ایک خوف ناک اور ہیبت ناک منظر

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
” قیامت کی نشانیوں میں یہ بھی ہے کہ (دین کا) علم اٹھ جائے گا اور جہالت جم جائے گی اور شراب کو (کثرت سے) پیا جائے گا ،زنا علانیہ ہوگا“۔
(بخاری ،جلد اول کتاب العلم ،حدیث نمبر80)

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔
’’قسم ہے ان (گھوڑوں) کی جو پھنکارے مارتے ہوئے دوڑتے ہیں، پھر (اپنی ٹاپوں سے) چنگاریاں جھاڑتے ہیں، پھر صبح سویرے چھاپہ مارتے ہیں، پھر اس موقع پر گرد و غبار اڑاتے ہیں، پھر اسی حالت میں کسی مجمع کے اندر جاگھستے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے، اور وہ خود اس پر گواہ ہے، اور وہ مال و دولت کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ یہاں سواروں کے دستے کی قسم اٹھاتا ہے۔ ان کی ایک ایک جنگی حرکت کو ترتیب کے ساتھ لایا جاتا ہے۔ جب یہ دستہ اپنے حملے کا آغاز کرتا ہے اور تیز رفتاری کے ساتھ منزل کی طرف بڑھتا ہے۔ گھوڑے پھنکار مارتے آگے جارہے ہیں۔ یہ اپنے سموں سے پتھروں سے چنگاریاں نکالتے جاتے ہیں۔ پھر عین صبح کے وقت یہ دشمن پر ٹوٹ پڑتے ہیں، یہ حملہ نہایت سرعت کے ساتھ ہوتا ہے اور اچانک ہوتا ہے۔ حملے کے وقت گھوڑوں کی بھگدڑ سے غبار اُڑتا ہے۔ چونکہ دشمن حملے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور اس کی حرکات غیر مرتب ہیں، اس لیے جب یہ دستہ دشمن کی صفوں میں خلافِ توقع جاگھستا ہے تو سخت انتشار و اضطراب برپا ہوجاتا ہے۔
یہ کسی بھی حملے کے وہ پے درپے اقدامات ہیں جن سے عرب خوب واقف تھے۔ اس قسم کے دستے اور گھوڑوں کی حرکات کی قسم کھانے کا مطلب یہی ہوا کہ اسلام میں اس قسم کے معرکے بہت محبوب ہیں، یہ اللہ کو بھی محبوب ہیں، اللہ ایسی حرکات کو اچھی نظروں سے دیکھتا ہے اور یہ پسندیدہ قدریں ہیں۔
پھر، یہ مناظر اور جنگی ایکشن ان معانی سے زیادہ ہم آہنگ ہیں جن پر یہاں قسم اٹھائی جارہی ہے، جیسا کہ ہم نے تبصرے میں وضاحت کی۔ جس مفہوم اور معانی پر قسم اٹھائی جارہی ہے، یہ انسان کی ایک نفسیاتی بیماری ہے، اور یہ انسان کو اُس وقت لاحق ہوتی ہے جب انسان نفسیات ایمان سے خالی ہوں۔ قرآن مجید اس حقیقت کی طرف بار بار اشارہ کرتا ہے تاکہ لوگ اس کے خلاف جدوجہد کریں۔ اس لیے کہ اللہ کو معلوم تھا کہ انسانی نفسیات کے اندر یہ بیماری کس قدر گہری جڑیں رکھتی ہے، اور انسانی شخصیت پر اس کے کتنے اثرات ہوا کرتے ہیں۔
’’حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے اور وہ خود اس پر گواہ ہے، اور وہ مال اور دولت کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے‘‘۔(100:6 تا 8)
بے شک انسان اپنے رب کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے اور اللہ کے فضل و کرم کا عملی انکار کرتا ہے، اور اس کی یہ ناشکری اور کفرانِ نعمت کئی شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے اس کے افعال سے اور اس کے اقوال سے.. چنانچہ اس کے اعمال و اقوال ہی اُس کے اس جرم پر گواہ ہوتے ہیں۔ گویا آفتاب آمد دلیل آفتاب، وہ اپنے اوپر خود گواہ بن جاتا ہے اور قیامت میں بھی ایسا ہی ہوگا۔
’’وہ خود اس پر گواہ ہے‘‘ (7:100)
اور ایک دن ایسا آئے گا کہ سچائی کی شہادت خود اپنے خلاف دے گا، جس میں کوئی شک اور نزاع نہیں۔
’’اور یہ مال و دولت کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے‘‘ (8:100)
یہ اپنی جان اور اپنے مفاد کو بہت ہی محبوب رکھتا ہے، اس لیے اسے دولت کے ساتھ بہت محبت ہے۔ دولت کو یہاں ’’خیر‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، کیونکہ انسان سمجھتا ہے کہ اس کی بھلائی مال و متاع اور اقتدار و حکومت میں ہے جو دنیا کے سازو سامان ہیں۔
یہ ہے انسان کی فطرت، یہ ہے اس کا مزاج.. اور یہ تب بدل سکتا ہے جب اس کے مزاج اور اس کی نفسیات میں ایمان داخل ہوجائے۔ ایمان کی وجہ سے اس کے تصورات، اس کی قدریں اور اس کے پیمانے ہی بدل جاتے ہیں، اس کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ جب اس کی نفسیات میں ایمان داخل ہوتا ہے تو پھر انکار اور ناشکری اللہ کے فضل کے اعتراف اور شکر میں بدل جاتی ہے، جبکہ بخل اور دولت کی محبت، ایثار اور محبت سے بدل جاتی ہے۔ یہ ایمان انسان کو ایسی قدریں عطا کرتا ہے جن کے لیے انسان حرص، لالچ، منافقت اور جدوجہد کرتا ہے، اور یہ قدریں مال و دولت اور اقتدار اور حکومت سے زیادہ بلند ہوتی ہیں، اور وہ تمام دنیاوی اور حیوانی قدروں سے برتر ہوتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان ایمان کے بغیر نہایت ہی چھوٹا اور حقیر ہوتا ہے، جس کی امیدیں حقیر، جس کی ترجیحات حقیر اور جس کے اہداف حقیر ہوتے ہیں اگرچہ بظاہر وہ بہت عظیم مقاصد نظر آئیں۔ جوں جوں انسان کی حرص اور اس کی طمع بڑھتی ہے اور جوں جوں اس کا لالچ شدید ہوتا ہے، اس کے مقاصد بلند ہوتے ہیں، وہ زمینی قدروں کی دلدل میں گرتا جاتا ہے۔ اس کی تمام سرگرمیاں اس عمر کے لیے ہوتی ہیں۔ وہ اپنی ذات کے اندر محدود اور قید ہوجاتا ہے، اور اس قید سے اسے رہائی صرف اس صورت میں نصیب ہوسکتی ہے جب وہ اِس دنیا سے ایک بڑی دنیا کے ساتھ مربوط ہوجائے، جو اِس دنیا سے بہت بلند اور دور ہے، جو اس کی ذاتی محدود دنیا سے بہت وسیع ہے۔ وہ ایسی دنیا ہے جو اللہ ازلی کی تخلیق ہے، جس میں تمام امور اللہ ازلی و ابدی کی طرف لوٹتے ہیں، اور جس میں اس محدود دنیا کی سرحدیں ایک وسیع اور لازوال دنیا سے جاملتی ہیں۔
چنانچہ سورت کی آخری جھلک اسی کے بارے میں ہے، تاکہ انکار اور ناشکری کا علاج ہوسکے، تاکہ خودغرضی اور مفاد پرستی کی بیماری کا علاج کیا جاسکے، تاکہ نفس پرستی کے قلعے کو توڑ کر حقیقی انسان کو اس سے رہائی دلائی جاسکے۔ چنانچہ حشر و نشر کے منظر کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ انسان اِس دنیا پرستی اور خودغرضی کو، مارے خوف کے بھول جائے اور خوابِ خرگوش سے بیدار ہوکر چوکنا ہوجائے۔
’’تو کیا وہ اس وقت کو نہیں جانتا جب قبروں میں جو کچھ (مدفون) ہے اسے نکال لیا جائے گا اور سینوں میں جو کچھ (مخفی) ہے اسے برآمد کرکے اس کی جانچ پڑتال کی جائے گی‘‘۔(باقی صفحہ 33پر)
یہ ایک شدید اور مؤثر منظر ہے۔ قبروں سے انسانوں کا نکالا جانا، اس عمل کے لیے ’’بعثرہ‘‘ کا لفظ لایا گیا ہے، اور پھر اس منظر میں ان رازوں کو کھینچ کھینچ کر باہر نکالا جارہا ہے جن کو نفوسِ انسانی نے دبائے اور چھپائے رکھا تھا۔ حصلت کا لفظ اس کے لیے استعمال ہوا ہے کہ گویا سرکاری کارندے زبردستی حاصل کررہے ہیں۔ سرکاری تحصیل دار پہنچے ہوئے ہیں اور نہایت شدید پکڑ دھکڑ کا منظر ہے۔
کیا انسان نہیں جانتا کہ اسے اس قسم کے منظر سے گزرنا ہے۔ اسے کچھ یاد ہے ان حقائق کے بارے میں؟ یہ حقائق تو ہر انسان کی فطرت میں ہیں۔ اگر اسے علم ہے اور یاد ہے تو بس اس کی اصلاح کے لیے یہی کافی ہے۔ اس علم کا جواب نہیں دیا جاتا کہ اگر وہ جانتا تو کیا ہوتا؟ تم خود ہی سوچ لو کہ کیا ہوتا۔ بہت کچھ ہوجاتا۔ اگر انسان اس بات کو جانتا، بہت بڑے بڑے نتائج برآمد ہوجاتے، مجرد اس علم سے۔ یہ سب حرکات اور یہ جھلکیاں ایک آخری سکون و قرار پر ختم ہوتی ہیں جس تک پہنچ کر ہر حرکت اور ہر بات اپنے ٹھکانے تک پہنچ جاتی ہے:
’’یقیناً ان کا رب اس روز ان سے خوب باخبر ہوگا‘‘۔
سب لوگ رب کی طرف لوٹنے والے ہیں اور اس دن ان کے امور، ان کے رازوں اور ان کے حالات سے اللہ نہایت ہی اچھی طرح خبردار ہوگا۔ اس دن کی قید نہیں ہے، اللہ تو ہر وقت اور ہر دن ان کے حالات سے خبردار ہے، لیکن یہاں ’’یومئذ‘‘ کا لفظ نہایت مؤثر ہے، اور اس کے آثار انسان کو اس دن کے بارے میں چوکنا کردیتے ہیں۔ یہ کہ اللہ اس دن خبردار ہوگا یعنی کوئی سزا سے نہ بچ سکے گا۔ حساب کتاب نہایت علم و خبرداری پر مبنی ہوگا۔
یہ ضمنی مفہوم ہی یہاں اہمیت رکھتا ہے۔ غرض یہ پوری سورت ایک ہی مسلسل منظر ہے۔ ایک خوفناک و ہیبت ناک منظر۔ معافی، الفاظ اور اندازِ بیان سب کچھ بدل جاتا ہے اور یہ منظر اختتام پذیر ہوتا ہے، اور یہ قرآن کے معجز انداز کلام کا ایک مخصوص پہلو ہے۔