خیبر پختونخوا میں جنگلات کی آتش زدگی اورکوہستانی قوم کے مالکانہ حقوق کا مسئلہ

کوہستانی قوم اس علاقے کی قدیم ترین قوم ہے۔ کوئی بھی تاریخ دان نہیں بتا سکتا کہ ان پہاڑوں اور وادیوں میں کوہستانیوں سے پہلے کون سی قوم آباد تھی

کوہستانی قوم خیبرپختونخوا کے پانچ اضلاع میں رہائش پزیر ایک بڑی اور اس خطے کی قدیم ترین قوم ہے۔ یہ سوات، دیر اور انڈس کوہستان کی دشوار گزار وادیوں میں رہائش پزیر منفرد ثقافتوں اور روایات کی حامل قوم ہے۔ جس طرح پختون قوم اپنی طرز معاشرت کو پختون ولی کا نام دیتی ہے، اسی طرح کوہستانی قوم کے ہاں صدیوں سے مروج ضابطہ اخلاق کو ’’کوستان والے‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ ناقابل عبور برفانی پہاڑوں اور دروں کے درمیان منقسم ہونے کی وجہ سے کسی زمانے میں ایک کوہستانی زبان کے مختلف لہجے اب الگ الگ زبانوں میں ڈھل چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ان زبانوں میں ہزاروں الفاظ مشترک ہیں اور یہ لوگ اپنی مشترکہ کوہستانی شناخت پر فخر بھی کرتے ہیں۔
ملکی اور غیرملکی ماہرین بشریات اس بات پر متفق ہیں کہ شمالی پاکستان کی باقی درد اقوام کی طرح کوہستانی قوم اس علاقے کی قدیم ترین قوم ہے۔ کوئی بھی تاریخ دان نہیں بتا سکتا کہ ان پہاڑوں اور وادیوں میں کوہستانیوں سے پہلے کون سی قوم آباد تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ لوگ ہزاروں سال سے بلکہ نامعلوم تاریخ سے یہاں رہائش پزیر ہیں۔ دنیا بھر میں ایسی بہت سی اقوام ہیں جو ماضی قریب اور بعید کی نوآبادیاتی اقوام کی آمد سے پہلے کسی جگہ آباد تھیں۔ ایسے لوگوں کو مقامی لوگ یاIndigenous Peoples کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں کی اپنے علاقے، اس کی مٹی، پہاڑوں، جنگلات، اور ندی نالوں کے ساتھ غیر معمولی وابستگی ہوتی ہے۔ کئی ممالک کی حکومتوں نے مقامی لوگوں کی اپنی زمینوں پر مالکانہ حقوق کو تسلیم کیا ہوا ہے اور اقوام متحدہ اوراس سے وابستہ بہت سے اداروں نے اس کی حمایت کی ہے۔
نو دسمبر 2016 کو خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں دیر کوہستان سے جماعت اسلامی کے ممبر صوبائی اسمبلی محمدعلی اور سوات کوہستان سے اے این پی کے ممبر صوبائی اسمبلی سید جعفرشاہ نے مشترکہ طور پر ایک توجہ دلاؤ نوٹس نمبر941 پیش کیا جس میں کہا گیا کہ ملاکنڈ ڈویژن میں لوگوں کو جنگلات کی زمینوں کے مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہیں اور وہ کافی عرصے سے اس کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مقامی لوگوں اور محکمہ جنگلات کے درمیان حق ملکیت کے سوال پر طویل عرصے سے تنازعہ چلا آرہا ہے۔ اس پر وزیراعلی پرویز خٹک صاحب نے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی (جس کی کارروائی کی کاپی موجود نہیں اس لیے معلوم نہیں کہ کس نے کیا کہا)۔
اس کے بعد 23 جنوری 2017 کو خصوصی کمیٹی کا دوسرا اجلاس صوبائی وزیرخزانہ مظفرسید ایڈوکیٹ کی صدارت میں ہوا جس میں جناب جعفرشاہ صاحب اور جناب محمد علی صاحب کے علاوہ موجودہ وزیراعلی محمود خان (جو اس وقت وزیر برائے کھیل و ثقافت تھے) اور انڈس کوہستان سے ایم پی اے عبدالحق صاحب، ایم پی اے عبدالستار خان صاحب اور چترال سے ایم پی اے محمد سلیم صاحب بھی بطور کمیٹی ممبر شریک تھے۔ اجلاس میں محکمہ جنگلات کی طرف سے شیر نواز صاحب چیف کنزرویٹر فارسٹ اور شبیرحسین صاحب نے شرکت کی۔ اس دوسرے اجلاس کی کاروائی تفصیلات (minutes) موجود ہیں جو بہت دلچسپ اور معلومات افزاء ہیں۔ اس سے دو چیزوں کا پتہ چلتا ہے۔ ایک یہ کہ صوبائی اسمبلی میں ہمارے عوامی نمائندوں نے اس مسئلے کو کس نظر سے دیکھا ہے اور انہوں نے اس مسئلے کو کیسے اور کہاں تک اُٹھایا ہے۔ دوسرا یہ کہ محکمہ جنگلات کے اعلی افسران ریاست یا صوبائی حکومت کی طرف سے اس مسئلے پر کیا رائے رکھتے ہیں۔
جب خصوصی کمیٹی کا دوسرا اجلاس ہوا تو کمیٹی کے چیرمین مظفر سید ایڈوکیٹ نے اِس کے مقاصد پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جنگلات کے مالکانہ حقوق کے حوالے سے قوم میں جذبات اوراحساسات موجود ہیں۔ یہ لوگ صدیوں سے یہاں آباد ہیں اور نسل درنسل مقامی زمینوں کا روایتی استعمال کرتے ہیں۔ حکومت نے جنگلات کی کٹائی کے حوالے سے جو بھی پالیسی بنائی ہے لوگ اس پر من و عن عمل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں اس اجلاس میں رائلٹی پر بات نہیں ہوگی بلکہ مالکانہ حقوق پر بات ہوگی۔ انہوں نے محکمہ جنگلات کے افسران کو دعوت دی کہ وہ اس ضمن میں وضاحت کریں۔
اس پر محکمہ جنگلات کی طرف سے شبیرحسین صاحب اور شیرنواز صاحب چیف کنزرویٹر فارسٹ نے کمیٹی کو بتایا کہ جب ریاستیں حکومت پاکستان میں ضم ہو گئیں تو اُس کے بعد حکومت نے کمیشن مقرر کیا تھا ۔ کمیشن کی رپورٹ میں تفصیل بیان کی گئی ہے کہ والی سوات اور نواب دیر کی اپنی جائیداد کتنی تھی اور قوم کی جائیداد کتنی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ کمیشن رپورٹ سے واضح پتہ چلتا ہے کہ جنگلات ریاست کی جائیداد تھی اور وہ ریاست سے ریاست کو منتقل ہوگئی۔ (کیا والی سوات کی ریاست نے لوگوں کی مرضی سے ان کی آبائی زمینیں دوسری ریاست یعنی پاکستان میں ضم کروائیں تھیں؟)
اس کمیٹی میں شریک انڈس کوہستان سے تعلق رکھنے والے وزیراعلی کے مشیر عبدالحق ، عبدالستار خان ، دیر کوہستان کے محمد علی، سوات کوہستان کے جعفرشاہ سمیت تمام ارکان نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ مقامی لوگوں کے مالکانہ حقوق کا معاملہ بہت ضروری اور حل طلب ہے۔ مہذب ملکوں میں کوئی بھی ریاست مقامی لوگوں کو ان کے حق ملکیت سے محروم نہیں کرتی۔ محمود خان (موجودہ وزیراعلی) نے کہا کہ ’’چیف کنزویٹر صاحب نے صرف جنگلات کا ذکر کیا ہے مگر عوام کو زمین کا مسئلہ ہے۔ وہ عوام کی زمین حکومت کو نہیں دے سکتے کیونکہ عوام سے ہم نے ووٹ لیا ہے‘‘۔
عبدالستار خان ایم پی اے نے اس مسئلے کو نہایت اہم مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس زمین پر حق ملکیت پہلے اللہ کا ہے پھرعوام کا ہے۔ سٹیٹ لینڈ کی تشریح غلط کی جاتی ہے۔ اسٹیٹ کی ملکیت اور حکومت کی ملکیت دو الگ الگ ایشو ہیں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ان کے علاقوں کی اپنی تاریخ ہے۔ ان کے بڑوں نے جو فیصلے کئے ہیں وہ عوام کے حق میں کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف جنگل نہیں بلکہ جنگلات کے اندر جتنے بھی معدنیات، وائلڈ لائف اور پانی سب عوام کا حق ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین مظفرسید ایڈوکیٹ نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ’’زمین قوم کی تھی، قوم کی ہے اور قوم کی رہے گی‘‘۔
بدقسمتی سے حق ملکیت کی یہ تحریک صوبائی اسمبلی میں اپنے قانونی اور منطقی انجام تک نہ پہنچ سکی کیونکہ اس دوران 2018 کے الیکشن میں دونوں محرکین، جناب جعفرشاہ صاحب اور محمدعلی صاحب سمیت بیشتر کمیٹی ممبران الیکشن ہار گئے اور وہ صوبائی اسمبلی کے ممبران نہ رہے ۔ اب سنا ہے کہ موجودہ وزیراعلی جو اس وقت ملکیت کے حوالے سے خصوصی کمیٹی کے رکن اور مقامی لوگوں کے مالکانہ حقوق کے پرجوش حامی تھے، اس معاملے کو دبا کر سرد خانے میں ڈال چکے ہیں۔ اس بات کی تصدیق سوات کوہستان سے موجودہ ممبر صوبائی اسمبلی شرافت علی نے بھی کی ہے۔
جب تک مقامی لوگوں، خصوصا خیبرپختونخوا میں ہزاروں سال سے آباد کوہستانیوں کا ان کی آبائی زمینوں پر آئینی حق تسلیم نہیں کیا جاتا، یہ پہاڑ اور ان پر اگنے والے جنگلات یونہی لاوارث رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ جنگلات نامعلوم اور مشکوک وجوہات کی بنا پرجلتے ہیں تو پشاور اور اسلام آباد میں براجمان ریاست کے بیوروکریٹس ان کی تپش محسوس نہیں کرتے۔ یہ ملکیت سے محروم مقامی لوگ ہی ہوتے ہیں جو ان جنگلات کی آگ بجھانے میں اپنی جانیں لڑاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حق ملکیت کی یہ جنگ ایک طویل اور صبر آزما جنگ ہے جو مقامی لوگوں کو خود لڑنا ہوگی۔ چاہے انہیں آئین پاکستان کا سہارا لے کر سپریم کورٹ جانا پڑے یا کسی بین الاقوامی فورم میں۔