی تاریخ رقم ہوئی ہے، ماضی میں عام طور پر ضمنی انتخاب میں حکمران جماعت ہی کے کامیابی سمیٹنے کی روایت رہی ہے مگر سترہ جولائی کو اس کے برعکس وفاق اور پنجاب میں حکمران ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اقتدار سے محروم کی جانے والی تحریک انصاف بیس میں سے پندرہ صوبائی حلقوں میں کامران رہی ہے ایک قابل ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ ان ضمنی انتخابات میں ملک کی تاریخی حریف جماعتیں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی تحریک انصاف کے مقابلہ کے لیے حلیف بن گئیں اورپیپلز پارٹی نے اپنے امیدوار واپس لے کر باقاعدہ نواز لیگ کی حمایت کا اعلان کیا جب کہ پی ڈی ایم کی دیگر درجن بھر جماعتوں کی تائید و حمایت بھی نواز لیگ کے امیدواروں کو حاصل تھی ، یوں بھی پنجاب کو نواز لیگ کا قلعہ تصور کیا جاتا تھا مگر ضمنی انتخابات کے نتائج نے سب کچھ ملیا میٹ کر کے رکھ دیا۔ بڑے بڑے برج الٹے پڑے دکھائی دیئے، حکومتیں بنانے بگاڑنے کے دعویدار خود کو ناگزیر قرار دینے والے ’’الیکٹیبلز‘‘ ان کی برادریاں، خانوادے اور دھڑے بندیاں سب کی سب دھری رہ گئیں، عوام نے پارٹیاں اور وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو نشان عبرت بنا دیا۔ غیر ملکی اور ملکی اداروں کی مداخلت بھی ناقابل قبول قرار پائی۔ رائے دہندگان نے ’’لوٹا ازم‘‘ کے خلاف واضح پیغام دے دیا کہ ملکی سیاست میں اب ضمیروں کی خرید و فروخت کی مزید کوئی گنجائش موجود نہیں۔ ضمنی انتخابات کا ایک خوش گوار حیرت انگیز پہلو یہ بھی رہا کہ ان انتخابات میں رائے دہی کا تناسب پچاس فیصد کے قریب رہا جب کہ ماضی میں ضمنی انتخابات میں یہ تناسب پندرہ سولہ فیصد سے بڑھنے نہیں پاتا تھا حتیٰ کہ عام انتخابات میں بھی عموماً رائے دہی کی شرح عموماً چالیس پنتالیس فیصد ہی رہا کرتی ہے۔ گویا ان ضمنی انتخابات میں رائے دہندگان کی خاصی بڑی نئی تعداد نے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا جو یقینا اطمینان کا پہلو اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ ایک اور خوش آئند پہلو یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ یہ ضمنی انتخابات ماضی کے مقابل عمومی طور پر خاصے پر امن ماحول میں منعقد ہوئے اور کسی قسم کا جانی نقصان اس دوران نہیں ہوا۔ یہ امر بھی خوش کن ہے کہ مجموعی طور پر انتخابی نتائج کو فریقین نے قبول کر لیا ہے…!!!
ضمنی انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد اگرچہ صورت حال یہ بنتی دکھائی دے رہی ہے کہ وفاق میں حکمران نواز لیگ صوبائی سطح پر کہیں بھی اقتدار میں موجود نہیں۔ پنجاب اور صوبہ خیبر میں تحریک انصاف، سندھ میں پیپلز پارٹی اور بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) حکومت میں ہوں گی حتیٰ کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی تحریک انصاف کی حکومتیں ہیں مگر اس کے باوجود حکمران اتحاد کا یہ اصرار ہے کہ وفاقی حکومت مدت پوری کرے گی، یہ اتحاد اسمبلیوں کی تحلیل یا فوری نئے انتخابات پر آمادہ نہیں جب کہ دوسری جانب تحریک انصاف کے سربراہ سابق وزیر اعظم عمران خاں نے ضمنی انتخابات کے بعد اپنے پہلے خطاب میں بھی اپنے سابقہ مطالبے کو دہرایا ہے کہ ملک میں سیاسی بحران کے خاتمہ کے لیے ار سر نو صاف اور شفاف انتخابات کرائے جائیں، وہ ذاتی طور پر اگرچہ حکمران پی ڈی ایم کی قیادت کو بدعنوان اور کرپٹ قرار دیتے اور ان کے ساتھ کسی بھی صورت بیٹھنے اور ہاتھ ملانے سے انکاری ہیں تاہم تحریک کے دیگر قائدین نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی ہے کہ اگر وزیر اعظم شہباز شریف اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے کر نئے انتخابات کا اعلان کریں تو ان کے ساتھ بیٹھ کر نئے الیکشن کمیشن، انتخابی اصلاحات اور شیڈول وغیرہ جیسے امور طے کیے جا سکتے ہیں۔ اس وقت ملک کا نظام بحرانی کیفیت سے دو چار ہے، پاکستانی کرنسی تاریخی بے قدری کی شکار ہے، اسٹاک مارکیٹ میں مندی ہے، مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، بے روز گاری سے عام آدمی بری طرح پریشان ہے، جب کہ ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد ملک کی بیورو کریسی پر بھی سکتہ طاری ہے، امور مملکت انجماد کے شکار ہیں کیونکہ فیصلہ سازی نئی صورتحال میں دشوار ہو چکی ہے ایسے میں ملک کو بحران سے نکالنے کا واحد راستہ نئے انتخابات ہی کی شکل میں نظر آ رہا ہے مگر اس سے قبل یہ بھی لازم ہے کہ تمام جماعتیں انتخابی اصلاحات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے مذاکرات کا آغاز کریں تاکہ آئندہ انتخابات کے نتائج کو قابل قبول بنایا جا سکے اور قوم اعتماد کی فضا میں انتخابی عمل میں حصہ لے…!!!
تحریک انصاف اور اس کے سربراہ کا اگرچہ تمام تر زور نئے انتخابات کے مطالبہ پر ہے مگر سوال یہ ہے کہ وہ اپنے اس مطالبہ میں کس قدر سنجیدہ ہیں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اگر سنجیدگی سے چاہتے تو ضمنی انتخابات سے قبل بھی اس پوزیشن میں تھے کہ ملک میں از سر نو انتخابات کا ڈول ڈال سکیں، اب ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد تو گیند سو فیصد ان کے کورٹ میں ہے کہ وہ ملک کو کب نئے انتخابات کی جانب لے جانا چاہتے ہیں، بڑی سیدھی سی بات ہے کہ اگر تحریک انصاف اور اس کے حامی قومی و صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائیں تو ملک کا نظام حکومت ایک قدم بھی آگے نہیں چل سکتا تحریک انصاف دو صوبوں میں اسمبلیاں تحلیل کر دے اور قومی اسمبلی اور باقی دو اسمبلیوں میں اپنے ارکان کو سپیکر کے روبرو کھڑا کر کے استعفیٰ پیش کر دے تو حکومت اور اداروں کے پاس نئے انتخابات کروانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ جمہوری نظام کو چلانے کے لیے باقی نہیں رہتا۔ تاہم محسوس یوں ہوتا ہے کہ عمران خاں نئے انتخابات کی بات تو کر رہے ہیں مگر وہ ابھی اس ضمن میں سنجیدہ نہیں اور اپنی کچھ شرائط حکومت اور اداروں سے منوانا چاہتے ہیں جس کے لیے وہ دبائو بڑھا رہے ہیں…!!!
(حامد ریاض ڈوگر)