میرے سنہرے سفرنامے

عبدالمالمک مجاہد بین الاقوامی شہرت کے حامل اشاعتی ادارے ’’دارالسلام‘‘ کے بانی ہیں۔ اس ادارے کا مقصد قرآن و سنت خصوصاً سلفی مکتبِ فکر کی کتب کی توسیع و اشاعت ہے۔ ادارہ اس مقصد میں بڑی حد تک کامیاب ہے، اور اس کامیابی کا تمام تر سہرا عبدالمالک مجاہد کے سر ہے جنہوںنے اوائل عمری ہی سے اپنے شب و روز اس ادارے کے لیے وقف کر رکھے ہیں۔ ’’میرے سنہرے سفرنامے‘‘ بھی دراصل کسی سیروسیاحت کے شوق کا نتیجہ نہیں بلکہ ’دارالسلام‘ ہی کے معیارِ اشاعت وطباعت کو بہتر بنانے، اسے عالمی سطح پر لانے کی سعی اور تگ ودو میں کتب کی بین الاقوامی نمائشوں میں شرکت، جدید طباعتی مشینری کی تلاش و جستجو، اعلیٰ کاغذ کی فراہمی اور ملکوں ملکوں دارالسلام کے شو روم یا مراکزِ فروخت یا اشاعتِ کتب کے دیگر اداروں سے شراکتی و کاروباری مراسم کے قیام و استحکام کی کاوشوں کا ثمر ہے۔ ’’میرے سنہرے سفرنامے‘‘ کے مطالعے کے دوران جا بجا اس کی جھلک اور شواہد نمایاں طور پر اپنا احساس دلاتے ہیں۔ خود مؤلف نے بھی کتاب کے آغاز میں ’’عرض مولف و ناشر‘‘ میں ان الفاظ میں اس جانب اشارہ کیا ہے:
’’مجھے یقین ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے والوں نے بہت سے سفرنامے پڑھ رکھے ہوں گے۔ ہر مؤلف کا اپنا اپنا انداز ہوتا ہے جس میں وہ اپنے مشاہدات قلمبند کرتا ہے۔ راقم الحروف نے بھی اپنی زندگی میں بے شمار سفر کیے ہیں۔ دارالسلام کی تاسیس کے بعد اس کے مشن کو مکمل کرنے کے لیے مجھے دنیا کے مختلف ممالک میں جانے کا موقع ملا ہے۔ جس زمانے میں یہ سفر کیے گئے اُس دور میں لکھنے لکھانے کا وقت ہی نہیں ملا، بس دارالسلام میرے دل و دماغ پر سوار تھا۔ میں اسی کے بارے میں سوچتا اور اس کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے الحمد للہ! مسلسل جدوجہد کرتا رہا۔ سفرناموں میں بالعموم مؤلف اپنے مشاہدات یا سفر میں پیش آنے والے واقعات یا تجربات لکھتا ہے۔ میں نے بھی جو سفر کیے اور جو مشاہدات مجھے حاصل ہوئے انہیں سپردِ قلم کیا ہے۔ مجھے یہ فخر ہے کہ میں مسلمان ہوں، میں جہاں بھی جس جگہ بھی گیا میں نے اپنے دین، مذہب، عقیدے اور اخلاق کو نہیں چھوڑا۔ میری کوشش رہی کہ جہاں جائوں وہاں کے مسلمانوں سے ملوں، ان کے حالات معلوم کروں۔ اگر میں کسی غیر مسلم ملک کا سفر کروں تو ان کی معاشرت اور تہذیب و تمدن کا رنگ اپنے اوپر نہ چڑھنے دوں بلکہ وہاں کے لوگوں کو اپنے اخلاق و کردار سے متاثر کروں، چنانچہ اصلاحِ احوال کے لیے میں جو کچھ کرسکتا تھا، کرتا رہا۔ میرے ان سفرناموں کی کتابی شکل میں اشاعت کا مقصد اپنی نوجوان نسل کو مسلمانوں کے احوال سے مطلع کرنا ہے۔ ان میں جستجو، تلاش اور کوشش کا مادہ پیدا کرنا ہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ جو کچھ میرے مشاہدات ہیں ان کو بلا کم و کاست اپنے قارئین تک پہنچا دوں۔ میری پوری کوشش رہی ہے کہ میں صرف درست اور صحیح واقعات ہی لکھوں اور کسی بھی قسم کی مبالغہ آرائی سے مکمل گریز کروں۔‘‘
جیسا کہ مؤلف نے تحریر کیا ہے کہ انہیں اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے، چنانچہ وہ جہاں کہیں بھی جاتے ہیں اسلام کی دعوت و تبلیغ کی ذمے داری کو بھی فراموش نہیں کرتے، اور ان کے سفرناموں میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ انہوں نے خلوص سے لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا اور سمجھایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی کوشش میں برکت ڈالی اور بعض لوگ ان کی دعوت پر حلقہ بگوشِ اسلام ہونے پر تیار ہوگئے۔ اگرچہ ’’ایں سعادت بزور بازو نیست۔ تانہ بخشد خدائے بخشندہ‘‘ مگر بہر حال اس کے سعادت ہونے سے انکار ممکن نہیں۔
پاکستان میں اشاعتی اداروں کے ساتھ ’مراکزِ تحقیق‘ قائم کرنے کی روایت نہ ہونے کے برابر ہے، تاہم ’دارالسلام‘ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ادارے نے اپنا ایک مرکز تحقیق بھی قائم کررکھا ہے، اور یہ اسی مرکز کی برکت ہے کہ مؤلف نے جس ملک کا سفرنامہ تحریر کیا، اس کی ابتدا میں اس ملک سے متعلق بنیادی معلومات سرکاری نام، رقبہ، آبادی، قومی زبان، دارالحکومت اور اہم شہروں کے نام، جغرافیائی محلِ وقوع اور مختصر تاریخی احوال بھی درج کردیئے گئے ہیں، جس سے کتاب کی افادیت میں اضافہ ہوگیا ہے، یہ اہم اور مفید کام ممتاز محقق اور معروف صحافی جناب محسن فارانی کی مختصر مگر مؤثر کاوش ہے۔ کتاب اول سے آخر تک نہایت اعلیٰ 113 گرام کے اعلیٰ آرٹ پیپر پر شائع کی گئی ہے جس کا ہر صفحہ رنگین اور نفیس طباعت کا مرقع ہے۔ جگہ جگہ اخبارات و جرائد کی طرح اہم حاشیے بھی بنائے گئے۔
یہ روایت ہماری کتابی دنیا میں پہلے کم ہی دیکھنے میں آئی ہے، حسبِ ضرورت مختلف صفحات کو تصاویر اور نقشوںسے بھی مزین کیا گیا ہے۔ ’سنہرے سفرنامے‘ کے تعلق سے سرورق پر کتاب کا نام سنہرے رنگ میں طبع کیا گیا ہے۔ جلد نہایت مضبوط اور محفوظ ہے۔ کتاب کے آخری باب میں بعض ممالک کا چند سطری بلکہ کچھ کا تو محض چند لفظی تذکرہ کیا گیا ہے جس کے باعث تشنگی کا احساس رہتا ہے۔ مجموعی طور پر کتاب نہایت مفید و معلوماتی ہے، خصوصاً دینی ذوق رکھنے والوں کے لیے تسکین کا سامان لیے ہوئے ہے۔ بہتر ہوتا کتاب کے آخری ایک آدھ صفحے میں مصنف اور ادارے کی دیگر کتب کا بھی مختصر مختصر تعارف کرا دیا جاتا۔