یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں

صوبہ خیبر پختون خوا کے شہر مردان سے جناب مشتاق احمد بیزارؔ لکھتے ہیں:’’بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کے استعمال کا موقع محل تو معلوم ہے، مگر اصل معنی معلوم نہیں۔ مثلاً ایک لفظ ہے کون و مکاں۔ کیا آپ اس لفظ کے اصل معنی کے متعلق کچھ رہنمائی کرسکتے ہیں؟‘‘
الجواب: ’’جی ہاں کر سکتے ہیں!‘‘
مگررہنمائی سے پہلے اِک ذرا سی ’انگشت نمائی‘ کرتے چلیں۔ صاحب! آپ کا تخلص بھی خوب ہے۔ ہم نے تو چچا غالبؔ سے سنا تھا کہ ’’ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار‘‘۔ مگر اے مردِ مردان! یہاں تو آپ خود ہی مشتاق بھی ہیں اورخود ہی بیزار بھی۔ ’’یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟‘‘
’ماجرا‘ بھی عجیب لفظ ہے۔ اُنھیں الفاظ میں سے ایک ہے جن کے استعمال کا موقع محل سب جانتے ہیں، مطلب اکثر نہیں جانتے۔ ’ماجرا‘ دراصل دو الفاظ کا مرکب ہے، ’مَا‘ اور ’جرا‘ کا۔ یہاں ’مَا‘کا مطلب ہے ’جو‘۔ ’کیا؟‘ کے جواب میں استعمال کیا جانے والا ’جو‘۔ ’جرا‘ کے معنی ہیں ’جاری ہونے والی چیز یا گزرنے والی چیز‘۔ جو بات گزر گئی یا جو بِیت گئی وہ ’ماجرا‘ ہے، سرگزشت، احوال بیتی،حالت اور رُوداد۔ اب آئیے دیکھیں کہ آپ کے سوال کا کیا ماجرا ہے۔ صاحب! عربی کا ایک لفظ اُردو میں بہت مانوس ہے: ’کُن‘۔ اس کا مطلب ہے ’ہو جا‘۔ صیغۂ امر ہے۔ یعنی حکم کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر117 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’جب وہ کسی امر کا فیصلہ کرلیتا ہے تو اس کے لیے بس فرما دیتا ہے کہ ہوجا(کُن) تو وہ ہوجاتا ہے(فَیکُون)‘‘۔
’کُن فیکُون‘ کے قرآنی الفاظ اُردو شاعری میں بھی خوب استعمال ہوئے۔اقبالؔ کا مشہور شعر ہے:
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دما دم صدائے ’کُن فیکوں‘
پوری کائنات ’کُن‘ سے بنی ہے۔’کُن‘ سے بنے ہوئے کئی ’الفاظ‘ بھی اُردو میں استعمال ہورہے ہیں۔ ’کون و مکاں‘ بھی اسی کُن کا نتیجہ ہے۔’کون‘ کا لغوی مطلب ہے’ہوجانا، پیدائش، ایجاد یا عدم سے وجود میں آجانا‘۔’کون‘ کا لفظ عموماً دُنیا اور کائنات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لفظ ’کائنات‘ بھی کُن ہی سے بنا ہے۔ کائنات کے معنی ہیں ’موجودات‘۔ یعنی وہ چیزیں جو وجود میں آگئی ہیں۔ لغت میں ’کائنات‘ کا مطلب دنیا بھی ہے اور حادثہ، حقیقت، حیثیت اور موجود اثاثہ بھی۔ ذرا عدمؔ کا یہ لازوال اَثاثہ دیکھیے:
بس اک داغِ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری، آستانے ترے
اِس دُنیا اور اُس دنیا یعنی دونوں دنیاؤں کا ذکرمقصود ہو تو صیغۂ تثنیہ استعمال کرتے ہیں اور ’کونَین‘ کہتے ہیں۔ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلّم کے لیے ’شہِ کونین‘ کا لقب اکثر استعمال کیا جاتا ہے۔ آپؐ دونوں جہانوں میں ہمارے سردار، ہمارے آقا اور ہمارے مولا ہیں۔ الغرض ’کَون‘ کا مفہوم ہوا ’عالمِ وجود یا دُنیا‘۔ جب کہ ’مکان‘ موجود ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ یعنی اُس وسعت کو جس میں کوئی وجود سما سکے۔ اسی وجہ سے گھر کو بھی مکان کہا جاتا ہے۔ مکان میں جو شخص موجود ہو وہ ’مکین‘ کہلاتا ہے۔ مکان کی جمع ’اَماکِن‘ ہے۔ اُردو میں جمع کے طور پر ’مکانات‘ بھی مستعمل ہے اور عربی میں ’امکنہ‘ بھی۔ Spaceکے لیے بھی اُردو میں ’مکان‘ ہی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ الحاصل ’کون و مکان‘ کا مطلب ہوا ’دنیا جہان، تمام کائنات یا کُل عالم‘۔
پیدائش یعنی معدوم کا عدم سے وجود میں آنا ’تکوین‘ کہلاتا ہے۔ بائبل کی پہلی کتاب ’کتابِ پیدائش‘ یا ’سِفرِ تکوین‘ ہے۔ ’سِفْر‘(سین پر زیر’ف‘ ساکن) کا مطلب ہے کتاب یا لکھی ہوئی چیز۔ پیدائشی مسلمانوں کو بھی ’تکوینی مسلمان‘ کہا جاتا ہے۔ دنیا کی ہر چیز اور دنیا کا ہر انسان پیدائشی طور پر مسلمان یعنی ’تکوینی مسلم‘ ہے۔ چاند، سورج، زمین، آسمان، شجر، حجر، ہوائیں، بادل سب اللہ کے حکم کے پابند ہیں۔ اُس کے آگے سرِ تسلیم، خم کیے ہوئے ہیں۔ دنیا کا ہر انسان خواہ وہ زبان سے اقرار کرے، نہ کرے، دل سے گواہی دے، نہ دے ’تکوینی مسلم‘ ہے۔ اللہ کے بنائے ہوئے قانون کا چار وناچار پابند ہے۔ زندہ رہنے کے لیے سانس لیتا رہے گا۔ دل دھڑکتا رہے گا۔ آنکھوں سے دیکھے گا، کانوں سے سنے گا، منہ سے بولے گا اور منہ ہی سے کھائے گا۔ کہیں اور سے کھانے کی کوشش کرے گا تو منہ کی کھائے گا۔ صرف ناک سے سونگھے گا۔ ایک پاؤں اُٹھا کر کھڑا ہوجائے تو ہوجائے، دونوں پاؤں اُٹھا کر کھڑا نہ رہ سکے گا۔ وہ اِن سب قوانینِ الٰہی کا پابند ہے۔ ان قوانین سے کفر یا بغاوت نہیں کرپاتا۔ اسے کہتے ہیں ’تکوینی مسلمان‘۔
کُن کا مصدر ’کَوَّنَ، تَکْوِیْناً‘ ہے۔ مطلب: پیدا کرنا، ایجاد کرنا، واقع ہونا، پایا جانا یا ہوجانا۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا اس خاندان کے کئی الفاظ اُردو کی خدمت کررہے ہیں۔ مثلاًجو بات یا جو کام ہوسکے اُسے ہم ’ممکن‘ کہتے ہیں۔ اس کی جمع ’ممکنات‘ ہے۔ ہوسکنے یا ہوجانے کی توقع کو ’امکان‘ کہا جاتا ہے، جمع: ’امکانات‘۔ جن کاموں کا امکان ہوتا ہے شاعر کو اکثر وہ بھی ناممکن ہی نظر آتے ہیں، مثلاً:
حشر کہتے ہیں جسے، وصل کا وہ دن ہی نہیں
کیوں کہ اِس بھیڑ بھڑکّے میں یہ ممکن ہی نہیں
کُن سے ممکن ہونے پر جَون بھائی کا ایک جلا بُھنا شعر ہے:
حاصلِ کُن ہے یہ جہانِ خراب
یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں
شاعر کی شوخیاں اپنی جگہ۔ مگر یہ خود اہلِ خرد کی خرابیاں ہیں جنھوں نے اس جہانِ خوب کو خرابہ بنا کر ’جہانِ خراب‘ میں بدل دیا۔ کُن سے حاصل ہونے والی کائنات میں آپ کو کہیں کوئی تفاوت نظر نہیں آئے گا۔ ذرا نظر اُٹھا کر دیکھیے، کیا آپ کو کوئی فتور نظر آتا ہے؟ سورج اور چاند اپنے حساب کے پابند ہیں۔ زمین اپنے محور پر گردش کررہی ہے۔ دن اور رات باری باری آرہے ہیں جارہے ہیں۔ ہمیشہ دن ہوتا یا ہمیشہ رات رہتی تو کیا کرلیتے؟ ارضِ خاکی سورج کے گرد اپنے مدار میں سال بھر گھومتی ہے تو سردی، گرمی، بہار، خزاں چاروں موسم حاصل ہوتے ہیں۔ سدا ایک ہی موسم رہتا تو ہماری ’صدائیں‘ نکل جاتیں۔ دریا اپنی راہ پر رواں دواں ہیں۔ سمندر اپنے مقام پر ٹھاٹھیں مار رہے ہیں۔ ہوائیں بادل اُڑا اُڑا کر لا رہی ہیں۔ بادل بارش برسا رہے ہیں۔ بیج سے اَکھوا نکلتا ہے، کونپل پھوٹتی ہے، پودا بنتا ہے، پتے اور شاخیں نمودار ہوتی ہیں، پھر ایک تناور درخت اُٹھ کر کھڑا ہوجاتا ہے۔رنگا رنگ پھولوں اور قسما قسم پھلوں میں خوبیاں ہی خوبیاں ہیں، خرابی کہاں ہے؟ کُن سے ملتے جلتے لفظ کینو کے پھل کو دیکھ لیجیے۔ چھلکا کڑوا ہوتا ہے۔ گودا میٹھا یا کھٹ مٹھا ہوتا ہے۔ بیج پھر کڑوا ہوجاتا ہے۔ یہ سب کچھ کُن ہی سے تو حاصل ہوا ہے۔ ذرا ایک بار پھر اپنی نظریں آسمان سے لے کر زمین تک، اوپر نیچے ہر جگہ دوڑا لیجیے۔ مشرق، مغرب، شمال، جنوب یعنی اپنے چاروں طرف بھی نگاہیں پِھرا لیجیے۔ ہر سمت ڈھونڈیے کہ کُن سے کون سا ’جہانِ خراب‘ حاصل ہوا ہے؟ آپ کی نظر ناکام و نامراد ہی واپس آئے گی۔ ہاں یہ انسانوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے جس نے بحر وبر میں فساد برپا کر رکھا ہے۔